افغانستان میں قیام امن اور پاکستانی موقف
افغانستان سے آئے میڈیا کے وفد سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کسی بھی صورت افغان امن کو سبوتاژ ہونے نہیں دے گا۔ دوسری طرف امریکی دورے پر گئے ہوئے وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف نے کہا ہے کہ کوئی ایسا نظام وضع کیاجائے جس سے افغان مہاجرین دوسرے ملکوں میں جانے کے بجائے اپنے ہی ملک میں ر ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان کا موقف بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان مہاجرین کی نئی کھیپ رکھنے کا متحمل نہیں ہے۔ اس ضمن میں امریکہ نے بھی پاکستان کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ افغانستان میں امن کے قیام میں اپنا کردار جاری رکھے گا۔
یہ بیانات تین عوامل کی وضاحت کرتے ہیں۔ اول، یہ کہ پاکستان ہر صورت افغانستان میں استحکام کو یقینی بنانے کا عزم رکھتا ہے۔ اس فیصلے کے بعد تو اصولاً طالبان کو بھی بد امنی میں اضافے یا امن معاہدے کی خلاف ورز ی کی پاداش میں پاکستان کی طرف سے مزاحمت کا سامنا ہونا چاہیے۔ اسی طرح بھارت بھی متنبہ رہے اور افغان حکومت کے قائدین اور رہنماوں کے ساتھ ملکر کسی کبھی ایسی سازش کا حصہ نہ بنے جس سے افغان امن کو نقصان پہنچے۔ داعش اور تحریک طالبان پاکستان جیسی دوسری دہشت گر تنظیموں کے لیے بھی اس دو ٹوک فیصلے میں سخت جوابی کاروائی کا عندیہ موجود ہے۔
دوسری وضاحت پاکستان کی افغان پالیسی ہے۔ جس کا ایک رخ تو یہ ہے کہ پاکستان تواتر کے ساتھ یہ خواہش کرتارہا ہے کہ افغانستان میں امن کے خد و خال افغان عوام خود طے کریں اور افغانستان کے مستقبل کے سیاسی منظر نامہ کی مہ داری قبول کریں۔ اسی لیے پاکستان نے ہمیشہ طالبان اور چین، روس، ایران اور ترکی جیسے علاقائی ملکوں کے مابین تعلقات کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے طالبان اپنی بقا کے لیے صرف پاکستان ہی کی طرف نہیں دیکھ رہے۔ پچھلے بیس برس میں طالبان قیادت نے خطے میں اپنے قدم بہت مضبوط کر لیے ہیں۔ اسی لیے طالبان کے وفودکبھی ایران، کبھی چین، کبھی رو س کے دوروں پر گئے نظر آتے ہیں۔ پچھلے دنوں تو بھارت نے بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کی خواہش ظاہر کی تھی جسے طالبان نے فی الوقت ٹال دیا ہے۔ اس تناظر میں یہ کہنا کہ پاکستان ہی طالبان کے سیاہ سفید کا ذمہ دار ہے غلط ہو گا، لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اگر افغانستان سے پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچا تو پاکستان کسی بھی قسم کی مداخلت سے گریز نہیں کرے گا۔ اس معاملے میں پاکستان نے کبھی بھی اپنی سوچ کو مخفی نہیں رکھا۔
تیسری وضاحت کا تعلق امریکہ کے شکست خوردہ انخلا کے باوجود اس کا افغان امن کے لیے نا گزیر ہونا ہے۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ جس نے بیس سال افغانستان کوکرپشن، بددیانت لیڈر شپ، قبضہ گروپوں، بینک فراڈ، ا ور جنگجو سرداروں کے سوا کچھ نہیں دیا، کیسے افغان امن کو یقینی بنانے میں اہمیت رکھتا ہے؟ اس کا جواب امریکی طاقت میں پنہاں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان ایک دن بھی بین الاقوامی مالی امداد کے بغیر نہیں چل سکتا۔ جتنے بھی اقتصادی اور مالیاتی امداد کے ادارے ہیں ان پر امریکہ کا براہ راست تسلط ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ امریکہ اور اسکے مغربی حلیف ہی ان اداروں کی فنڈنگ کے سب سے بڑ ے ذرائع ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ اسی طرح مستقبل کی پا لیسی سازی میں سکیورٹی کونسل کی معاونت بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے۔ اقوام متحدہ ہو یامغربی ممالک، کوئی بھی امریکہ کی پشت پناہی کے بغیر افغانستان میں کسی بھی قسم کا کرادار اکیلے ادا کرنے کی پوز یشن میں نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے بغیر افغانستان کے استحکام کی گاڑی نہیں چل سکتی۔ کیا ستم ظریفی ہے کہ وہ ممالک جن کی وجہ سے افغانستان چالیس سال سے جنگ کی بھٹی میں جل رہا ہے وہی اس کے امن کو یقینی بنانے میں معاون ہونگے۔
اس تناظر میں امریکہ اورمختلف مغربی ممالک میں چھپنے والے کالمز اور مضامین میں جہاں لکھاریوں نے افغانستان میں اپنے ممالک کی بیس سالہ محنت اور سرمائے کی بربادی پر نوحہ کہا ہے وہیں انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ ان کے ممالک افغانستان کے حوالے سے اپنے مقاصدمیں واضح نہیں تھے۔ تمام مضامین اس شرمندگی کے احساس سے لبریز تھے کہ ان کی حکومتیں بیس سال ایسی جنگ میں ملوث رہے جہاں کرپٹ عناصر کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ جہاں جمہوریت کے سب سے اہم ستو ن، احتسا ب اور قانون کی عملداری کے استحصال کی اجازت دی گئی۔ جہاں الیکشن کے نام پر زمینی حقائق سے ماورا من پسند قائدین کو جتوایا جاتا رہا۔ جہاں بددیانت قیادت کو سربراہی سے نوازا گیا۔ اس سے زیادہ امریکہ کی سبکی کیا ہوگی کہ اس کی تربیت یافتہ افغان قومی فورس ایک ایک کر کے طالبان کے سامنے ڈھیر ہو رہی ہیں اور اسکے سپاہیوں کو رات کے اندھیرے میں افغانستان کے سب سے اہم اڈے کو چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ یہ صورت حال تقاضا کرتی ہے کہ افغان قیادت اپنے ملک کی باگ ڈور کا فیصلہ اپنے ہاتھ میں لے۔
طالبان کو چاہیے کہ وہ مستقبل کی حکومت میں تمام افغان دھڑوں کی شمولیت کو یقینی بنائیں۔ ایک قبائلی اور نسل پرست معاشرے میں استحکام اسی صورت ممکن ہے۔ اسی طرح مغربی ممالک اور علاقائی طاقتوں کو افغانستان کی مالیاتی اور مادی امداد کو گورننس اور انسانی حقوق کی ادائیگی کے ساتھ مشروط کرنا چاہیے۔ طالبان اگر چاہیں تواپنے ملک کے چالیس سالہ تباہی کے شکار نظام زندگی کو صحت مند اور توانا افغانستان کی طرف لے جاسکتے ہیں۔ اس وقت تمام دنیا ان کی طرف امید باندھے دیکھ رہی ہے۔ افغان قوم کا بھی حق ہے کہ ان کے قائدین اب انہیں مایوس نہ کریں۔