Muslihat Se Azm Tak
مصلحت سے عزم تک

گزشتہ روز ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کا رنگین منظر قومی بیانیے کے کینوس پر ایک اور گہری لکیر کھینچ گیا جہاں ایک طرف اندرونی سلامتی کے درپیش خطرات کی ٹھوس حقیقتیں بیان ہوئیں تو دوسری طرف ایک ایسے سیاسی بیانیے کو ہدف بنایا گیا جو قومی یکجہتی کے لیے زہر قاتل ہے۔ ترجمان پاک فوج کا لہجہ نہ صرف ذمہ دارانہ تھا بلکہ اس میں ایک واضح اور غیر مبہم پیغام بھی مضمر تھا کہ قومی سلامتی کے معاملے پر کسی بھی لچک کی گنجائش نہیں اور عسکری قیادت اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے ملک و قوم کے دفاع کا فریضہ ہر قیمت پر انجام دیتی رہے گی۔ یہ بریفنگ دراصل ریاستی اداروں اور عوام کے درمیان غلط فہمیوں کے پردے چاک کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش تھی جس کا مقصد یہ باور کرانا تھا کہ مسلح افواج کسی خاص سیاسی ایجنڈے کی بجائے صرف اور صرف پاکستان اور اس کے چوبیس کروڑ عوام کی محافظ ہیں اس پرزور بیان نے بلاشبہ قومی منظر نامے پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے جس کی بازگشت آنے والے دنوں میں سیاسی و ابلاغی حلقوں میں سنائی دیتی رہے گی۔
موجودہ سیاسی افق پر پاکستان تحریک انصاف کا سفر کسی المیاتی ڈرامے سے کم نہیں رہا جہاں پارٹی کا بنیادی ڈھانچہ متزلزل ہوا اور "نظریاتی کارکن" کا تصور پُر اسرار "نئی پی ٹی آئی" کے سامنے دم توڑتا نظر آیا یہ وہ جماعت ہے جو تبدیلی کا نعرہ لے کر نکلی تھی مگر آج اس کے کئی اہم ستون کرسی اور مفادات کی ہوا کے جھونکوں کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئے اور انہوں نے اصولوں پر سمجھوتہ کرتے ہوئے نئی صف بندی اختیار کر لی۔ یہ تقسیم اور دراڑ اس امر کی غمازی کرتی ہے کہ تحریک انصاف محض ایک نظریاتی تحریک نہیں رہی بلکہ یہ ایک ایسے گروہ میں بدل گئی ہے جن کا مقصد قوم کی مجموعی روایات، تہذیب و تمدن، اخلاقیات، نئی نسل کے دماغوں میں زہر انڈیلنا، نفرت برائے نفرت، عدم برداشت، خود پسندی کی انتہا، میں نہ مانوں کی روایت اور اپنے ملک اور فوج سے نفرت شامل ہے جہاں قیادت کی گرفت کمزور ہوتے ہی مصلحت پسند عناصر نے اپنے سیاسی وزن کو محفوظ بنانے کی خاطر الگ ٹھکانے ڈھونڈ لیے۔ یہ نئی طرز کی سیاست درحقیقت پاکستان کی نظریاتی سیاست پر ایک بدنما داغ ہے جو یہ سوال اٹھاتی ہے کہ کیا ہمارے سیاسی کارکنان کا نصب العین صرف اقتدار ہے یا وہ واقعی عوامی فلاح کے لیے کسی نظریے سے جڑے ہوئے ہیں۔
ریاست جو کہ ایک اجتماعی وجود اور قوم کے مشترکہ مستقبل کی ضامن ہوتی ہے کے خلاف سازش کا ہر تانا بانا درحقیقت اپنی جڑوں کو خود کاٹنے کے مترادف ہے۔ ایسے عناصر جو ذاتی اغراض سیاسی عناد یا بیرونی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ملک کے بنیادی ڈھانچے سالمیت اور داخلی استحکام پر کاری ضرب لگانے کی کوشش کرتے ہیں انہیں واضح اور غیر مبہم الفاظ میں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ان کی یہ مذموم حرکتیں کسی بھی صورت میں قابلِ قبول نہیں۔ یہ وطن کسی ایک فرد یا گروہ کی ملکیت نہیں بلکہ ہمارے آباؤ اجداد کی قربانیوں کا ثمر ہے اور اس کی حفاظت ہر شہری پر لازم ہے لہٰذا جو بھی شخص ملک میں انتشار نفرت اور بدامنی کا بیج بو کر قومی یکجہتی کی دیوار کو کمزور کرنے کی کوشش کرے گا اسے قانون کے آہنی شکنجے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ تنبیہ صرف ایک رسمی اعلامیہ نہیں بلکہ ریاستی اداروں کا پختہ عزم ہے کہ وہ کسی بھی داخلی یا خارجی خطرے کو ملک کی امن و امان اور ترقی کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیں گے ریاست اپنی بقا اور استحکام کے دفاع کا حق پوری قوت اور صلاحیت کے ساتھ استعمال کرے گی۔
یہ پاکستان کے نوجوانوں کے لیے واضح پیغام ہے کہ کبھی سیاست دانوں کے کہنے پر اپنے ملک اور ریاست کے خلاف کھڑے نہ ہوں۔ جب آپ پر مصیبت آئے گی تو یہ بھاگ جائیں گے اگر نہیں یقین تو نو مئی کہ ان کرداروں کو دیکھ لیں جنہوں نے لیڈروں کے کہنے پر ملک میں پرتشدد کاروائیاں کیں اور بعد میں لیڈروں نے انہیں پہچاننے سے بھی انکار کر دیا آج وہ جیلوں میں اپنے کیے کی سزائیں بھگت رہے ہیں اور ان کے اہل خانہ دربدر ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں۔
یہ پریس کانفرنس محض ایک روایتی ابلاغی مشق نہیں تھی بلکہ یہ ایک ایسے ریاستی مزاج کی عکاسی کرتی ہے جو اب مزید اُلجھن اور لچک کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ یہ دراصل ایک تاریخی موڑ کا اعلان ہے جہاں قومی سلامتی کے محافظوں نے اپنے بیانیے میں کسی بھی قسم کی ابہام کی گنجائش ختم کر دی ہے ان کے الفاظ میں جو سنجیدگی اور قطعیت تھی وہ اس بات کا دوٹوک ثبوت ہے کہ ریاست اب حفاظتی موڈ سے نکل کر فیصلہ کن کارروائی کے موڈ میں داخل ہو چکی ہے۔ یہ بیان قومی سیاست کے میدان میں کھیل کے قواعد کو ازسرِ نو واضح کرتا ہے اور ہر اس فریق کو جو ریاستی مفادات کو اپنے سیاسی مفادات کے تابع کرنے کا خواہاں ہے یہ باور کراتا ہے کہ قوم کی بقاء کی قیمت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اس لیے اس پریس کانفرنس کو محض ایک سیاسی بیان نہیں بلکہ ریاست کے نئے عزم کی بلند آواز کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
تحریک انصاف نے حالیہ برسوں میں خاص طور پر عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے نوجوان نسل میں پاکستانی فوج کے بعض اعلیٰ قیادت اور اداروں کے خلاف ایک شدید بیانیہ فروغ دیا ہے اس "ڈیجیٹل ایکٹوزم" میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر تنقیدی بعض اوقات جارحانہ پروپیگنڈا مہمات شامل تھیں جن کا مقصد فوجی اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار اور اس کی شفافیت پر سوال اٹھانا تھا اس ذہن سازی کا واضح مظاہرہ نو مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد پُرتشدد احتجاج میں ہوا جہاں پی ٹی آئی کے مشتعل کارکنوں نے پہلی بار فوجی تنصیبات جن میں کور کمانڈر ہاؤس لاہور بھی شامل تھا پر حملے کیے اور انہیں نقصان پہنچایا۔
پاکستان سے باہر مقیم تحریک انصاف کے وہ حامی جو سوشل میڈیا کے ذریعے ملک میں نفرت انگیز مواد اور اشتعال انگیزی پھیلا رہے ہیں ریاست کی طرف سے ان پر سخت نظر رکھی جا رہی ہے۔ حکومت ایسے عناصر کے خلاف قومی قوانین اور بین الاقوامی معاہدوں کے تحت کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اس میں ان کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے مقدمات کا اندراج اور سفارتی و قانونی ذرائع سے ان کی سرگرمیوں کو محدود کروانے کی کوششیں شامل ہو سکتی ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ ملکی سلامتی اور امن عامہ کو خطرے میں ڈالنے والے ڈیجیٹل اقدامات کو روکا جا سکے اور نفرت کی سیاست کو ریاست کی طرف سے کوئی گنجائش نہ دی جائے۔

