آمریت پسند ’’جمہوریئے‘‘
پاکستان ٹیلی ویژن کے اینکروں کا بس نہیں چلتا تھا کہ تحریکِ لبیک اور حکومت کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد اپنا بظاہر نظر آنے والا جمہوری لبادہ اُتار پھینکیں اور اپنے اندر چُھپے ہوئے فیلڈ مارشل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ملاپ سے جنم لینے والے بدترین آمرانہ رویّے کا کھل کر اظہار کریں۔ یہ لوگ اظہار کرتے بھی رہے، لیکن انہیں کسی سیاسی پارٹی یا سیاسی رہنما کا کندھا چاہئے تھا، جسے وہ ریت کی بوری کے طور پر استعمال کر سکتے، تاکہ ساری گالیاں اس کے حصے میں آئیں اور یہ اینکر حضرات واپس دودھ کے دُھلے بن کر اپنے پروگراموں میں "جمہوریت جمہوریت" کا راگ الاپنے لگیں۔
کچھ دیر مایوسی رہی لیکن پھر انہیں مرحوم و مغفور پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک الٹرا سیکولر سینیٹر کا اپنے ٹاک شوز میں ساتھ میسر آ گیا، جنہیں اپنے خاندانی پسِ منظر کے علی الرغم نظریاتی ہونے کا بہت زعم ہے۔ موصوف کچھ عرصہ "اینکری" کا بھی مزہ لوٹتے رہے ہیں۔ تحریکِ لبیک کے خلاف آمرانہ اور ڈکٹیٹرانہ اقدامات، جن کی خواہش پاکستان ٹیلی ویژن کے بیشتر اینکروں کے دلوں میں آتش فشاں کے لاوے کی طرح اُبلنے کا راستہ ڈھونڈ رہی تھی، ان سب کی اس خواہش کو ان صاحب نے زبان دے دی۔ یہی وجہ ہے کہ تحریکِ لبیک کے خلاف ہونے والے ہر ٹاک شو کی یہ روحِ رواں بن گئے۔ ان کے "ارشاداتِ عالیہ" کسی بھی ملٹری ڈکٹیٹر، فاشسٹ آمر یا بدترین جمہوریت دُشمن کی طرح آگ اُگل رہے تھے، جن کا لُبِ لباب یہ تھا کہ ہمیں ایسے نظریات رکھنے والی پارٹی کو پاکستانی سیاست سے دُور رکھنا چاہئے، ان پر الیکشن لڑنے، جلسہ کرنے، جلوس نکالنے پر پابندی ہونی چاہئے۔
انہیں اگر ابھی سے نہ کچلا گیا تو یہ لوگ پورے ملک کو یرغمال بنا لیں گے۔ ان کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہونی چاہئے۔ انہیں سخت قوانین کے تحت جیلوں میں بند رکھنا چاہئے اور ان پر ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر مستقلاً پابندی رہنی چاہئے۔ ان سینیٹر صاحب کی اس عظیم "جمہوری" گفتگو اور فرعون صفت لہجے سے جنرل ضیاء الحق یاد آ گئے۔ یہ لہجہ بالکل ویسا ہی تھا، جس لہجے میں وہ ذوالفقار علی بھٹو کے "لائق" فرزند مرتضیٰ بھٹو کی "الذوالفقار" کے خلاف "رطب اللسان" ہوا کرتے تھے۔ اس عظیم "جمہوری" سینیٹر کی گفتگو پر سب اینکر سر دھنتے رہے۔
موصوف کیوں تحریکِ لبیک کے خلاف نہ بولتے۔ زخم اور چوٹ ہی بہت گہری ہے۔ وہ لیاری جس کے ووٹروں پر کبھی ذوالفقار علی بھٹو ناز کیا کرتا تھا، بینظیر جسے اپنا دوسرا گھر تصور کرتی تھی، اس لیاری کے حلقہ NA246 میں ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ، بینظیر کا نورِ نظر، لختِ جگر بلاول بھٹو ایسی "جمہوری ذِلت" کا شکار ہوا تھا، کہ علامہ خادم حسین رضوی کی تحریکِ لبیک کا ایک ادنیٰ کارکن جسے شاید کراچی میں بھی کوئی نہ جانتا ہو? احمد بلال سلیم قادری? وہ 42، 345 ووٹ لیتا ہے اور پاکستانی سیاست پر پچاس سال سے راج کرنے والی پیپلز پارٹی کے مستقبل کی اُمید، انوکھا لاڈلا جو چاند مانگنے کی خواہش لے کر نکلا تھا صرف 39، 325 ووٹ لیتا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی وہ پیپلز پارٹی جس کا جنم پنجاب کے شہر لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پر ہوا تھا، جس صوبے میں اس پارٹی کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ 1970ء کے الیکشنوں کے نتائج میں کوئی دوسری پارٹی ووٹوں کے اعتبار سے دُور دُور تک نظر نہیں آتی تھی۔ بھٹو کے اپنے صوبے سندھ میں اسے وہ مقبولیت حاصل نہ ہو سکی، کراچی میں تو پیپلز پارٹی کا صفایا ہی ہو گیا تھا۔ اس زمانے کے صوبے سرحد اور بلوچستان میں بھی بھٹو کی پارٹی دُور دُور تک نظر نہیں آتی تھی۔ پنجاب ہی اس پارٹی کی جنم بھومی اور مرکز و محور تھا۔
اسی پنجاب میں اس مرحوم و مغفور پارٹی کی حالت یہ ہوئی کہ 2018ء کے الیکشنوں میں یہ تحریکِ لبیک سے بھی کم ووٹ لے کر چوتھی پارٹی کے مقام پر جا گری۔"نوزائیدہ" تحریکِ لبیک نے 18، 88، 240 ووٹ لے کر پنجاب میں تیسری اور "قدیم" پیپلزپارٹی نے 17، 89، 780 ووٹ لے کر چوتھی پوزیشن حاصل کی۔ یہ درد اتنا شدید ہے، یہ چوٹ اس قدر گہری ہے کہ ہر کوئی بِلبلا رہا ہے لیکن اظہار کی جرأت صرف اس موصوف سینیٹر ہی کو حاصل ہوئی۔
پابندی لگانے اور دھرنے کے دوران فسادات اور شدت پسندی پر گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے "جمہوریت پسند" آمریت صفت اینکروں اور سیاستدانوں کو چار پولیس کے سپاہیوں کے جاں بحق ہونے کی یاد اس قدر ستائی کہ انہیں اس ملک میں ستر سالوں میں ہونے والے وہ تمام فسادات یاد ہی نہ رہے جو عوامی غیض و غضب کے نتیجے میں برپا ہوئے تھے۔ اِملاک کو نقصان پہنچانے، لوگوں کو قتل کرنے، پولیس والوں کو تشدد کر کے ہلاک کرنے کے جرائم ہی تو تھے جن کی بنیاد پر تحریکِ لبیک کو کالعدم قرار دیا گیا۔ اگر یہی "معیارِ سزا" ہے تو پھر آج سے چودہ سال پہلے 27 دسمبر 2007ء کو لوٹ جاتے ہیں۔
بینظیر بھٹو ایک بم دھماکے میں جاں بحق ہو جاتی ہیں۔ بم دھماکے جن میں اس ملک کے ستر ہزار افراد شہید ہوئے۔ بینظیر بھی ان تمام پاکستانیوں میں سے ایک تھیں جو اس دہشت گردی کا شکار ہوئے تھے۔ کراچی سے لے کر گلگت بلتستان تک بسنے والے کروڑوں پاکستانیوں کا اس میں کوئی قصور نہیں تھا کہ ان کی املاک جلائی جائیں، انہیں بے دردی سے قتل کیا جائے، ان کے گھر لوٹے جائیں اور راہ چلتی عورتوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جائے۔ میرے سامنے رائٹرز کی صرف ایک دن کے ہنگاموں کی رپورٹ ہے، جو 28 دسمبر 2007ء کو اس کے نمائندہ امتیاز شاہ نے جاری کی تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق صرف چوبیس گھنٹوں میں 31 لوگ بے دردی سے قتل کئے گئے جن میں "چار پولیس والے" بھی شامل تھے۔ صرف حیدر آباد میں پچیس بنک لوٹے گئے اور سو گاڑیوں کو آگ لگائی گئی۔
کراچی کے ایک پولیس سٹیشن کو آگ لگا دی گئی، اسلحہ چوری کر لیا گیا اور گاڑیوں کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔ یہ صرف ایک دن کے بلوے کی رپورٹ ہے، جبکہ یہ ہنگامے بینظیر بھٹو کی تدفین کے بعد بھی کئی دن چلتے رہے، جن میں اکیس ریلوے سٹیشنوں اور درجنوں ریل گاڑیوں کو آگ لگائی گئی۔ اگر یہی "بلوائی اُصول" ہے کسی تنظیم پر پابندی لگانے کا تو اس ضمن میں پیپلز پارٹی کے خلاف سب سے زیادہ شواہد موجود ہیں۔ لیکن ان فسادات کے بعد اس ملک کا وزیر اعظم اور صدر دونوں عہدے اسی "شدت پسند پارٹی" کے حصے میں آئے۔ نہ کوئی اینکر تڑپا اور نہ کسی کالم نگار کی جمہوری حِس پھڑکی۔
یہ ایک جنازہ تھا جو پیپلز پارٹی نے اُٹھایا، جبکہ دو جنازے تحریکِ لبیک نے اُٹھائے۔ ایک ممتاز قادری کا جنازہ کہ جس موقع پر اگر آگ لگانے کا اشارہ بھی ہوتا تو شاید بہت کچھ خس و خاشاک ہو جاتا اور دوسرا علامہ خادم حسین رضوی کا جنازہ کہ جس کی نظیر سو سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ اتنا ہجوم تو زندہ بھٹو کو بھی میسر نہ ہو سکا۔ لیکن دونوں جنازوں میں لوگوں کا سکون، اطمینان اور احترام کا یہ عالم رہا کہ سڑک پر لگے کسی پودے کا پتہ بھی نہ ٹوٹا۔
لیکن کیا کیا جائے میرے سیکولر، لبرل "جمہوریت نواز آمریت پسند" دانشوروں اور اینکروں کا کہ اگر کہیں اس ملک میں اسلام کے حوالے سے کوئی شخص کا پارٹی مقبول ہونے لگتی ہے تو ان کو خود پر قابو ہی نہیں رہتا، غصے کے عالم میں پتہ نہیں کیا کچھ کہہ جاتے ہیں۔ لیکن یہ قوم بھی عجیب ہے ان کی ساری محنت پر ہر چند سالوں پر پانی پھیر دیتی ہے اور اسلام اور سیدالانبیائؐ کے نام پر دیوانہ وار سڑکوں پر نکل آتی ہے۔