Wednesday, 10 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Aamir Hussaini
  4. Foji Incubator Aur Zulfiqar Ali Bhutto

Foji Incubator Aur Zulfiqar Ali Bhutto

فوجی انکوبیٹر اور ذوالفقار علی بھٹو

ہمارے ہاں ذوالفقار علی بھٹو کے مخالف دائیں بازو کے حادثاتی طور پر سیاست میں آنے والے تاجر جیسے نواز شریف یا ھیرو عمران خان کے پرستار یا فوج کی بی ٹیم بننے والی جماعتوں جیسے جماعت اسلامی کے حامی نواز شریف، عمران خان جیسوں کی فوجی اسٹبلشمنٹ کی نرسری میں نشوونما کو ذوالفقار علی بھٹو کی اسکندر مرزا اور پھر ایوب خان کی کابینہ میں بطور وزیر شمولیت کے درمیان ایک مغالطہ آمیز بائنری بناتے ہیں اور پھر آسانی سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ جیسے نواز شریف اور عمران خان فوجی اسٹبلشمنٹ کی نرسری میں سیاست دان بنے بھٹو بھی ویسے ہی سیاست دان بنے تھے۔

نواز شریف کا تعلق کسی بھی لحاظ سے سیاست سے نہیں تھا۔ وہ نہ تو کسی ممتاز سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے نہ ہی انہوں نے خود سیاست کو زمانہ طالب علمی اور اس کے بعد عملی زندگی میں کبھی اختیار کیا تھا۔ یہی معاملہ عمران خان کے ساتھ بھی تھا کہ انہوں نے اپنی زمانہ طالب علمی میں نہ کبھی سیاست کی نہ وہ سیاسی معاملات میں کوئی دلچسپی لیا کرتے تھے۔ نواز شریف گورنر پنجاب سابق ڈی جی آئی ایس آئی غلام جیلانی کی زیر سرپرستی مارشل لاء دور میں براہ راست وزیر خزانہ بنائے گئے اور عمران خان کو سیاست میں لانے کا کارنامہ جنرل حمید گل کا تھا۔

جبکہ ذوالفقار علی بھٹو نے سیاست نہ تو ایوب خان کے فوجی انکوبیٹر میں سیکھی تھی نہ اسکندر مرزا کے انکوبیٹر میں۔ وہ سندھ کے ایک ممتاز سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور ان کا گھرانہ اگرچہ سندھ کی بڑی جاگیردار اشرافیہ میں شامل نہیں تھا کہ زرا وہ کمتر درجے کی زمیندار اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد نے لاڑکانہ سے برطانوی راج میں الیکشن لڑا لیکن وہ ناکام ہوگئے لیکن وہ سندھ کی سیاست سے الگ نہیں ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے زمانہ طالب علمی سے ہی عملی سیاست میں دلچسپی لینی شروع کردی تھی۔ وہ لندن میں لاء کی تعلیم کے دوران بھی سیاست میں دلچسپی لیتے رہے۔ ان کی سیاست کی شروعات بھی سندھ کے دیگر مسلم زمیندار اشراف گھرانوں کے نوجوان کے طور پر ہوئی۔ ان کے والد آل انڈیا مسلم لیگ سے وابستہ تھے تو بھٹو کا ابتدائی رجحان بھی اسی جانب تھا۔ بھٹو کی سیاست میں شروع سے لیکر آخر تک جو رجحان بہت مستقل رہا وہ مسلم قوم پرستی پر مبنی پاکستانی نیشنلزم تھا جس میں تھیاکریسی۔ ملائیت۔ بنیاد پرستی کی گنجائش نہیں تھی۔ اس میں روشن خیالی، ترقی پسندی، لبرل خیالات شامل تھے۔ دوسرا بھٹو ریجنل قوم پرستی کے انتہائی سخت غیر لچک دار رجحان کے سخت مخالف تھے وہ کنفیڈریشن کی بجائے فیڈریشن کے حامی تھے اسی وجہ سے وہ زندگی بھر کبھی جی ایم سید کی قوم پرستانہ فلاسفی سے اتفاق نہ کرسکے۔

جب وہ لندن میں لاء کی تعلیم کے لیے پہنچے تو جیسا کہ وہ خود بتاتے ہیں ان کی دلچسپی عالمی سیاست اور ان کے زمانے کے مقبول ترین سیاسی رجحان تھرڈ ورلڈ پاپولزم میں پیدا ہوئی۔ وہ چین کے ماوزے تنگ، شمالی کوریا کے کم ال سنگ، ویت نام کے ہوچی منہہ، بائیں بازو کی عرب قوم پرستی کے علمبردار سیاست دانوں سے بہت متاثر تھے۔ بین الاقوامی تعلقات اور خارجہ امور سے انھیں بہت دلچسپی تھی اور اس بارے میں ان کی صلاحیتوں اور اہلیت کے جوہر ہمیں ایوب خان کے زمانے میں ان کے کم عمری میں وزیر خارجہ بننے کے وقت نظر بھی آئے۔ ان کی یہی صلاحیت انھیں پاکستان کے بائیں اور پاکستانی ریڈیکل نیشنلزم کے حامی طلباء، درمیانے طبقے کے دانشوروں اور مزدور ٹریڈ یونین رہنماؤں میں مقبول بھی بنا گئی۔

بھٹو ون یونٹ اسکیم کے خلاف 50 کی دہائی میں سندھ میں چلنے والی تحریک میں فعال سیاسی سرگرمی کے ساتھ شریک ہوئے اور وہ ون یونٹ اسکیم کے خلاف سندھ کے نوجوانوں کی اس وقت کی ایک مقبول ترین مزاحتمی تنظیم کو بنانے والوں میں شامل تھے اور ان کے اس کردار کو تفصیل کے ساتھ پروفیسر اعجاز قریشی کی کتاب میں پڑھا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ خیال رہے کہ وہ بہرحال پاکستان کی اس وقت جو پاور پالیٹکس تھی اس کی حرکیات سے اچھے سے واقف تھے وہ جانتے تھے کہ پاور پالیٹکس کے مرکزی دھارے میں اپنی جگہ بنانے کے لیے انھیں مرکز میں پاور پالیٹکس کو کنٹرول کرنے والی کسی طاقتور ہستی کے سہارے اور سرپرستی کی ضرورت تھی۔ یہ سہارا انھیں بیگم نصرت بھٹو کی خاندانی قریبی رشتے دار جو اسکندر مرزا کی اہلیہ تھی بیگم ناہید اصفہانی نے انھیں فراہم کیا اور وہ اسکندر مرزا کی بنائی کابینہ میں بطور منسٹر شامل ہوئے اور وہاں انہوں نے اپنے ٹیلنٹ کو منوایا۔ وہ کوئی غیر سیاسی ذہن اور غیر سیاسی پس منظر کے کوئی تاجر یا کوئی سپورٹس ہیرو نہیں تھے جن کی سیاسی تربیت کسی طاقتور بیوروکریٹ یا کسی فوجی جنرل کو کرنا پڑتی۔ وہ انکوبیٹر کی پیداوار سیاست دان نہیں تھے۔ یہ وہ فرق ہے جسے جہالت یا شعوری بددیانتی کے ساتھ بھٹو کے مخالفین نظر انداز کرتے ہیں۔

بھٹو کا اینٹی بھارت پاکستانی نیشنلسٹ رجحان، ان کا تھرڈ ورلڈ قوم پرست پاپولسٹ سیاست سے وابستگی اور خارجہ امور پر ان کی زبردست مہارت اور تقریر و تحریر کی بہترین صلاحیت نے انھیں ایوب خان کی قربت میں موجود ایک فوجی افسر شاہی گروپ جس کی قیادت جنرل موسی خان کر رہے تھے اور طاقتور سول بیوروکریٹ گروپ جس کی قیادت گوہر ایوب اور جی ڈبیلو چودھری جیسے بیوروکریٹس کے ہاتھ میں تھی کی نظر میں معتوب بنا دیا تھا۔ وہ ایوب خان کے تابع محض نہیں تھے یہی وجہ ہے کہ جب ایوب خان نے ان کی سوچ اور خیال سے ہٹ کر 65ء کی جنگ کو جس طرح سے انجام کو پہنچایا تو انہوں نے بغاوت کردی۔

معاہدہ تاشقند کو لیکر انھوں نے ایک ایسے وقت میں جنرل ایوب کو للکارا جب مغربی پاکستان کی سیاست میں دور دور تک ایوب خان کو سیاسی میدان میں ان کی اپوزیشن جو کمبائنڈ اپوزیشن۔۔ متحدہ حزب اختلاف کی شکل میں موجود تھی کرنے والے سیاست دان نہیں کر پا رہے تھے۔ ایوب کو اگر کسی جگہ سے سخت اپوزیشن کا سامنا تھا تو وہ بائیں بازو کے طلباء تھے۔ بھٹو نے جب ایوب خان کے خلاف بغاوت کی انھیں فوج کے اندر سے کسی قسم کی مدد اوائل دنوں میں نہیں ملی۔ یہ جو گل حسن، ائر مارشل رحیم اور جنرل حسن پیرزادہ وغیرہ تھے یہ بطور ہاک عقاب یحیی خان کے دور میں 71ء کے انتخابات کے بعد پیدا ہونے والے بحران کی صورت میں ابھر کر سامنے آئے تھے اور یہ بھی مشرقی پاکستان کے الگ ہوجانے تک اس وقت تک کچھ نہ کرسکے جب تک کمانڈر انچیف جنرل عبدالحمید اور ان کے ساتھی جی ایچ کیو کو کنٹرول کرتے رہے۔

مشرقی پاکستان ٹوٹ جانے کے بعد یہ گوجرانوالہ چھاونی سے درمیانے رینک کے افسران کی بغاوت تھی جس نے جنرل عبدالحمید اور ان کے ساتھیوں کو یحیی خان کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا اور یہ انھی درمیانے رینک کے باغی افسران کا مطالبہ تھا کہ اقتدار مغربی پاکستان کی سب سے بڑی اکثریتی پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کو سونپا جائے۔ ذوالفقار علی بھٹو نہ تو کسی مقبول سیاسی جماعت کا مینڈیٹ چوری کرکے یا اسے بائی پاس کرکے اقتدار میں نہیں آئے تھے نہ ہی وہ کسی فوجی جرنیل ٹولے کے مفادات اور عزائم کو پورا کرنے کے لیے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے تھے۔ بلکہ جو فوجی جرنیل یہ سمجھتے تھے کہ بھٹو کو اقتدار انھوں نے دلایا اور جب انھوں نے بھٹو پر کنٹرول کرنے کی کوشش کی تو یہ بھٹو ہی تھے جنھوں نے ان جرنیلوں کو یک قلم برخاست کر دیا تھا۔ بھٹو اگر کسی فوجی جرنیل ٹولے کا پروجیکٹ ہوتے تو بھٹو کے ساتھ وہی ہونا تھا جو فوج نے نواز شریف اور عمران خان کے ساتھ کیا۔

پاکستان پیپلزپارٹی کی تاسیس کرنے والی شخصیات میں کوئی ایک شخص ایسا نہیں تھا جسے ہم یہ کہہ سکیں کہ وہ پاکستان کی فوجی یا سول نوکر شاہی کا اہم ستون تھا۔ پی پی پی کو اس وقت کی پاور پالیٹکس میں غیر منتخب ہئیت مقتدرہ کے طاقتور گروپ کی سرپرستی حاصل نہ تھی۔ نہ ہی اس پارٹی میں خاص طور پر پنجاب، کے پی کے، بلوچستان سے ایسے قد آور سیاست دان شامل ہوئے تھے جن کے بارے میں یہ کہا جاسکے کہ وہ انتخابی دنگل میں مقابلے کی پوزیشن میں بھی ہوں گے۔ سندھ کے زیادہ تر وننگ ہارسز اور جاگیردار اشرافیہ کے بڑے بڑے نامی گرامی سیاست دان اور پیر گھرانوں کی اکثریت کنونشن لیگ میں تھی اور اپوزیشن کی سیاست میں سرگرم زیادہ تر معروف نام نیشنل عوامی پارٹی۔ ولی خان اور بھاشانی گروپ کے ساتھ تھے۔ پیپلزپارٹی کی تشکیل کی خبر بھی اخبارات میں نمایاں جگہ نہ پاسکی تھی۔ جب انتخابات کا اعلان ہوا تب اکثر و بیشتر یہ کہا جاتا تھا کہ پیپلزپارٹی کی زیادہ حمایت ایسے نوعمر نوجوانوں میں ہیں جن کے ووٹ ہی نہیں ہیں۔

پیپلزپارٹی کی اپنی حالت یہ تھی کہ جب ٹکٹ دینے کی باری آئی تو پنجاب، کے پی کے، بلوچستان، سندھ کے اکثر و بیشتر دیہی اور شہری حلقوں میں اس کے پاس موزوں امیداوار ہی نہیں تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے نیپ کو پنجاب میں 50 فیصد نشستوں پر حمایت کے عوض اتحاد کی پیشکش بھی کی جسے حقارت سے ٹھکرا دیا گیا۔

یحیی کے جو جرنیل تھے جن میں ان کے وزیر اطلاعات جنرل شیر علی پٹودی، میجر جنرل عمر انھوں نے کنونشن لیگ کے کروڑوں روپے کے بینک اکاونٹس جو فریز کر دیے گئے تھے ان کو مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان میں کونسل مسلم لیگ، نظام اسلام پارٹی، جماعت اسلامی سمیت دیگر دائیں بازو کی سیاسی اور مذھبی جماعتوں میں بانٹ دیے تھے۔ کنونشن لیگ کے اثاثے دفاتر اور پریس اور اخبارات کونسل لیگ کے سپرد کردیے گئے تھے۔ یحیی خان کے جرنیل ساتھی تو مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ، نیشنل پروگریسو پارٹی، مغربی پاکستان میں نیپ اور پاکستان پیپلزپارٹی کے خلاف جماعتوں کو فنڈنگ اور سرپرستی کر رہے تھے۔ صرف اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فوجی جنتا کے جو سیاسی عزائم تھے اس میں سرپرستی کن جماعتوں اور سیاست دانوں کو میسر تھی۔ اس لیے یہ کہنا کہ بھٹو اور ان کی پارٹی کسی آمر کی نرسری یا انکوبیٹر میں تیار ہوئی تھی تاریخی حقائق کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو اگر فوجی اسٹبلشمنٹ کا تیار کردہ پروجیکٹ ہوتے تو ان کی پارٹی کی تشکیل میں وہ سارا مصالحہ شامل ہوتا جو نواز شریف کی پارٹی کی تشکیل میں استعمال ہوا اور پھر عمران خان کی پارٹی کی تشکیل میں استعمال کیا گیا۔

ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی پارٹی نے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کی پاور پالیٹکس کے اندر پہلی بار عوامی طبقات کو داخل کیا اور انھیں وہ حقوق ملے جو اس سے پہلے پاکستان کی ریاست اور سماج میں کبھی نہیں ملے تھے۔ ان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد سے لیکر اب تک کی پاکستانی سیاست کی تاریخ پاور پالیٹکس سے عوامی طبقات کو بالکل باہر کردیئے اور بھٹو دور میں انھیں ملے حقوق اور مراعات چھیننے اور محروم کرنے کی سیاست ہے۔ آج اگر سیاست سے جو طبقات خارج اور شودر کی حثیت رکھتے ہیں تو پاکستان کے عوامی طبقات ہیں۔ انھیں ہی سب سے زیادہ ڈی پولیٹسائزڈ کیا گیا ہے۔ عمران خان کی پارٹی نہ تو ملک میں کسی قسم کی سماجی تبدیلی کی علمبردار ہے اور نہ ہی وہ پاکستان کے عوامی طبقات کی سیاست میں واپسی کی داعی ہے۔ وہ پاکستان کے درمیانے طبقے کی بے چینی، فرسٹریشن اور اس دباؤ کا اظہار ہے جس کا سامنا اسے موجودہ بدترین معاشی حالات میں کرنا پڑ رہا ہے۔ عمران خان کی فین فالوئنگ کا سیاسی شعور بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ کے کسی گہرے مطالعے، مشاہدے اور طویل ترین سیاسی تجربے سے ملنے والی سیاسی تربیت کا دین نہیں ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے تشکیلی عناصر اور اس کے گراس روٹ لیول تک کے کارکن پاکستان کے عوامی طبقات کی ایک طویل جدوجہد، سیاسی تاریخ کے شعور اور اس دور کی طلباء یونین، مزدور ٹریڈ یونین اور کسان سیاست اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں پائی جانے والی ورکر کلاس کی نرسریوں سے سیاسی تربیت یافتہ تھے۔ اس لیے جنرل ضیاء کے 11 سال اور پھر نوے کی دہائی میں انہوں نے پاکستان کی پاور پالیٹکس میں اپنی مقدور بھر مزاحمت دکھائی۔ اسی وجہ سے پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کو بار بار انتخابات میں پیپلزپارٹی کو ہرانے کے لیے بدترین دھاندلی کرنا پڑتی تھی۔ پاکستان کی سیاست میں سے عوامی طبقات کے نمائندہ سیاسی کارکنوں، دانشوروں، ادیبوں، صحافیوں، وکلاء، مزدور، کسان اور طالب علم رہنماؤں کی بے دخلی نہایت منظم طریقے سے ممکن ہوئی۔ اس کے لیے بے پناہ مظالم، سخت جبر اور بدترین کرپشن اور لالچ کے طریقے اپنائے گئے۔

عمران خان اور ان کی فین فالوئنگ پاکستان کی سیاست میں عوامی طبقات کی سیاست اور حصہ داری کو ہمیشہ مسخ شدہ شعور اور اس نفرت کے ساتھ دیکھتی ہے جو اس میں پاکستان کی فوجی جنتا، کمپرڈور سرمایہ دار، جاگیردار اشرافیہ، سول نوکر شاہی کی پریس اور سرکاری پروپیگنڈے کے زریعے پھیلائی گئی۔

عمران خان اور اس کی فین فالوئنگ کے بزعم خویش اصلی تے وڈے اینٹی اسٹبلشمنٹ اور ماہرین معاشیات کو آج بھی یہ یقین ہے کہ ایوب خان کے دور میں پاکستان صنعتی انقلاب کے دہانے پر کھڑا تھا۔ اس کی مالیاتی و معاشی پالیسیاں اور ریاست کا ڈھانچہ بہترین تھا اور یہ بھٹو کی نیشنلائزیشن، ریاستی سرمایہ داری نظام، اس کی سماجی اصلاحات تھیں جس نے پاکستان کی ترقی کی راہ کھوٹی کردی۔ یہ جنرل ضیاء الحق کے ردانقلاب کے سب سے بڑے حامی ہیں۔

یہ پاکستان کی کمپراڈور سرمایہ دار طبقے کے طفیلیے پن اور اس کے جینیاتی نااہلی کے بارے میں آج بھی سچ بولنے کو تیار نہیں ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی طبقات کو پاور پالیٹکس میں شامل کرنا، ان کے حق میں جانے والی معاشی و سماجی اصلاحات کرنا غلطی نہیں تھی بلکہ ان کی غلطی یہ تھی کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ جاگیردار طبقے، سول و فوجی نوکر شاہی کے پرانے نوآبادیاتی ڈھانچے کو برقرار رکھتے ہوئے اور متضاد و باہم متصادم طبقاتی مفادات رکھنے والے طبقات کے درمیان مصالحت کی کوشش کی جاسکتی ہے اور عوامی طبقات کو پاور پالیٹکس میں فعال رکھا جاسکتا ہے اور یہ انھوں نے بھی اپنی آخری کتاب "اگر مجھے قتل کیا گیا" میں تسلیم کیا کہ متضاد و متصادم طبقات میں مصالحت کی کوشسش انھیں پھانسی کے پھندے تک لے آئی۔

پاکستان کی فوجی جنتا، گماشتہ سرمایہ دار، جاگیردار اشرافیہ، سول بابو شاہی اور ملاں نے ان کے زریعے سے عوامی طبقات کے ہاتھوں اپنی تذلیل، رسوائی اور پاور پالیٹکس میں شکست فاش کو کبھی بھلایا نہیں۔ یہاں تک کہ پیپلزپارٹی میں شامل ہونے والے جاگیردار، کمپراڈور سرمایہ دار بھی بھٹو کی اسی سیاست سے سب سے زیادہ خوفزدہ رہے۔ انھوں نے پارٹی کے اندر عوامی طبقات کے نمائندہ کارکنوں کی زلت و رسوائی کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ بھٹو کا عوامی امیج ایک ڈروانا خواب ہے جسے بھگانے کے لیے وہ بھٹو کو کبھی اپنے تخیل میں فوجی انکوبیٹر کی پیدائش دکھاتے ہیں۔ کبھی ایوب خان کو اس کا ڈیڈی بتاتے ہیں اور کبھی اس پر مشرقی بنگال توڑنے کے مرکزی کردار اور سب سے بڑا ولن بناکر پیش کرتے ہیں اور اپنے مہاتما اور قائداعظم ثانی کے فوجی انکوبیٹر میں پیدائش اور اقتدار تک پہنچنے کا یوں عذر پیش کرتے ہیں۔ اس سے حقیقت نہ پہلے کبھی چھپی تھی اور نہ اب چھپ سکے گی۔ یہ جعلی مہاتما اور جعلی قائد اعظم ثانی اس وقت تک پاکستان کی سیاست پر اپنا تماشہ دکھاتے رہیں گے جب تک عوامی طبقات کی سیاست میں واپسی نہیں ہوتی۔

Check Also

Silva Method

By Saleem Zaman