فتح قسطنطنیہ، زوالِ قسطنطنیہ، فتح قسطنطنیہ
استنبول جو پوری دنیا میں 1923ء تک قسطنطنیہ کہلاتا تھا۔ وہ نام جو سید الانبیاء ﷺ کی زبان مبارک سے بشارتوں والی احادیث میں ادا ہوا۔ کمال اتاترک اور اسکے سیکولر حواریوں کو اس نام سے اسقدر نفرت تھی کہ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد فوراً ہی اسکا یونانی زبان میں مستعمل نام استنبول رکھ دیا، جو دراصل ایک یونانی محاورے "ستنبولی" سے مختص ہے جسکا مطلب ہے "شہر کے وسط" یا " شہر کی جانب"۔
یہ شہر، مسیحی یورپ کے اتحاد کی آخری علامت، بازنطینی حکومت کا مرکز تھا جسے پورے یورپ میں"Constantinople" کہا جاتا تھا۔ اسے رومی سلطنت کے بادشاہ کانسٹنین نے گیارہ مئی 330 عیسوی میں اپنے مشرقی دارالحکومت کے طور پر منتخب کیا۔ اسے شروع میں مشرقی روم بھی کہا جاتا رہا لیکن پھر اس شہر کو کانسٹنین کے نام سے موسوم کر دیا گیا۔ 1453 عیسوی میں جب اکیس سالہ سلطان محمد فاتح نے 53 دن کے محاصرے کے بعد 16 اپریل کو بادشاہ کانسٹنین دہم کو شکست دی تو خلافت عثمانیہ کا مرکز بھی ایڈرین شہر سے یہاں منتقل کر دیاگیا۔
چار سو ستر (470) سال یہ شہر امت مسلمہ کی مرکزیت کی علامت رہا۔ لیکن ان ٹھیک چار سو ستر سالوں میں پوری مغربی دنیا اس احساس سے کڑھتی رہی کہ انکا تہذیبی، سیاسی اور مذہبی مرکز نہ صرف ان سے چھن چکا ہے، بلکہ اب اسکے باسی عشقِ رسول ﷺمیں ڈوبے ہوئے مسلمان بھی ہیں اور مسلم امہ کی مرکزیت کے علمبردار بھی۔
جس شہر کے باسیوں نے اپنا مرکزِ نگاہ، میزبان رسول حضرت ابو ایوب انصاریؓ کو بنا لیا ہو اور ان کے مرقد کو "سلطان ایوب" کا مقام کہہ کر پکارا جاتا ہو، اب ایسے قسطنطنیہ پر دوبارہ قبضہ کرنا یورپ کیلئے ایک خواب تھا۔ قبضہ ہو بھی جاتا تو زمین انکے ہاتھ آتی مگر لوگوں کے دل تو اب روم کی بجائے مدینہ میں دھڑکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ عظیم اول کا بنیادی ہدف خلافت عثمانیہ کو سیکولر قومی ریاستوں میں تقسیم کرکے امت مسلمہ کی وحدت کو تار تار کرنا تھا۔
اس مقصد کے لیے انہیں حجاز میں شریف مکہ میسر آیا جسکی لوگ آل رسول ﷺہونے کے ناطے عزت کرتے تھے، اس نے عرب پر ہاشمی ہونے کی وجہ سے اپنی قیادت کا دعویٰ کردیا۔ ترک سید الانبیاء ﷺسے محبت کرتے تھے، انہوں نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا، یہ سب تمہارا ہے، بس ہمیں اپنے آقا کی تبرکات بخش دو۔ حجاز کا ترک گورنر، وہ تبرکات ایک ٹرین پر اس احترام سے لے کر استنبول آیا کہ سارا راستہ انجن پر کھڑا پہرہ دیتا رہا۔
آج استنبول کا سب سے بڑا سرمایہ توپ کاپی میں موجود رسول مقبول ﷺکی تبرکات ہیں۔ دوسری جانب عربوں کے مقابل ترک قومیت کا نعرہ بلند کرنے کے لئے یورپ کو یہودی النسل کمال اتاترک میسر آگیا، جس نے نہ صرف خلافت عثمانیہ کے خاتمے پر مہر تصدیق ثبت کی، بلکہ اسلام سے ہر تعلق ختم کرنے کے لیے عربی رسم الخط یہاں تک کہ عربی میں اذان تک پر پابندی لگا دی۔
کمال اتاترک کا ترکی یورپ کے رنگ میں رنگ کر انکا حصہ بننے کی آرزو میں تڑپنے لگا۔ سو سال کی محنت، جبہ و دستار کی جگہ پینٹ کوٹ، حجاب اور برقعے کی جگہ منی سکرٹ، قہوہ خانوں کی جگہ شراب خانے، اتنا کچھ بدلا یہاں تک کہ مغرب کی وہ تمام غلاظت جو انکے ساحلوں، نائٹ کلبوں اور فحش فلموں میں پائی جاتی تھی، ترکی بھی اسی غلاظت کے گڑھے میں ڈوب گیا۔
یورپ کا حصہ بننے اور ان جیسا کہلانے کی اس ایک سوسالہ کوشش پر اس لمحے اوس پڑ گئی جب پوری یورپی یونین متحدہ طور پر ایک مسیحی یورپی یونین کے روپ میں سامنے آگئی۔ وہ قسطنطنیہ اور اس کے باسی جو کبھی ان کی قوت کا مرکز تھے اب انکے لئے قابل نفرت تھے، اسلئے کہ نسل، رنگ، زبان اور علاقے کے باوجود ان کی زبان پر کلمہ طیبہ جاری ہو چکا تھا اور انکے نام عبداللہ اور عبدالرحمن جیسے تھے۔ مسیحی یورپی یونین کی نفرت اور ترکوں کی اسلام سے لازوال عقیدت کی روایت نے مل کرترکی کو اسلامی شناخت کے ایک تناور درخت کی شکل دے دی ہے۔
نجم الدین اربکان سے طیب اردگان تک ترکی ایک بار پھر ملت اسلامیہ کا مرکز نگاہ بنا ہوا نظر آنے لگا۔ پورے ترکی میں اب اسلامی اخوت کو شکست دینا ممکن نہ تھا، اس لئے توجہ قسطنطنیہ یعنی استنبول پر مرکوز کر دی گئی، جسکا اسلامی نام اتاترک اور اسکے ساتھیوں کو گوارا نہ تھا۔
آج استنبول میں سیکولر اتحاد کی جمہوری گاڑی نے اردوان کی پارٹی پر فتح حاصل کر لی ہے۔ میرے سامنے اس وقت اسرائیل کا سب سے بڑا اخبار ہیرٹز (HAARETZ) ہے جسکی سرخی میں یہودیوں کی خوشی نظر آتی ہے"Erdogan just suffered a humiliating Defeat۔ And thanks to Istanbul، Turkey's democracy just won famous victory۔ اردگان ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوا۔ استنبول کا شکریہ۔ ترکی کی جمہوریت نے مقبول فتح حاصل کی"۔
یہ تو ہونا تھا۔ ایسا کیوں ہونا تھا۔ میں گذشتہ سال دودفعہ استنبول کی سڑکوں پر دیر تک گھوما، پورے ترکی میں ان شہروں میں گیا جہاں شام کے مہاجرین آ کر آباد ہوئے تھے۔ اردوان کے ریفرنڈم کے آخری جلسے میں مولانا روم کے مزار کے روبرو میں نے اسکی وہ تقریر بھی سنی جس پر لوگ وارفتہ وار اسکے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔ لیکن استنبول کی سڑکوں پر گھومتے، حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار پر حاضری دیتے، توپ کاپی میں آقائے دوجہاں ؐ کے تبرکات کی زیارت کرتے اور اس زیارت گاہ کی کھڑکیوں سے دوسری جانب مغرب (جسے رسول اکرم ﷺ نے اہل روم کہا ہے) کا نظارہ کرتے ہوئے، میرے ذہن سے اس شہر کے بارے میں رسول اکرم ﷺکی وہ احادیث بار بار ٹکراتیں جو آپؐ نے اس شہر کے آخرالزمان کے بارے میں فرمائیں ہیں، اور میں سوچ میں پڑ جاتا کہ دور فتن کی جو ترتیب اور ملحمۃ الکبریٰ کا جو نقشہ مخبر صادق ﷺنے بتایا ہے، اس کے مطابق تو یہ شہراب اس امت کے پاس کچھ دیر کا مہمان ہے۔
قسطنطنیہ یعنی استنبول جس کی پہلی فتح کی بشارتیں یوں ہیں۔ "میری امت کا پہلا لشکر جو قیصر کے شہر قسطنطنیہ پر چڑھائی کرے گا ان کو بخش دیا جائے گا" (بخاری)۔ عبداللہ ابن عمر نے اللہ کے رسول سے پوچھا کہ قسطنطنیہ اور روما میں کون سا شہر پہلے فتح ہوگا آپؐ نے فرمایا "ہرقل کا علاقہ قسطنطنیہ پہلے فتح ہوگا" (مسند احمد، مسندرک حاکم)۔ یہ فتح سلطان محمد فاتح کی فتح کی صورت میں مسلمانوں کی قسمت میں آچکی ہے لیکن احادیث تو قسطنطنیہ کی ایک بار پھر فتح کی بشارت دیتی ہیں۔ فرمایا "ترک دو مرتبہ خروج کریں گے، اور جب وہ دوسری مرتبہ خروج کریں گے تو اپنے گھوڑے دریائے فرات پر باندھیں گے، اس کے بعد ترک نہیں رہیں گے (کتاب الفتن)۔
دوسری دفعہ قسطنطنیہ کی فتح کی ترتیب رسول اکرم ﷺ نے انتہائی وضاحت سے بتائی۔ حضرت معاذؓ بن جبل کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا "بیت المقدس کی آبادی، مدینہ کی بربادی، مدینہ کی بربادی ہوئی تو جنگِ عظیم شروع ہو جائے گی، یہ معرکہ شروع ہوا تو پھر قسطنطنیہ فتح ہو جائے گا اور جب قسطنطنیہ فتح ہوگا تو دجال کا خروج ہوگا"۔ پھر آپ ؐ نے اپنا ہاتھ حضرت معاذؓ بن جبل کی ران پر مارا اور فرمایا "یہ ایسے ہی یقینی ہے جیسے تمہارا یہاں ہونا یا بیٹھنا یقینی ہے" (سنن ابی داؤد)۔
مرکز دل و نگاہ مدینہ کی خرابی کا ذکر کرتے ہوئے میرے آقا ؐنے بہت دلگیر نقشہ کھنچا ہے۔ "مدینہ کو عمدہ حالت میں چھوڑ دیا جائے گا حتیٰ کہ نوبت یہ ہوجائے گی کہ کتا یا بھیڑیا مسجد میں داخل ہوگا اور کسی ستون یا منبر پر پیشاب کرے گا"۔ صحابہ نے عرض کی: اللہ کے رسول یہ فرمایئے اس زمانے میں مدینے کے پھل کس کام آئیں گے، فرمایا "پرندے اور درندے ان پھلوں کو کھائیں گے" (مؤطائ، امام مالک، صیح ابن حبان)۔ رسول اکرم ﷺکی اس پیشگوئی کے عین مطابق، بیت المقدس کی آبادی کا آغاز اسرائیل کا اسے دارالحکومت بنانے کے اعلان اور امریکہ کی حمایت سے ہو چکا، اور اب قسطنطنیہ کے عوام نے سیکولرزم اور لادینیت کے حق میں فیصلہ دے کراس شہر کے اگلے مرحلے کا آغاز کر دیاہے۔
یادرکھیں، ہم اس دور میں زندہ ہیں جب حق و باطل کا آخری معرکہ برپا ہونے کو ہے، یہ معرکہ کن منزلوں سے گزرے گا، سرکار دوعالم ﷺنے اس بارے میں کیا پیش گوئی کی، آج کے دور میں یہ جاننا بہت ضروری ہے۔ کل اس پر بات ہوگی۔