پانی کے جانور
یہ تاریخ کی ایک بھولی بسری کہانی ہے مگر یہ صرف تاریخ یا ماضی نہیں، یہ حال بھی ہے، مستقبل بھی اور شاید ہم جب تک اپنے رویئے نہیں بدلتے، ہم تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے، یہ کہانی شاید اسی طرح چلتی رہے، یہ نئے سورجوں، نئے پانیوں اور نئی ہواؤں کی تلاش میں آگے بڑھتی رہے، یہ ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کی کہانی تھی اور یہ اب چلتے چلتے میاں نواز شریف تک پہنچ گئی ہے اور شاید میاں نواز شریف اس کہانی کے آخری شکار ہوں۔
یہ کہانی ملتان سے شروع ہوئی، 1975ء میں لیفٹیننٹ جنرل ضیاء الحق ملتان کے کور کمانڈر تھے اور ذوالفقار علی بھٹو موجودہ پاکستان کے سب سے بڑے لیڈر، کراچی سے لے کر طور خم تک ذوالفقار علی بھٹو کا طوطی بولتا تھا، پورے ملک میں ان کے سامنے اونچی آواز میں سانس لینے والا کوئی شخص نہیں تھا، فوج 1971ء کی جنگ کے بعد اپنے زخم سہلا رہی تھی، ملتان ملک کا روحانی، فیوڈل اور سیاست کا مرکز تھا، یہ آج بھی ہے، صادق قریشی ملتان کی عظیم روحانی اور سیاسی شخصیت تھے، یہ پنجاب کے گورنر اور وزیر اعلیٰ رہے، یہ بھٹو صاحب کے قریبی دوست تھے، صادق قریشی نے ملتان میں اپنے گھر میں بھٹو صاحب کے لیے انیکسی بنا رکھی تھی، یہ انیکسی قریشی صاحب کے گھر کا حصہ ہونے کے باوجود الگ تھلگ تھی، ذوالفقار علی بھٹو جب بھی ملتان آتے تھے، یہ صادق قریشی کی انیکسی میں رہتے تھے۔
بھٹو صاحب ملتان آئے، یہ انیکسی میں ٹھہرے، ان کے کمرے کی کھڑکی سے انیکسی کا لان نظر آ رہا تھا، بھٹو صاحب کمرے میں ملتان کے عمائدین سے ملاقات کر رہے تھے، یہ سرکاری اہلکاروں کے ساتھ میٹنگ بھی کر رہے تھے، یہ ملاقاتوں کے دوران کھڑکی سے باہر بھی دیکھتے جا رہے تھے، انھوں نے دیکھا لان میں ایک فوجی افسر پوری یونیفارم پہن کر ٹہل رہا ہے، اس کے کندھے پر لیفٹیننٹ جنرل کے اسٹارز لگے ہیں، بھٹو صاحب ملاقاتیں کرتے رہے اور وہ جنرل لان میں ٹہلتا رہا، بھٹو صاحب بیڈ روم سے ڈرائنگ روم میں آ گئے، وہ ڈرائنگ روم کی کھڑکی سے بھی اس جنرل کو دیکھتے رہے، وزیر اعظم کھانے کے لیے اٹھے تو اس وقت بھی جنرل لان میں ٹہل رہا تھا، بھٹو صاحب اسے بار بار دیکھتے تھے اور اس کے بعد کچھ سوچتے تھے، شام کے وقت ملتان میں بھٹو صاحب کا جلسہ تھا۔
یہ جلسے کے لیے نکلنے لگے تو وہ گاڑی میں بیٹھتے بیٹھتے رکے، نیچے اترے، چلتے ہوئے اس جنرل کے قریب آئے اور اس سے پوچھا "آپ کا تعارف" جنرل نے چھڑی بغل میں دبائی، وزیر اعظم کو انتہائی اسمارٹ سیلوٹ کیا اور عاجزی سے بولا "ضیاء الحق ہیئر سر" بھٹو صاحب نے پوچھا "میں آپ کو صبح سے دیکھ رہا ہوں، آپ یہاں کیا کر رہے ہیں " جنرل ضیاء الحق نے اپنا پورا جسم پنجوں پر اٹھایا اور عرض کیا " سر آپ ملتان میں ہیں، میں ملتان کا کور کمانڈر ہوں، آپ کی سیکیورٹی میری ذمے داری ہے، میں آپ کی حفاظت کے لیے خود یہاں موجود ہوں " بھٹو صاحب نے حیران ہو کر کہا "جنرل آپ کے کمانڈوز، پولیس فورس اور میری ذاتی سیکیورٹی موجود ہے، آپ کیوں تکلیف کر رہے ہیں " جنرل نے عرض کیا "سر میں فوجی ہوں، میں جانتا ہوں اگر کمانڈنگ آفیسر خود محاذ پر موجود ہو تو اس کی فورس ایکٹو رہتی ہے، میرے یہاں رہنے سے کمانڈوز الرٹ بیٹھے ہیں " بھٹو صاحب انسان تھے اور انسان ہمیشہ خوشامد سے خوش ہوتا ہے، بھٹو صاحب بھی خوش ہو گئے۔
انھوں نے جنرل کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اس سے کہا "آپ شام سات بجے یہاں آ جائیں، میں آپ کے ساتھ میٹنگ کرنا چاہتا ہوں " جنرل نے سیلوٹ کیا اور ذوالفقار علی بھٹو گاڑی میں بیٹھ کر جلسہ گاہ میں چلے گئے، جلسہ لمبا ہو گیا، جلسے کے بعد ملتان کے مخدوم بھٹو صاحب کو کھانے پر لے گئے، وہاں گفتگو شروع ہوئی تو لمبی ہوتی چلی گئی، بھٹو صاحب اس کے بعد ملتان کی کاروباری برادری سے بھی ملے، انھوں نے بھی وزیر اعظم کا بہت وقت لے لیا، یہاں تک کہ رات کے دو بج گئے، بھٹو صاحب انتہائی تھکے ہوئے واپس آئے، یہ انیکسی میں داخل ہوئے تو جنرل ضیاء الحق سامنے بیٹھے تھے، جنرل نے اٹھ کر وزیر اعظم کو سیلوٹ کیا، بھٹو صاحب نے حیران ہو کر پوچھا "آپ کب آئے" جنرل ضیاء الحق نے جواب دیا "سر میں پونے سات بجے پہنچ گیا تھا" بھٹو صاحب نے کہا "آپ پونے سات بجے سے یہاں بیٹھے ہیں " جنرل نے جواب دیا "یس سر" بھٹو صاحب نے پوچھا "میں لیٹ تھا تو آپ واپس چلے جاتے" جنرل ضیاء الحق نے جواب دیا "سر آپ نے مجھے آنے کا وقت دیا تھا، جانے کا نہیں " بھٹو صاحب کی ہنسی نکل گئی۔
وہ صادق قریشی اور دوسرے ساتھیوں کی طرف مڑے، انھیں گڈ نائیٹ کہا اور جنرل ضیاء الحق کو ساتھ لے کر بیڈ روم میں گھس گئے، بھٹو صاحب سوا گھنٹہ جنرل ضیاء الحق کے ساتھ بیٹھے رہے، یہ وہ 75 منٹ تھے جن میں بھٹو صاحب نے وہ فیصلہ کیا جو آگے چل کر ان کی تباہی کا باعث بنا، اگلے دن بھٹو صاحب کی اسلام آباد کے لیے فلائٹ تھی، یہ جہاز میں داخل ہوئے تو بیگم نصرت بھٹو اور سردار شیر باز خان مزاری وزیر اعظم کے کیبن میں بیٹھے تھے، جنرل ضیاء الحق رن وے پر کھڑے تھے، بھٹو صاحب اپنی سیٹ پر بیٹھے، انھوں نے کھڑکی سے جھانک کر جنرل ضیاء الحق کی طرف دیکھا اور شیرباز مزاری سے کہا "مزاری مجھے میرا چیف آف آرمی اسٹاف مل گیا" یہ وہ فقرہ، وہ فیصلہ تھا جو آنے والے دنوں میں بھٹو صاحب کے زوال، بھٹو صاحب کے اقتدار کے خاتمے، گرفتاری اور پھر پھانسی کا ذ ریعہ بن گیا، بھٹو صاحب نے پانچ سینئر جرنیلوں کو مسترد کر کے جنرل ضیاء الحق کو آرمی چیف بنایا اور پھر ان کے اپنے آرمی چیف نے انھیں پھانسی کے تختے تک پہنچا دیا۔
ذوالفقار علی بھٹو اگر اس وقت ایک لمحے کے لیے سوچ لیتے جو شخص وزیر اعظم کی توجہ حاصل کرنے کے لیے پوری یونیفارم پہن کر آٹھ گھنٹے لان میں ٹہل سکتا ہے اور جو وزیر اعظم کو اپنی وفاداری کا یقین دلانے کے لیے ان کی رہائش گاہ پر ایک صوفے پر سات گھنٹے گزار سکتا ہے، وہ کس قدر خوفناک اور بے وفا ثابت ہو گا تو شاید وقت کا دھارا بدل جاتا، خوشامد اور جی حضوری آرٹ ہے اور جو لوگ اس کے ماہر ہوتے ہیں، یہ چند لمحوں میں چاند کو شیشے میں اتار لیتے ہیں، آج سے ہزاروں سال قبل چین کے کسی دانشور نے کہا تھا، لکڑی کو دیمک اور بادشاہوں کو خوشامد کھا جاتی ہے اور بھٹو صاحب جنرل ضیاء الحق کے جھکے ہوئے سر، سینے پر بندھے ہوئے ہاتھوں اور"سر آپ نے آنے کا کہا تھا، جانے کا نہیں " جیسے کلمات کے طلسم میں آ گئے، یہ پھنس گئے اور انھیں اس وقت رہائی ملی جب ان کا بدن رسے پر جھول رہا تھا اور روح راولپنڈی جیل کے پھانسی گھاٹ میں پھڑ پھڑا رہی تھی۔
بھٹو صاحب نے اگر اپنی خوشامد پسندی کو قابو میں رکھا ہوتا، یہ غلاموں کی بجائے اہل لوگ تلاش کرتے تو شاید یہ پاکستان کے ماؤزے تنگ، چو این لائی، مہاتیر محمد اور لی کوان یو ہوتے مگر یہ خوشامدیوں کے ہتھے چڑھ گئے اور یہ خوشامدی انھیں عبرت ناک انجام تک لے گئے، میاں نواز شریف کے ساتھ بھی دونوں مرتبہ یہی ہوا، یہ 1990ء سے لے کر 1992ء تک اور 1997ء سے لے کر 1999ء تک ذوالفقار علی بھٹو جیسی غلطیاں کرتے رہے، یہ اپنے گرد ایسے لوگ اکٹھے کرتے رہے جو خوشامد میں دس دس گھنٹے ان کے دروازے پر بیٹھے رہتے تھے لیکن جب میاں صاحب پر برا وقت آیا تو یہ نہ صرف ان کے پیچھے سے ہٹ گئے بلکہ انھوں نے ان کے خلاف اپنے لشکر بھی بنا لیے، جنرل پرویز مشرف کون تھا، یہ جنرل ضیاء الحق کی ایکسٹینشن تھا اور میاں صاحب نے وہی نقطہ سوچ کر اسے آرمی چیف بنایا تھا جس سے مجبور ہو کر بھٹو صاحب نے جنرل ضیاء الحق کو میرا آرمی چیف کہا تھا۔
چوہدری صاحبان کون تھے، یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے گجرات میں میاں نواز شریف کی گاڑی اپنے کندھوں پر اٹھائی تھی، پاکستان مسلم لیگ ق کیا تھی، یہ ان لوگوں کی جماعت تھی جنھوں نے نواز شریف کی جھولی سے جنم لیا تھا اور میاں نواز شریف کو وہ تمام بیوروکریٹس، وہ تمام صحافی اور وہ تمام بزنس مین بھی یاد ہوں گے جو انھیں 1999ء تک سیاست کا امام کہتے تھے مگر یہ لوگ 12 اکتوبر 1999ء کے بعد گرمیوں میں برف کی طرح غائب ہو گئے، یہ سب نئی چرا گاہوں کی طرف کوچ کر گئے۔
میاں نواز شریف آج تیسری بار حکمران بن رہے ہیں تو میں ایک بار پھر انھیں لوگوں کو ان کے اردگرد دیکھ رہا ہوں، یہ لوگ جب شیر آیا، شیر آیا اور وزیر اعظم میاں نواز شریف کے نعرے لگاتے ہیں تو میاں نواز شریف کے چہرے پر طمانیت اور خوشی چمکنے لگتی ہے اور دیکھنے والی ہر آنکھ صاف بھانپ جاتی ہے میاں صاحب کو یہ نعرے اور یہ آوازیں اچھی لگ رہی ہیں، میاں صاحب ضرور خوش ہوں لیکن یہ خوش ہوتے ہوئے ایک لمحے کے لیے یہ ضرور سوچ لیں، یہ وہ لوگ ہیں جو کل تک جنرل پرویز مشرف کو دس بار یونیفارم میں صدر منتخب کرانا چاہتے تھے، یہ لوگ، جو آج آپ کے دروازے پر دس دس گھنٹے بیٹھے رہتے ہیں یہ کل تک کسی اور کو خدا سمجھتے تھے اور آپ جس دن اس کرسی سے ہٹ جائیں گے یہ نئے بھگوان کی تلاش میں نکل کھڑے ہوں گے، یہ پانی کے جانور ہیں، یہ ہر لمحہ تالابوں کی تلاش میں رہتے ہیں، آپ ہیں تو یہ آپ کے ساتھ ہیں، آپ نہیں ہوں گے تو یہ کوئی نیا تالاب کوئی نیا کنواں تلاش کر لیں گے، کسی اور کے لیے شیر آیا، شیر آیا کے نعرے لگائیں گے، یہ لوگ آپ کو جب بھی لان میں ٹہلتے یا دس دس گھنٹے آپ کا انتظار کرتے نظر آئیں تو آپ جان لیں یہ لوگ میرٹ کے درمیان حائل ہوتے ہیں اور آخر میں محسنوں کو کربلا میں چھوڑ کر کوفہ چلے جاتے ہیں۔