بالکونی
وہ دلہن تھی اور وہ سعودی عرب کے شہر حریملا میں رہتی تھی، دلہن کے والدین نے ریاض سے اس کے لیے عروسی جوڑا خریدا، یہ جوڑا کوریئر کمپنی کے ذریعے حریملا پہنچنا تھا، پانچ دن گزر گئے مگر وہ جوڑا منزل مقصود تک نہ پہنچ سکا یہاں تک کہ شادی دو دن دور رہ گئی، دلہن نے ٹویٹر پر کوریئر کمپنی کا چیف ایگزیکٹو تلاش کیا اور اسے پیغام دیا " کیا آپ یہ چاہتے ہیں، آپ کی کمپنی کی وجہ سے ایک دلہن عروسی جوڑے کے بغیر رخصت ہو جائے"
چیف ایگزیکٹو نے فوراً جواب دیا " ہرگز نہیں " دلہن نے اسے لکھا "مگر آپ کی کمپنی یہ چاہتی ہے" چیف ایگزیکٹو حماد الاکبر نے تحقیقات کروائیں، پتہ چلا دلہن کا عروسی جوڑا نہیں پہنچا، چیف ایگزیکٹو نے جوڑا تلاش کیا، اپنی گاڑی میں رکھوایا، گاڑی خود ڈرائیو کی، حریملا پہنچا اور دلہن کو جوڑا خود پہنچا کر واپس آگیا، یہ تین دن پرانا واقعہ ہے، یہ اس وقت پوری کارپوریٹ ورلڈ میں ڈسکس ہو رہا ہے، دنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں کے چیئرمین، سی ای اوز اور ڈی جی یہ واقعہ دہرا رہے ہیں اور سعودی عرب کی اس کورئیر کمپنی کے چیف ایگزیکٹو حماد الاکبر کے اس اقدام کو سراہ رہے ہیں۔
یہ پروفیشنل ازم کی چھوٹی سی مثال ہے، اس نوعیت کی مثالیں کمپنیوں، اداروں اور محکموں کی کارکردگی میں اضافے کا باعث بنتی ہیں، اس سے اداروں کی اسپرٹ میں اضافہ ہوتا ہے، یہ اصول حکومتوں اور سیاستدانوں پر بھی لاگو ہوتا ہے، اگر ملک کا صدر، وزیراعظم یا گورنر ہفتے میں ایک آدھ دن اس طرح " بے ہیو" کرے یا یہ عوامی مسئلے کے حل کے لیے خود نکل کھڑا ہو تو اس سے قوم کے مورال پر بہت اچھا اثر پڑتا ہے۔
میں نے چند ماہ قبل انٹرنیٹ پرمشرقی تیمور کے وزیراعظم زنانا گوسماو کی تصاویر دیکھیں، یہ گھر سے وزیراعظم آفس جانے کے لیے نکلے، راستے میں ٹریفک جام تھی، ٹریفک پولیس نہیں پہنچ پائی تھی، وزیراعظم زنانا گوسماواپنی گاڑی سے اترے، چوک کے درمیان کھڑے ہوئے اور کانسٹیبل کی طرح ٹریفک کنٹرول کرنا شروع کر دی، لوگ وزیراعظم کو ٹریفک کانسٹیبل کا کام کرتے دیکھ کر حیران بھی ہوئے اور خوش بھی، ٹریفک میں پھنسے ایک شخص نے وزیراعظم کی تصاویر کھینچیں اور انٹرنیٹ پر چڑھا دیں، یہ تصاویر کروڑوں لوگوں نے دیکھیں، ان تصویروں کی بنیاد پر ٹرینر نے مینجمنٹ، پبلک ریلیشن اور مورال بوسٹنگ کے درجن بھر نئے پروگرام بنائے، یہ اب کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹوز کو ٹریننگ دیتے ہیں "آپ اگر کسی دن آدھ گھنٹے کے لیے واچ مین، کار بوائے، ڈرائیور یا چپڑاسی کا کام کر دیں گے تو اس سے ورکرز کے مورال میں اضافہ ہو گا"
وینزویلا کے ہیوگو شاویز، ملائشیا کے مہاتیر محمد، دوبئی کے محمد بن راشد المکتوم، ایران کے احمدی نژاد اور جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا کی ساری سیاست اس اصول پر مبنی تھی، یہ لوگ گلیوں میں نکل کر عام لوگوں کی طرح کام شروع کر دیتے تھے اور لوگ ان کو دیکھ کر خود بھی کام کرنے لگتے تھے، مہاتیر محمد ہر اتوار کو " ملائشین میڈ" کار میں بیٹھ کر بازار سے سبزی اور فروٹ خریدتے تھے جب کہ ہیوگوشاویز سرکاری بس چلانا شروع کر دیتے تھے، لوگوں نے احمدی نژاد کو زلزلے کے بعد ملبہ ہٹاتے دیکھا جب کہ محمد بن راشد المکتوم مارکیٹوں میں اکیلے نرخ چیک کرتے تھے۔
حکمرانوں کے اس اقدام نے قوم پر خوش گوار اثرات مرتب کیے، ان اقدامات کی پیروی دنیا کے ہر اس ملک میں ہونی چاہیے جس میں غریب لوگ ووٹ کے ذریعے اپنے حکمرانوں کا فیصلہ کرتے ہیں، ووٹ بادشاہوں اور جمہوری لیڈروں کے درمیان واحد فرق ہوتا ہے، عوام بادشاہوں کو منتخب نہیں کرتے چنانچہ وہ بلٹ پروف گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھا ہو یا محل کی کھڑکی سے سال میں ایک بار عوام کو اپنا دیدار کرواتا ہو لوگوں کو فرق نہیں پڑتا مگر یہ جب اپنے ووٹ سے منتخب ہونے والے شخص کو بلٹ پروف گاڑیوں کے قافلے میں پچھلی سیٹ پر بیٹھے دیکھتے ہیں، یہ ایوان اقتدار میں اسے مزے لوٹتے یا سرکاری جہازوں پر دنیا بھر کی سیر کرتے دیکھتے ہیں تو انھیں بہت تکلیف ہوتی ہے اور یہ لوڈ شیڈنگ کو مزید تپتا اور گیس کو ابلتا محسوس کرتے ہیں لہٰذا منتخب حکمرانوں بالخصوص تیسری دنیا کے منتخب حکمرانوں کو سعودی عرب کی کوریئر کمپنی کے چیف ایگزیکٹو جیسا رویہ اختیار کرنا چاہیے، انھیں صدام حسین، کرنل قذافی، حسنی مبارک اور زین العابدین بننے کی بجائے ہیوگو شاویز، مہاتیر محمد اور احمدی نژاد بننا چاہیے، قوم کو اپنی موجودگی اور درد کا احساس دلانا چاہیے۔
میں میاں شہباز شریف کا " فین" ہوں، اس کی بڑی وجہ ان کا عوامی اسٹائل ہے، یہ عوامی کپڑے پہنتے ہیں، عوامی زبان بولتے ہیں، عوام میں اٹھتے بیٹھتے اور چلتے پھرتے ہیں اور عوام کی طرح لوڈ شیڈنگ کا عذاب برداشت کرتے ہیں جب کہ میاں نواز شریف کا طرز زندگی ان سے یکسر مختلف ہے، یہ شہزادوں کی طرح رہتے ہیں، میاں صاحب کو چاہیے یہ اپنی سوچ کی طرح اپنا طرز زندگی بھی بدل دیں، یہ ملک تبدیل ہو چکا ہے، یہ اب 1999ء سے بہت آگے جا چکا ہے، ملک کی 60فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، بے روزگاری، مہنگائی، لاقانونیت اور پولرائزیشن انتہا کو چھو رہی ہے اور ان سب کے ساتھ ساتھ ملک میں آزاد میڈیا اور مادر پدر آزاد سوشل میڈیا بھی موجود ہے، حکمرانوں کی چھوٹی سی غلطی چند لمحوں میں اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں اور دو چار ارب غیر ملکیوں تک پہنچ جاتی ہے، سوشل میڈیا چھٹانک بھر دہی کو لسی کا مٹکا بنادیتا ہے، آپ ایک غلطی کرتے ہیں تو سوشل میڈیا کے فنکار دنیا بھر کی غلاظت اکٹھی کر کے اسے ماؤنٹ ایورسٹ بنا دیتے ہیں۔
میاں صاحب کو اس تبدیلی کو محسوس کرنا چاہیے اور سب سے پہلے رائے ونڈ کا سفید محل چھوڑنا چاہیے، انھیں وزیراعظم ہاؤس سے بھی نقل مکانی کرنی چاہیے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو انھیں کم از کم ان ایوانوں میں تصویریں نہیں بنوانی چاہئیں، میاں نواز شریف اور ان کی کابینہ کے وزراء کو پروٹوکول، سائرن اور سیکیورٹی بھی نہیں لینی چاہیے، وزیراعظم، وزراء اعلیٰ اور گورنرز کے لیے سڑکیں خالی کرانا، روٹ لگانا اور تین تین قافلے گزارنا یہ بھی بند ہونا چاہیے، ملک میں اگر لوڈ شیڈنگ ہے تو ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس اور پارلیمنٹ ہاؤس میں بھی لوڈ شیڈنگ ہونی چاہیے، پانی اور بجلی کی وزارت کے کسی محکمے اور کسی دفتر میں جنریٹر نہیں ہونا چاہیے، اس وزارت کے ہر اہلکار کو عوام کے ساتھ لوڈ شیڈنگ کا مزا چکھنا چاہیے۔
پاکستان کی معاشی صورتحال خراب ہے، ہم اس معاملے میں سعودی عرب اور چین سے مدد لے سکتے ہیں، سعودی عرب کا شاہی خاندان پاکستان سے حقیقتاً محبت کرتا ہے، اس کی بے شمار وجوہات میں سے ایک وجہ اسلام بھی ہے، پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر بنا اور سعودی شاہی خاندان اس کی وجہ سے پاکستان کی عزت کرتا ہے، میاں صاحب اگر شاہ عبداللہ سے ملاقات کریں، یہ انھیں پاکستان کی مشکلات سمجھائیں تو سعودی عرب کے لیے پاکستان میں دس بیس بلین ڈالر کی سرمایہ کاری بڑی بات نہیں، چین نے امریکا میں اڑھائی کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، ہم اگر چین کو اپنے مسائل سمجھائیں تو یہ بھی پاکستان میں بیس تیس بلین ڈالر کی سرمایہ کاری آسانی سے کر سکتا ہے، دوبئی ہر ہفتے صرف ویزوں سے تین سو ملین ڈالر کما رہا ہے، ہم بھارتی شہریوں کے لیے سرحد پر ویزے کی سہولت رکھ سکتے ہیں، آپ ویزے کے سو ڈالر لیں اور بھارتی شہریوں کو واہگہ بارڈر پر ویزے جاری کر دیں، ہم صرف ان ویزوں سے کروڑوں ڈالر کما سکتے ہیں۔
آپ پاکستان کی معیشت کو دو سال کے لیے ٹیکس فری قرار دے دیں، ملک میں اربوں ڈالر آ جائیں گے، آپ انکم ٹیکس کی شرح دس فیصد تک لے آئیں ملک کے تمام شہری ٹیکس نیٹ میں آ جائیں گے، آپ ملک میں چھوٹی چھوٹی کمپنیاں بنوائیں، ملک کا جو شہری دولوگوں کو جاب دے اسے ٹیکس میں چھوٹ دیں، بیرون ملک سے آنے والے سرمائے کی حوصلہ افزائی کریں، ریستورانوں کا جی ایس ٹی معاف کر دیں، لوگوں کو نوکری کی بجائے بزنس کی طرف لے کر جائیں، ملک میں ایسے بزنس گائیڈنگ سنٹرز بنائیں جو نوجوانوں کو کاروبار کی ٹریننگ دیں، جو نوجوانوں کی کاروبار کے لیے رہنمائی کریں، توانائی کو کاروبار کی شکل دے دیں، لوگوں کو بتائیں " تم لوگ اپنے گھر اور دفتر کے لیے بجلی کیسے پیدا کر سکتے ہو" دیہات میں بائیو انرجی، سولر انرجی اور ندی نالوں سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے شروع کرائیں، یہ منصوبے بینکوں اور سرمایہ کار کمپنیوں کے ذریعے چلائے جائیں، سرمایہ کار کمپنیاں بجلی پیدا کرنے کے یونٹ لگائیں اور بعد ازاں لوگوں سے بل وصول کریں اور لوگوں میں دہشت گردی اور لاقانونیت کے خلاف احساس بیدار کریں تا کہ پوری عوام اس معاملے میں ریاست کی ساتھی بن جائے اور یوں یہ مسئلہ حل ہو جائے لیکن یہ سارے کام صرف اور صرف اس وقت ہو سکتے ہیں جب میاں نواز شریف اور ان کی کابینہ ایوان اقتدار سے نکل کر عوام کے ساتھ کھڑی ہو، آپ اگر بادشاہوں کی طرح محل میں بیٹھ جائیں گے اور مہینے میں ایک بار بالکونی میں کھڑے ہو کر عوام کو اپنا دیدار کروائیں گے تو لوگ آپ سے دور چلے جائیں گے، یہ آپ کی مدد نہیں کریں گے اور جب تک عوام ساتھ نہ ہوں کوئی لیڈر، لیڈر نہیں بنتا، یہ قوم کی حالت تبدیل نہیں کر سکتا۔
آپ کو کم از کم سعودی عرب کی اس کوریئر سروس کے چیف ایگزیکٹو سے بہتر پرفارم کرنا چاہیے کیونکہ آپ دنیا کی ساتویں نیو کلیئر پاور کے حکمران ہیں، قوم نے آپ پر اعتماد کیاہے۔