حکومت کا اپوزیشن کے ساتھ غیر جمہوری رویہ
آجکل حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نیب کے قانون میں ترمیم کے لیے مذاکرات ہو رہے ہیں۔ قانون سازی کے لیے مذاکرات کوئی مک مکا نہیں بلکہ جمہوریت کا حسن ہے۔ یہ کوئی طعنہ نہیں ہے بلکہ معاملات کو آگے بڑھانے کا درست طریقہ ہے۔ اپوزیشن کے ساتھ ملکر کام کرنا ہی جمہوریت کی اصل روح ہے۔ اسے ہی اتفاق رائے کہا جاتا ہے۔
عمران خان کی حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ رہا ہے کہ اس نے اپوزیشن کے ساتھ مشاورت اور بات چیت کے تمام دروازے بند کر دیے تھے۔ عمران خان نے اپنی ساری ٹیم کو روزانہ اپوزیشن پر تنقید کرنے پر لگائے رکھا ہے۔ جس حکومت کی پارلیمنٹ میں واحد حکمت عملی مراد سعید کی تقریر ہو، و ہ حکومت اپوزیشن کے ساتھ ملکر کیا کوئی فیصلہ کر سکتی ہے۔
جہاں حکومتی ترجمانوں کی کارکردگی کا واحد معیار یہ ہو کہ وہ اپوزیشن کو کتنی اچھی اور کتنی سخت گالی نکال لیتے ہیں، وہ حکومت اپوزیشن کے ساتھ ملکر کوئی قانون سازی کر سکتی ہے۔ جہاں وزیر اعظم اپوزیشن سے ملنے کو اپنی توہین اور اپنی انا کے خلاف سمجھتے ہوں، وہاں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کیا کوئی تعاون کی راہ نکل سکتی ہے۔
عمران خان نے بلا شبہ ان دو سالوں میں بہت کوشش کی ہے کہ وہ اپوزیشن کی مدد اور تعاون کے بغیر ہی ملک چلا لیں۔ اہم قومی معاملات سے اپوزیشن کو جان بوجھ کر مائنس کرنے کی حکمت عملی پر کام کیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ کو جان بوجھ کر غیر موثر کیا گیا ہے۔ قانون کی بجائے آرڈیننس سے کام چلانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اپوزیشن سے بات چیت کی بجائے انھیں جیل بھیجنے کی حکمت عملی پر کام کیا گیا ہے۔ آئین میں جہاں جہاں اپوزیشن سے مشاورت مشروط کی گئی ہے اس کو بھی نظر انداز کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ایسی راہیں تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اپوزیشن سے مشاورت کے مفہوم اور مطلب ہی تبدیل کر دیے جائیں۔
اس ضمن میں اپوزیشن کی پہلے دن سے حکمت عملی مختلف رہی ہے۔ اپوزیشن نے حکومت کے تمام تر منفی رویہ کے باوجود ہمیشہ مفاہمت کا پیغام ہی دیا ہے۔ قومی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے حکومت کو چارٹر آف اکانومی کرنے کی دعوت دی۔ حکومت کی جانب سے اس پیشکش کا تضحیک کے ساتھ مذاق اڑایا گیا۔ لیکن آج وقت نے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک بروقت اور مثبت پیشکش تھی۔ آج وقت ثابت کر رہا ہے کہ عمران خان نے وہ پیشکش نہ مان کر غلطی کی تھی۔ جس کا خمیازہ وہ بھگت رہے ہیں۔
اس کے بعد چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی اور ممبران الیکشن کمیشن کی تعیناتی کے موقع پر بھی عمران خان اور ان کی ٹیم نے اپوزیشن کے آئینی کردار کو مائنس کر نے کی بھر پور کوشش کی۔ آئین کی ایسی ایسی تشریح پیش کی گئیں جس سے اپوزیشن سے مشاورت کے مفہوم تبدیل کرنے اور مشاورت کے معنی ہی بدلنے کی کوشش کی گئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیر اعظم اس اہم تعیناتی کے لیے براہ راست قائد حزب اختلاف سے ملاقات کرتے۔ لیکن یہاں تو خط لکھنے کو بھی ایک مسئلہ بنا دیا گیا۔ پھر خط لکھا گیا تواس میں مخاطب کرنے کی مجوزہ اخلاقی اور جمہوری طریقہ کار کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا۔
خط سے جان بوجھ کر بے رخی کا تاثر دیا گیا۔ لیکن اپوزیشن اور قائد حزب اختلاف نے اس کو بھی نظر انداز کیا اور جب کہ جوابی خط میں تمام تر اخلاقی اقدار اور جمہوری روایات کو ملحوظ خاطر رکھا گیا۔ وزیر اعظم کے مرتبہ اور شان کو بھی ملحوظ خاطر رکھا گیا۔ رسمی خط و خطابت کے بعد آئین کی یہ تشریح کی گئی کہ اپوزیشن سے مشاورت ہو گئی اور حکومت نے اپنی مرضی کے لوگ نامزد کر دیے۔ یہ بھی پہلی حکومت ہو گی جس کو چیف الیکشن کمشنر اور ممبران الیکشن کمیشن کی تعیناتی کا اپنا نوٹیفکیشن عدلیہ کی مخالفت پر واپس لینا پڑ گیا۔ یہ تو اپوزیشن کی شرافت تھی کہ اس سب کے باوجود اس نے حکومت کے ساتھ بات چیت کے دروازے بند نہیں کیے اور الیکشن کمیشن کو مکمل کرنے پر تعاون کیا تا کہ کوئی آئینی بحران پیدا نہ ہو۔
آپ این ایف سی کے معاملہ کو ہی دیکھ لیں۔ حکومت نے یہاں بھی صوبوں سے غیر ضروری محاذ آرائی کا ماحول پیدا کر لیا۔ پھر ایسا نوٹیفکیشن کیا گیا جو آئین کی روح کے منافی تھا۔ اپوزیشن جب عدالت میں گئی تو حکومت کے پاس اپنا نوٹیفکیشن واپس لینے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ سمجھ نہیں آتی اتنے لائق قانونی اور آئینی ماہرین کی موجودگی میں ایسے سیاسی اور آئینی و قانونی بلنڈرز کیوں کیے جاتے ہیں۔
شاید یہ ایک سوچ کے عکاس ہیں جہاں شعوری طورپریہ کوشش کی جا رہی ہے کہ اپوزیشن کے کسی بھی قسم کے تعاون کے بغیر ہی ملک کو چلایا جائے۔ اپوزیشن کو صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیا جائے۔ آپ پروڈکشن آرڈر کے معاملہ کو ہی دیکھ لیں۔ حکومت نے پروڈکشن آرڈر کو بھی ایک کھیل بنا لیا۔ کبھی جاری کیے کبھی جاری نہیں کیے۔ اس آئینی رعایت کو بھی اپوزیشن کو دبانے اور بلیک میلنگ کے لیے استعمال کیا گیا۔
کورونا کا معاملہ بھی اس کی بہترین مثال ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے بلائی جانی والی پارلیمانی کانفرنس میں وزیر اعظم عمران خان نے شرکت تو کی لیکن وہ اپوزیشن رہنماؤں کی بات سننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اپنی بات کی اور چل دیے۔ حالانکہ کسی بھی کانفرنس میں دوسروں کی بات سننا بھی اتنا ہی واجب ہے جتنا ضروری اپنی بات کرنا ہوتا ہے۔ اسی طرح این سی او سی جیسے ادارے میں قائد حزب اختلاف کی شمولیت سے جمہوریت مضبوط ہونے کا تاثر ملتا۔ لیکن حکومت نے اس سارے عمل میں اپوزیشن کو مائنس رکھنے کا ہی فیصلہ کیا۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ مقتدر قوتوں کی غیر ضروری حمایت حکومت کے اس رویہ کی بنیادی وجہ ہے۔ حکومت کو عادت ہو گئی ہے کہ اگر وہ کسی بحران میں پھنس بھی گئی تو اسے نکال لیا جائے گا۔ آرمی ایکٹ میں ترمیم اس کی بہترین مثال ہے۔ اس موقع پر جب اپوزیشن از خو د حکومت کے ساتھ تعاون کے لیے تیار تھی۔ لیکن حکومت تعاون لینے کے لیے تیار ہی نہیں تھی۔ میں سمجھتا ہوں اس کو نہایت بہتر انداز سے کیا جا سکتا تھا۔ لیکن وہ ایسا نہیں کر سکے۔
آج پھر حکومت اوپر اپویشن کے درمیان FATF قوانین اور نیب کے قوانین کے لیے مذاکرات ہو رہے ہیں۔ لیکن تاثر بن رہا ہے کہ وزیر اعظم جان بوجھ کر خود کو ان مذاکرات سے الگ رکھ رہے ہیں۔ بات ہو رہی ہے لیکن وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف اس میں شامل نہیں ہیں۔ FATF قوانین پاکستان کی ضرورت ہیں۔ اسی لیے اپوزیشن اس کے لیے بات کر رہی ہے ورنہ جو اس حکومت کا رویہ ہے اس میں تو بات چیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسی طرح نیب قوانین کا معاملہ ہے۔
حکومت چاہتی ہے کہ یہ ہتھیار اس کے ہاتھ سے نہ جائے۔ لیکن کون حکومت کو سمجھائے اس میں حکومت کا اپنا ہی نقصان ہے۔ لیکن اس حکومت نے اپوزیشن کو دبانے کے چکر میں اپنے ساتھ ملک کا بھی بہت نقصان کیا ہے۔ جس کا حکومت کو کوئی اندازہ نہیں۔ سیاسی معاملات کو غیر سیاسی انداز حالات مین حل کرنے کی کوشش نے جمہوریت اور پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے۔