ایک ان کہی ادھوری داستان
کراچی کے ایک چینل سے ممتاز شاعر جناب نصیر ترابی کا پچھلے دنوں ایک انٹرویو ٹیلی کاسٹ ہوا جس میں انہوں نے پی ٹی وی سے شہرت پانے والے شاعر جناب افتخار عارف پر تنقید کادروازہ کھولا ہے اور یہ بتایا ہے کہ ان صاحب نے شہرت اور کامیابی کے لئے کیسی عجیب اور نادر مثالیں قائم کیں۔ اس انٹرویو کی تفصیل میں جانا ہم مناسب نہیں سمجھتے اس لئے کہ افتخار صاحب سے ان کے اچھے اور برے دنوں میں ہماری بھی نیاز مندی رہی ہے۔ ان سے ہمارے مراسم کی ابتدا ان دنوں ہوئی جب وہ پی ٹی وی کراچی اسٹیشن میں اسکرپٹ ایڈیٹر تھے اور ان کی شعری زندگی کی شروعات تھیں۔
حلقہ ارباب ذوق کی ایک محفل میں انہوں نے تنقید کے لئے اپنی ایک نئی نویلی غزل پیش کی تھی۔ اتفاق سے اسی محفل میں اس خاکسار نے اپنا ایک افسانہ سنایا تھا۔ افسانہ چل گیا، غزل نہ چل سکی۔ محفل کے اختتام پر افتخار صاحب نے ہمیں دعوت دی کہ ہم کسی روز ان کے دفتر آئیں۔ یوں ہمارے مراسم قائم ہوئے۔ ان کا دفتر عام طور پر ملاقاتیوں کے ہجوم سے بھرا رہتا تھا۔ وہ ہر ایک سے اس طرح ملتے تھے جیسے وہ ان ہی کے دام محبت کے اسیر ہیں۔ چونکہ یہ بات حقیقت سے بعید تھی اس لئے ہمیں اچھی نہیں لگتی تھی۔ بہت سوچنے پر ہماری رائے یہ بنی کہ افتخار عارف پبلک ریلشنگ کے آدمی ہیں۔ ہر ایک سے بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔ اس لئے سامنے ممدوح کی مدح کرتے ہیں۔
پی ٹی وی سے پرواز کر کے انہوں نے آغا حسن عابدی کے قائم کردہ اردو مرکز میں لینڈ کیا اور یوں لندن میں اردو زبان و ادب کا چراغ جلانے لگے۔ اچھی بات یہ بھی تھی کہ انہوں نے وہاں جا کر بھی ہمیں فراموش نہیں کیا اور خط و کتابت کا تعلق برقرار رکھا۔ جو بات ان کے سلسلے میں ہمارے دل میں کھٹک رہی تھی اور ان کی امانت تھی سو وہ امانت ہم نے ان تک پہنچا دی اور ایک خط میں لکھ مارا کہ جناب یہ جو آپ نے پبلک ریلیشنگ کی عبا پہن رکھی ہے اور ہر ایک کو خوش کرنے میں لگے رہتے ہیں یہ آپ کو زیب نہیں دیتا۔ اس کا جواب انہوں نے بہ ذریعہ خط یہ دیا کہ صاحبزادے آدمی کو سموچا قبول کرنا چاہیے۔ یعنی مطلب یہ تھا کہ جو جیسا ہو اسے اسی طرح قبول کرو۔ اس کے عیوب کی اصلاح کی فکر سے نچنت ہو جائو چنانچہ ہم نے ایسا ہی کیا اور انہیں ویسا ہی قبول کر لیا جیسے وہ تھے۔ اسی دوران ان کا پہلا شعری مجموعہ "مہر دونیم" آرٹ پیپر پر سج دھج کے ساتھ شائع ہوا۔
کتاب کے دونوں طرف کے فلیپ اور ابتدائی صفحات فیض احمد فیض، ڈاکٹر گوچی چند نارنگ، سلیم احمد اور جانے کن کن ادیبوں اور نقادوں کی توصیفی آرا سے جگمگا رہے تھے۔ لیکن عجیب بات یہ تھی کہ آرا دینے والوں نے کسی نہ کسی انداز میں چاہے ڈھکے چھپے ہی سہی مگر افتخار عارف کی شاعری کے بارے میں جو بات نہ کہنے والی تھی وہ کہہ دی تھی۔ مثلاً فیض صاحب نے توقع ظاہر کی تھی کہ افتخار عارف کے کلام کا فیصلہ ابھی نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ ابھی تو وہ شاعری کی ابتدائی منزل میں ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ بڑے ہو کر کیسی شاعری کرتے ہیں، اس کا انحصار ان کے ریاض پر ہے اگر وہ اپنا ریاض جاری نہیں رکھیں گے تو بڑی نالائقی کا ثبوت دیں گے اسی طرح سلیم احمد نے فلیپ پر یہ رائے دی کہ افتخار عارف میرے لئے ایک انتظار کا نام ہیں۔ وہی فیض صاحب والی بات۔ اسے افتخار عارف کی بدقسمتی یہی کہا جائے گا کہ ان کی شاعری پر جب بھی کسی نے کچھ لکھا اس نے اپنے دل کی اصلی بات کا اظہار کسی نہ کسی پیرائے میں کر دیا۔ غالباً ان کا آخری مجموعہ "کتاب دل و دنیا" پر ممتاز نقاد مبین مرزا نے دیباچہ لکھا۔ اس دیباچے میں انہوں نے بلا تکلف لکھ دیا کہ یہ جو کچھ ہم لکھ رہے ہیں، اسے لکھنے کا ارادہ نہیں تھا۔ یہ شاعر کی فرمائش اور اصرار تھا کہ لکھنے پر مجبو ہوئے۔
الفاظ یقینا یہ نہ رہے ہوں گے لیکن مفہوم یہی ہے کوئی چاہے تو دیباچہ پڑھ کر تصدیق کر سکتا ہے۔ آگے چل کر مبین صاحب نے افتخار عارف کی شاعری کا جو تجزیہ کیا اس کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ جب شاعر اپنی ذات کی محبت میں غرق ہو تو سچا عشق کرنا اس کے لئے کیسے ممکن ہے اور جب شاعر جذبہ عشق ہی سے محروم ہو تو سچی شاعری بھلا کیسے ہو سکتی ہے۔ اب کوئی پوچھے کہ ایسا دیباچہ کتاب کا حصہ کیسے بنا؟ یہ ایک راز ہے جس پر ابھی پردہ اٹھانا مناسب نہیں۔
جب افتخار عارف مقتدرہ قومی زبان کے صدر نشیں بنائے گئے تو اسلام آباد میں ہماری ان سے ملاقات ہوئی۔ ان ہی کی گاڑی پہ ہم ان کے ہم نشیں تھے۔ زیادہ گفتگو کا موضوع ان ہی کی ذات بابرکات کی بابت ہوتی ہے۔ بولتے بولتے رکے اور کہنے لگے:تم نے دیکھا ہو گا کہ اب ہم پبلک ریلیشنگ نہیں کرتے، وہ جو بات ہم نے خط میں انہیں لکھی تھی وہ ان کے دل میں پھانس کی طرح جا کر چبھ گئی تھی۔ کئی بار اس کا تذکرہ پہلے بھی کر چکے تھے۔ ہم سے رہا نہ گیا۔ ادب سے عرض کیا:"افتخار عارف صاحب! پبلک ریلیشنگ اب آپ اس لئے نہیں کرتے کہ اب آپ کو اس کی ضرورت نہیں رہی۔"یہ سن کر ان پہ سکتہ سا طاری ہو گیا۔ منہ سے کچھ نہ بولے۔ دل میں کچھ سوچا ہو تو اس کا حال خدا کو معلوم ہو گا۔
ان سطور کا پڑھنے والا سوچ سکتا ہے کہ اتنے پرانے اور طویل مراسم کے بعد یہ سب کچھ لکھنا کیا بے وفائی کے ذیل میں نہیں آتا؟ اس کی تفصیل کسی کو جاننا ہو تو نصیر ترابی کا انٹرویو دیکھ لے۔ ہمیں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا۔