بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں
کاہے کا ملال، کس بات کا رنج؟ آدمی خطاکار ہے، غلطیاں تو سرزد ہوں گی ہی۔ ظاہر نہیں، پروردگار آدمی کا باطن دیکھتاہے۔ حکم اسی پر لگایا جائے گا۔ انماالاعمال بالنیات۔
کراچی کی یاد آئی تو آتی چلی گئی۔ ساحلِ سمندر سے ادھر ایک کشادہ گھر۔ اس کی شاندار لائبریری میں وجاہت و وقار کا ایک مجسمہ۔ پہلی نظر میں ایسا لگا کہ عہدِ قدیم کا کوئی کردار زندہ ہو گیا ہے اور حیرت و استعجاب سے اپنے اردگرد پھیلی ہوئی دنیا کو دیکھتا ہے۔
اس لکھنے والے پر اعتراض ہے کہ وہ کہانی کو دہراتا ہے اور خیال کو بھی۔ دہرانا پڑتا ہے۔ اس لیے کہ گاہے کوئی تصویر دل میں اتر جاتی ہے، جو کبھی رخصت نہیں ہوتی۔ چراغ کی روشنی معلوم اور متعین ہوتی ہے۔ شخصیات اور افکار کی نہیں۔ کبھی کوئی زاویہ اور زیادہ چمک اٹھتا ہے۔ کبھی کوئی بجھ جاتا ہے۔ کبھی اس کے معانی بدل جاتے ہیں۔ کبھی اور بھی لودینے لگتے ہیں۔
سردار شیر باز خاں مزاری کب سیاست میں آئے، کچھ یاد نہیں۔ لاہور میں اتفاقاً ملاقات ہوئی، تشنگی کا احساس باقی رہا۔ کراچی جانا ہوا تو وقت عنایت کرنے کی درخواست کی۔ ایسی شائستگی، محبت اور ٹھہرائو کے ساتھ کھانے پر انہوں نے مدعو کیا جو خال خال ہوتی ہے۔ ایسی ہی عنایت ایک بار جنابِ مشتاق احمد یوسفی نے کی تھی۔ ان کاچہکتا ہو الہجہ، چمکتی ہوئی آنکھیں اور جملے اب بھی یاد آتے ہیں۔ اترسوں ان کی برسی تھی۔ جی بہت چاہا کہ اس آدمی پر لکھا جائے، جس نے ایک پورے عہد کومتاثر کیا۔ جس کے بعض پہلو پوری طرح ابھی زیرِ بحث نہیں آئے۔
ہمت نہ پڑی، وقت چاہیے ہوتاہے۔ لکھنے نہیں، سوچنے کے لیےکبھی مشورہ درکار ہوتاہے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی لاہور میں موجود ہوتے تو شاید یہ سہل ہوتا۔ کچھ اور دوستوں سے تبادلہء خیال ہو سکتاتو ممکن ہے، ڈھنگ کی ایک تحریر لکھی جاتی۔ یوسفی صاحب نے ناچیز کو مشورہ دیا تھا کہ اپنے کالم من و عن چھاپ دو۔"Ghost writing" انہوں نے کہا تھا: اس طرح کی تحریریں قطع و برید کے بغیرچھاپنی چاہئیں۔ منتخب کالموں کی تین جلدیں سرہانے پڑی ہیں۔ جی نہیں مانتاکہ اغلاط اور خامیوں کے ساتھ من و عن شائع کر دی جائیں۔ پانچ چھ کالموں پہ نظر ِ ثانی کی۔ چند لفظ بدل ڈالے۔ دوستوں کا اصرار بہت ہے لیکن فرصت کمیاب۔ آخر ہفتہ تھوڑا سا وقت میسر آتا ہے مگر مسافرت، مگر تقریبات۔ آج میانوالی جانا ہے، اگلے ہفتے لاہور، پھر چترال اور اس کے بعد شاید کراچی۔ زچ کرنے والی مصروفیت۔
تدارک شاید یہ ہے کہ ٹیلی ویژن کو خیر باد کہہ دیا جائے۔ دل یہ چاہتاہے کہ زیادہ سے زیادہ آئندہ سال کی ابتدا میں سکرین سے پنڈ چھڑا لیا جائے، جو پوری زندگی نگل جاتی ہے۔ پیہم شعبدہ بازی اس کی بھول بھلیاں۔ جنابِ مشتاق یوسفی سے ملاقات کی روداد پھر کبھی۔ اقبالؔ نے کہا تھا:
نالہ ہے بلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینہ میں اسے اور ذراتھام ابھی
کوئل اور بلبل کا نغمہ کبھی خام نہیں ہوتا۔ درد سے بھری ایک لہر، ہولے ہولے جو دل پہ دستک دیتی رہتی ہے۔ جو بجھی ہوئی یادوں کو تازہ کر دیتی ہے۔ شاعر نے کہا تھا: جیسے بارش کھنڈرات کو اجاگر کر ڈالے۔ بلبل تو محض ایک علامت ہے۔ شاید اس سے مراد وہ کہنے اور لکھنے والے ہیں، جن کی سمع خراشی سے دنیا ہمیشہ بھری رہتی ہے۔ زیاں بہت ہے، خدا کی کائنا ت میں زیاں بہت۔ اظہارِ ذات کی بے تاب تمنا اور اس کا خروش۔ شاید ہم بھی انہی میں سے ہیں۔ میرؔ صاحب نے کہا تھا
مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا
جب کوئی میرتقی میر ؔاظہارکے افق پہ نمودار ہوتاہے تو اپنے عہد میں بہت چمکے یا نہ چمکے، صدیوں تک باقی رہتاہے۔ درویش سے پوچھا گیا کہ" کشف المحجوب" انہوں نے کتنی بار پڑھی ہے۔ فرمایا: میں نے پڑھی نہیں، مجھ پر بیت گئی ہے۔ جوش ملیح آبادی نے کہا تھا: جو کچھ ہم بتا رہے ہیں، زندگی نہیں، یہ زندگی کی نقل ہے۔ سرکارؐ کے ایک فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ آخری زمانے میں سال مہینوں کی طرح، مہینے دنوں کی طرح اور دن چولہے میں جلتے چلے جائیں گے۔
یہی ہماری زندگی ہے، انہماک نہ استغراق۔ مسلسل ایک بھاگ دوڑ اور تقریباً سب کی سب بے معنی۔ تب ایسے کسی شخص کو ہم دیکھتے ہیں، جس نے سوچ سمجھ کر زندگی بسر کی۔ طے کردہ ترجیحات سے حتی الامکان انحراف نہ کیا تو ہم چونک اٹھتے ہیں۔ سردار شیر باز مزاری کو ایسا ہی پایا۔ جو دوست مجھے ان کے ہاں چھوڑنے گئے تھے ان سے عرض کیا کہ آپ بھی شریک ہو جائیے۔ بولے: سردار صاحب کو آپ جانتے نہیں۔ وہ اپنی خلوت اور جلوت کے نگہبان ہیں۔ بے جا مداخلت نہیں کرتے اور بے جا مداخلت پسند بھی نہیں کرتے۔
لائبریری میں وہ تشریف فرما تھے۔ لانبا قد، سفید شلوار کرتا، چاندی ایسے چمکتے بال۔ عمر کے اس حصے میں، جسے بڑھاپا کہا جا سکتا ہے لیکن چہرے پر عمرِ رفتہ کا غبار نہ تھا۔ کھانا کھایا جا چکا اور چائے پی جا چکی تو اچانک انھوں نے کہا: میری عمر تو رائیگاں رہی۔ میں تو ناکام ہوگیا۔ عرض ان سے یہ کیا تھا کہ وہ لاہور تشریف لائیں۔ قومی اسمبلی کی ایک نشست خالی ہونے والی ہے۔ شہر والے یقینا ان کا احترام ملحوظ رکھیں گے۔ قومی اسمبلی میں انہیں موجود ہونا چاہئیے۔
ملک کو ان کی ضرورت ہے۔ کہا: مسلم لیگ کی خالی ہونے والی نشست؟ نہیں، یہ تو مناسب نہیں۔ پھر نہایت انکسار کے ساتھ کہا کہ برطرفی سے بہت پہلے بے نظیر بھٹو نے انہیں اقتدار میں شرکت کی پیشکش کی تھی۔ بیگم آصف علی زرداری کی حکومت میں وہ کیا شریک ہوتے۔ انہیں تو اب عبد الولی خان بھی گوارا نہ تھے۔
ولی خان اور حبیب جالب سمیت ان کے سب نمایاں رفقا جب ذوالفقار علی بھٹو نے گرفتار کر لیے تو نیشنل عوا می پارٹی کا گرا ہوا پرچم سردار شیر باز مزاری نے اٹھایا اور تھامے رکھا۔ حتیٰ کہ ضیاء الحق نے حکومت سنبھالی اور وہ رہاکر دیے گئے۔ باچا خان کے خاندان اور پیروکاروں پر سردار صاحب کا احسان اتنا بڑا تھا کہ کسی صورت چکا نہ سکتے۔ سردار صاحب جتلانے اور توقعات رکھنے والے آدمی نہیں تھے۔ احترام کا ملحوظ رکھا جاتا۔ لیکن پھر وہ سفا ک لمحہ نمودار ہوا، جس میں رفاقت کی آسودگی یا اصول میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا۔
سوال یہ تھا کہ افغان عوام کو سوویت یونین کی سفاک سپاہ کے مقابل میدان میں اترنے کا حق ہے یا نہیں۔ باچا خان کے خاندان کا خیال تھا کہ ہرگز نہیں۔ برہمنوں اوران کے حلیفوں کی جارحیت، جارحیت نہیں ہوتی۔ سردار شیر با زمزاری نے انہیں خیر باد کہا۔ نئی پارٹی بنائی، جو پھل پھول نہ سکی۔ اب وہ ڈرائنگ روم میں اکیلے تھے اور بیتے دنوں کا ملال، ان فیصلوں کا، جو سوچ سمجھ کر کیے گئے مگر غلط نکلے۔
ملاقاتی نے فقط یہ عرض کیا: عمر بھر جس آدمی نے رزقِ حلال کھایا اور سچ بولا، رائیگاں نہیں، اس کی زندگی ثمربار ہوئی۔ بات ہوتی رہی ؛حتیٰ کہ شام کے سائے درو دیوار پہ اتر آئے۔
کاہے کا ملال، کس بات کا رنج؟ آدمی خطاکار ہے، غلطیاں تو سرزد ہوں گی ہی۔ ظاہر نہیں، پروردگار آدمی کا باطن دیکھتاہے۔ حکم اسی پر لگایا جائے گا۔ انماالاعمال بالنیات۔