محتاط رہنے کی ضرورت

اقتدار ایسا کھلونا ہے جسے حاصل کرنے کے لیے ہر سیاسی جماعت بے چین رہتی ہے۔ انتخابی عمل کے آغاز سے قبل تو یہ بے چینی جنون بن جاتی ہے۔ ملک کی تاریخ پر طائرانہ نگاہ ڈالیں تو یہ کھلونا حاصل کرنے کا مختصر راستہ مقتدرہ کی مدد سمجھا جاتا رہا اور اکثر اوقات یہاں سے اقتدار کے کھلونے کے حصول میں مدد بھی ہوئی مگر مدد سے قبل اور اقتدار حاصل کرنے کے بعد کا رویہ مختلف ہونے سے بدمزگیاں جنم لیتی رہیں۔ اقتدار سے قبل تو فدویانہ طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا جاتا لیکن نئی عسکری قیادت کی تعیناتی کے وقت ظاہر و باطن کا تضاد عیاں ہونے سے شکوے جنم لیتے رہے جو بعدازاں دوریوں کا سبب بنتے۔
عشروں بعد ملک میں اب سیاسی وعسکری قیادت میں اعتماد کارشتہ ہے لیکن جنھیں اقتدار کا کھلونا میسر نہیں وہ رویے میں وضع داری، مروت، وقار اور اخلاق ترک کربیٹھے ہیں اور سیاسی اختلاف کو مقتدرہ کی مخالفت بنا بیٹھے ہیں جسے سیاسی بیانیہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا، جس سے اقتدار کا حصول تو مشکل ہوگا ہی، اُن کی ذات و کردار شبہات بڑھنے لگے ہیں۔ اگر دیواروں سے ٹکرانے کی بجائے سیاست میں قدرے سنبھل کر چلیں اور ٹکراؤ سے زیادہ سیاسی مکالمے پر اکتفا کریں تو نہ صرف سیاسی مشکلات کم ہو سکتی ہیں بلکہ سیاسی تنہائی کا دورانیہ بھی ختم ہو سکتا ہے۔
عام قیاس یہ ہے کہ عسکری قیادت کے لیے اپوزیشن ناپسندیدہ ہے۔ یہ قیاس اِس بنا پر درست ہے کہ حال ہی میں عسکری اِدارے کے ترجمان نے غیر متوقع طور پر زرائع ابلاغ سے گفتگو میں کچھ ایسی سخت باتیں کی ہیں جن کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی مگر اُن کی باتوں مکمل طور پر غلط نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اُن کے ہزارہا جواز ہیں۔ اِس میں شائبہ نہیں کہ 2018کے انتخابی نتائج دانستہ طور پر پی ٹی آئی کے حق میں کیے گئے وگرنہ شفافیت کی صورت میں ن لیگ اور پی پی قدرے بہتر پوزیشن پر ہوتیں لیکن نوازش کا صلہ یہ ملا کہ اقتدارکے کھلونے سے محرومی پر میر جعفر و میر صادق کے القابات سے نوازا گیا اور عدمِ اعتماد کی تحریک کے دوران لاتعلقی پر یہ تک کہہ دیا گیا کہ غیر جانبدار تو جانور ہوتا ہے۔
بات اگر کسی ایک شخص تک محدود رہتی تو بھی شاید افہام و تفہیم کا راستہ بند نہ ہوتا مگر 9 مئی 2023 کو احتجاج کی آڑ میں تو پورے عسکری اِدارے کے خلاف ایسا جلاؤ اور گھیراؤ کیا گیا جس نے پی ٹی آئی کے بارے میں اگر کہیں کوئی نرم گوشہ تھا تو اُسے بھی ختم کر دیا پھر بھی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ نہ کیا گیا بلکہ اِس عمل کو اپنی سیاسی طاقت سمجھ لیا گیا۔ وہ تو بھلا ہو جنرل ساحر شمشاد مرزا کا، جو خلافِ آئین کسی مُہم جوئی کا حصہ نہ بنے وگرنہ مار دھاڑ پر آمادہ و تیار لوگ آگ کے مزید آلاؤ بھڑکاتے۔
غیر سیاسی شخص سیاسی سوجھ بوجھ سے عاری ہوتا ہے اور جب نرگسیت کا مارا شخص کلٹ بن جائے تو کسی دلیل کو اہمیت نہیں دیتا مکالمے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور اپنی زات کو اپنے تخیل کے قلعے میں محصور کر لیتا ہے۔ ایسے غیر سیاسی شخص کو رائج سیاسی عمل کا حصہ بنانا مشکل ہو جاتا ہے، پھر بھی آٹھ فروری کے انتخابات میں اُسے سیاسی عمل سے باہر کرنے سے گریز کیا گیا حالانکہ مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت خیبرپختونخواہ میں متبادل بن سکتی تھی۔
مزید یہ کہ تمام تر خامیوں کے باوجود فضل الرحمٰن جیسے جہاندیدہ شخص کو دلیل سے قائل کرنا آسان ہے مگر حساس ترین صوبہ میں ایسی کوئی سرگرمی نہ کی گئی وہی نرمی اور رحمدلی اب مصائب کا باعث ہے۔ ایسے حالات میں جب افغان طالبان بھارتی ایما پر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے ٹی ٹی پی جیسے شدت پسند اور دہشت گرد گروہ کے سہولت کار ہیں جس کا نشانہ پاکستان کا عسکری اِدارہ ہے۔ اِس صوبہ کا وزیرِ اعلیٰ سہیل آفریدی اپنے ملک کے خلاف سرگرم گروہوں سے بات چیت کا آرزومندہے جس کی وجہ یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی ایسا چاہتے ہیں۔ زرا دل پر ہاتھ رکھ کربتائیں کسی حملہ آور گروہ سے منت سماجت کرنا دانشمندی ہے؟
جنرل عاصم منیر کے چیف آف ڈیفنس فورسز بننے پر بھارت غم و غصے میں ہے اور چاہتا ہے کہ کسی طرح پاک فوج اور عوام میں خلیج پیدا کی جائے لیکن بات نہیں بن رہی۔ اِس مُہم میں اپوزیشن کا سوشل میڈیا بھارت کا ہمنوا بن کر سامنے آیا ہے۔ آئے روز غلیظ افواہیں پھیلائی جاتی ہیں جسے روکنے کی بجائے اِس سوشل میڈیا کو پی ٹی آئی اپنی طاقت قرار دیتی ہے حالانکہ بھارت جیسے دشمن کو کوئی حق نہیں کہ وہ یہ بتائے کہ پاکستانیوں کے لیے کیا بہتر ہے اور کیا نہیں۔ پاکستان کے لیے کیا بہتر ہے یہ سوچنا اور پھر فیصلہ کرنا پاکستانیوں کا حق ہے۔
رواں برس مئی کی پاک بھارت جھڑپوں میں پاکستان کی عسکری برتری ثابت ہوچکی جس کی وجہ سے عرب ممالک دوبارہ پاکستان کی طرف مائل ہوئے نیز عالمی طاقتوں پر واضح ہوا کہ پاکستان کو نظر انداز کرنے میں خسارہ ہے یہی وضاحت ہی تو اٹھارہ مارچ 2025کو وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر ملاقات کا موجب بنی۔ اب ہونا تو یہ چاہیے کہ اِس عزت افزائی پر خوش ہوا جاتا کیونکہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کی عسکری قیادت کی عزت و اہمیت اور تکریم دراصل ہم سب کے لیے باعثِ فخر ہے لیکن یہاں کچھ لوگ بھارت کی طرح رونے پیٹنے میں مصروف ہیں۔ آئی ایم ایف کو قرضہ نہ دینے کے خطوط لکھنا اور افغانستان پر حملوں کے جواب میں ردِ عمل نہ دینے کی تجاویز دیتے ہیں تعجب ہے ایسی سوچ پر اور تعجب ہے ایسے طرزِ عمل پر۔
پاکستان کو سفارتی حوالے سے بھارت تنہا کرنا چاہتا ہے اس لیے وہ اپنے اِداروں سے ملک میں ایسے حملے کراتا ہے جن کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا جا سکے مگر ابھی تک اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ روس کی طرح امریکہ کو شیشے میں اتارنے میں بھی ناکام ہے۔ امریکہ سے دس سالہ دفاعی معاہدہ کرنے کے باوجود پاکستان سے خوفزدہ ہے۔ روسی صدر پوٹن بھارتی سرزمین پر کہہ چکے کہ بھارت سے دفاعی تعاون کسی دوسرے ملک کے خلاف نہیں یہ پاکستان کی بڑی کامیابی ہے۔ جنوبی ایشیا میں بھارتی بالادستی کا دعویٰ بھی پاکستان کی بہادر افواج مٹی میں ملا چکی ہیں۔
یہ حالات متقاضی ہیں کہ عسکری قیادت کی قربانیوں، خدمات اور فتوحات کوتسلیم کرتے ہوئے احترام دیا جائے لیکن کچھ بدبخت اقتدار کے کھلونے کے لیے اپنے ہی اِداروں پر دشنام طرازی میں مصروف ہیں جن کو لگام دینا وقت کی ضرورت ہے کیونکہ دشمن سے لڑنا تو آسان ہے کہ وہ پوشیدہ نہیں ہوتا لیکن اپنی صفوں میں چھپے اغیار کے کارندوں کو بے لگام چھوڑ دینا حماقت ہوگی۔ بھارت سمجھ چکا کہ کہ وہ اب پاکستان کو لڑائی کے میدان میں شکست نہیں دے سکتا اِس لیے مکر و فریب اور سازشوں سے کمزور کرنے کی کوشش میں ہے جن کا بروقت توڑ کرنے میں ہی عافیت ہے۔

