شریعت خس و خار ہی کی چلے گی!
جو قریوں اور بستیوں میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے وہ جانتے ہیں کہ گائوں میں کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کے لیے کوئی میونسپل کمیٹی ہوتی ہے نہ خاکروب۔ صدیوں سے پریکٹس چلی آ رہی ہے کہ عورتیں گھروں کا کوڑا کرکٹ اٹھا کر، گائوں سے ذرا باہر، کھیت میں ڈالتی جاتی ہیں۔ اس کوڑے میں جانوروں کا گوبر بھی شامل ہوتا ہے۔ ہوتے ہوتے یہ کوڑا ڈھیر کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ اب کالے رنگ کے بھینس کی کھال جیسی کھال رکھنے والے کیڑے اپنی ڈیوٹی پر پہنچ جاتے ہیں۔ ان کیڑوں کو پنجاب کے مغربی حصے میں بھبھون کہا جاتا ہے۔ بھبھون غلاظت کا کھلاڑی ہے۔ اسی میں رہتا ہے، یہیں سے جو کچھ ملتا ہے، اس سے اپنا بل آراستہ کرتا ہے۔ طریق واردات اس کا یہ ہے کہ کمال ہنروری سے غلاظت کا گولہ بناتا ہے۔ سائز میں ماربل کی گولی (بنٹے) سے بڑا اور پنگ پانگ گیند سے چھوٹا۔ یوں صفائی سے تراشتا ہے جیسے سمرقند کے کاریگر مرمر تراشتے تھے ؎مرمر سے جیسے ترشا ہوا تھا تمام باغپیڑوں کے ساتھ جیسے پرندے لگے ہوئےمجال ہے جو گولائی میں ذراق فرق آئے۔ پھر وہ اسے لڑھکاتا ہے۔ غلاظت کا گولہ آگے آگے، بھبھون پیچھے پیچھے۔ جیسے ریڑھی بان ہو، کہاں لے جاتا ہے؟ گمان غالب یہ ہے کہ اپنے بل میں لے جاتا ہے۔ سجاوٹ کے لیے یا پھر پلتا، جیتا، اسی پر ہے۔ یہ گولہ کیا ہے؟ یہ ٹی وی چینلوں کا صبح کا پروگرام ہے۔ یہ ہنرور، یہ غلاظت تراش کون ہے، یہ وہ اینکر ہے، مرد یا عورت، جو صبح کے پروگرام کی کوچوان ہے۔ کوئی ڈکشنری، کوئی لغت، کوئی کشاف، کوئی معجم، کوئی تھیسا رس، اس کثافت کو الفاظ کا جامہ نہیں پہنا سکتا جو صبح کے پروگراموں کے ذریعے اس قوم کے اندر زہراب کی طرح اتارا جا رہا ہے۔ عام اردو میں جسے گھٹیا کہتے ہیں، انگریزی میں جسے چیپ کہتے ہیں، ادبی زبان میں جسے مبتذل کہتے ہیں، وہ سب ان پروگراموں سے بہتر ثابت ہوں گے۔ حد سے زیادہ بے باک کوئی عورت، میک اپ اور فیشن کی انتہائوں کو چھوتی یا ایک چھوکرا، جس کا علم سے متانت سے شرافت سے، سنجیدگی سے دور کا بھی تعلق نہیں، نمودار ہوتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کے سامنے یوں تو پورا ملک ہے، بلکہ پوری اردو دنیا، مگر وہاں چینل کے ہال میں اس کا مجمع زیادہ تر نوجوان لڑکوں اور نوخیز لڑکیوں پر مشتمل ہے۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ ان پروگراموں میں ایک اینکر پرسن نے اپنے حمل کا بارہا ذکر کیا اور گوناگوں پیرایوں میں کیا۔ زبان عامیانہ، جملے ذومعنی، جنسی تعصب (Sexism) سے چھلکتے، کم ہی خاندان ہوں گے جو سارے اکٹھے ہو کر یہ تماشا دیکھ سکتے ہوں گے۔ تفریح پر کسی کو اعتراض نہیں، تفریح انسان کی جبلت کا تقاضا ہے مگر تفریح اور ابتذال میں فرق روا رکھنا واجب ہے۔ کیا کسی سے یہ پوچھنا کہ آپ کی پہلی بیگم نے آپ کی دوسری شادی کو قبول کیوں نہیں کیا؟ تفریح میں شامل ہے؟ ان پروگراموں میں یہ چھیل چھبیلی بنجارنیں اور یہ اینکر چھوکرے مختلف اقسام کے کھیل بھی پیش کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کھیل ایسے ہیں جو کسی بھی بھلے مانس کی غیرت نفس پر بار بن سکتے ہیں۔ شکلیں بگڑ جاتی ہیں۔ چہروں پر نہ جانے کیا کیا مل دیا جاتا ہے۔ کبھی جانوروں کی طرح کھانے بلکہ ہڑپ کرنے کے مقابلے ہوتے ہیں۔ کبھی اندرون خانہ کی وہ باتیں کرید کرید کر پوچھی جاتی ہیں کہ جو پردے ہی میں پڑی اچھی لگتی ہیں۔ حرام ہے جو ان پروگراموں میں کوئی معلوماتی ٹکڑا نظر آ جائے، شعر و ادب کا کوئی تربیتی پہلو در آ جائے، ملک کی تاریخ، معیشت یا کسی اور پہلو کا ذکر ہو جائے۔ تفریح میں تہذیب بھی شامل ہو سکتی ہے مگر ان پروگراموں میں جو تہذیب دکھائی، بتائی اور سکھائی جا رہی ہے اس سے ذہنی پستی میں کئی گنا اضافہ تو ہورہا ہے، مثبت پہلو کہیں نہیں دکھائی دیتا۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ عوام جو پسند کرتے ہیں وہی دکھاتے ہیں۔ اول تو یہ دلیل بودی ہے۔ فرض کیجئے معقول بھی ہے تو آپ عوام کے ذوق کی ترویج کیوں نہیں کرتے؟ آپ نے نشیب ہی کی طرف بہنا ہے؟ کوڑے کرکٹ سے تراشے ہوئے کچھ گولے اور بھی ہیں۔ وہ ڈرامے جو شام ڈھلے پردہ سیمیں پر نمودار ہونے شروع ہوتے ہیں، ان سے شیطان بھی پناہ مانگے۔ کوئی ایک ڈرامہ بھی ایسا نہیں جس میں کہانی معاشقے طلاق اور ساس بہو کے جھگڑوں پر مشتمل نہ ہو۔ تشدد سے بھرے مناظر۔ عورتوں کو پیٹا جا رہا ہے کہیں واجب الاحترام رشتوں سے معاشقے ہورہے ہیں، سوائے اس کے کہ لڑکی کہیں اور شادی کرنا چاہتی ہے اور ماں باپ کہیں اورکرنا چاہتے ہیں، کوئی اور موضوع، کوئی اور تھیم، کوئی اور مرکزی خیال، ان ڈراموں میں ملنا محال ہے۔ تاریخ، لٹریچر، معاشرتی اخلاق، اعلیٰ سماجی قدریں، ان ڈراموں میں ڈھونڈے سے نہیں ملتیں۔ یوں لگتا ہے روایتی فلموں کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹ کر ڈراموں میں بدلا جارہا ہے۔ ان ڈراموں کو دیکھنے والے بچے اور بچیاں ذہنی طور پر وقت سے پہلے جوان ہورہی ہیں۔ منفی اثرات جسمانی نشوونما اور جسمانی تبدیلیوں پر بھی پڑ رہے ہیں۔ بڑوں اور چھوٹوں کے درمیان جو حجاب کا باریک پردہ تھا، تار تار ہو چکا ہے۔ آٹھ دس سال کی بچی پہلے ہی کہہ اٹھتی ہے کہ ہیروئن کو طلاق ہو جائے گی، یہ بچے کیا سیکھ رہے ہیں؟ یہی کہ منگنی کا ٹوٹ جانا، طلاق کا ہو جانا، گھروں کی شکست و ریخت، دیور کا بھابھی سے دل لگانا، یہ سب روزمرہ کا حصہ ہے۔ اندازہ لگائیے، ان ڈراموں کو دیکھنے کے بعد جو نسل سامنے آئے گی، اسے رشتوں کے تقدس اور بندھنوں کے استحکام کا کتنا شعور ہوگا؟ ان ڈراموں میں سب سے زیادہ جو جملہ سننے میں آتا ہے وہ ہے۔"میری اپنی زندگی ہے۔" یہ اطلاع بیٹی ماں کو، بیٹا باپ کو، بیوی شوہر کو اور شوہر بیوی کو دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ کتابیں پڑھنے کا رجحان پہلے ہی موت کے گھاٹ اتر رہا ہے۔ وڈیو کلپوں کا طوفان، سوشل میڈیا کے اوزار اور انٹرنیٹ کے منفی اثرات کیا کم تھے کہ پاکستانی ٹی وی چینلوں کے ڈرامے اور صبح کے پروگرام معاشرے کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہورہے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں ای ریڈر عام ہورہے ہیں، ان میں کتابیں بھر کر پڑھی جا رہی ہیں۔ لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں آن لائن کتابیں منگوائی جا رہی ہیں، ہم نے قسم کھائی ہوئی ہے کہ ہر ایجاد کے شیطانی پہلو ہی آزمانے ہیں۔ جہاں پھول اور کانٹے دونوں موجود ہوں، ہمارا ہاتھ کانٹوں کی طرف بڑھتا ہے، چمکتے یاقوت کو چھوڑ کر دہکتے انگارے منہ میں ڈالے جا رہے ہیں۔ جس ملک کے عوام کا دن صبح کے ٹی وی پروگراموں سے آغاز ہوتا ہے اور سماجی توڑ پھوڑ سے لبالب ڈراموں پر ختم ہوتا ہے، اس ملک کے عوام کا کیا ذوق ہو گا اور کیا معیار ہوگا۔ محب عارفی یاد آ گئے ؎شریعت خس و خار ہی کی چلے گیعلم رنگ و بو کے نکلتے رہیں گےمچلتے رہیں روشنی کے پتنگےدیے میرے کاجل اگلتے رہیں گےرواں ہر طرف ذوق پستی رہے گابلندی کے چشمے ابلتے رہیں گے