تحریک عدم اعتماد اور پیپلزپارٹی
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری مسلسل اس بات پر زور دیتے دکھائی دیتے ہیں کہ پی ڈی ایم اگر ہماری تجویز مان لیتی تو پی ٹی آئی حکومت کا اب تک خاتمہ ہوچکاہوتا۔
اُن کے مطابق پہلے پنجاب میں وہ ایک تحریک عدم اعتماد لاتے اور پھرمرکز میں بھی یہی یہ طریقہ واردات استعمال کرتے۔ گویا چٹکی بجاتے ہی پی ٹی آئی کی حکومت جسے نادیدہ قوتوں کی حمایت ابھی تک حاصل ہے زمین بوس ہوجاتی۔
تحریک عدم اعتماد یانوکانفیڈنس جسے وہ بہت آسان سمجھ رہے ہیں ہمارے سیاسی سیٹ اپ میں آج تک کامیاب نہیں ہوپائی ہے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے محترمہ بے نظیر بھٹو صا حبہ کی پہلی حکومت جس کے خلاف اُس وقت کی اپوزیشن جسے گرچہ پس پردہ بہت سے خفیہ لوگوں کی حمایت بھی حاصل تھی مکمل تیاری کے ساتھ ایک تحریک عدم اعتماد لے آئی تھی جو ناکامی سے دوچار ہوئی اورجس کے بعد صدر پاکستان محمد اسحق خان کو آئین کی شق 58-2B کا سہارا لینا پڑا اور دو دھاری اس تلوار کے ذریعے انھوں نے محترمہ کی حکومت کا خاتمہ کیا۔ اُس کے بعد جب جب کبھی بھی تحریک اعتماد لانے کی کوشش کی گئی وہ ہمیشہ ناکامی سے دوچار ہوئی۔
ابھی سال دوسال پہلے ہی کی بات ہے جب سینیٹ میں واضح اکثریت رکھنے کے باوجود ہماری اپوزیشن اس کے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف اپنی تحریک اعتماد کامیاب نہیں کرواسکی۔ چودہ ارکان کی عددی برتری کے باوجود وہ تحریک کیوں ناکامی سے دوچار ہوئی اِس کا راز صرف اورصرف پیپلزپارٹی کی قیادت کو معلوم ہے۔ صادق سنجرانی کس کے نامزد کردہ چیئرمین ہیں یہ سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ پیپلزپارٹی پھر بھلا ایک ایسے چیئرمین کو کیوں برخاست کرنا چاہے گی جو اُسی کا نامزدکردہ ہو۔
مسلم لیگ نون اوراپوزیشن کے دوسری جماعتیں بلاوجہ پیپلزپارٹی کے جھانسے میں آکر اِس شکست و ہزیمت سے دوچار ہوئیں۔ اسی طرح پیپلزپارٹی نے پی ڈی ایم کی جماعتوں کے ساتھ ملکر یوسف رضا گیلانی کو تو سینیٹ کے الیکشن میں کامیاب کروالیا لیکن وہ انھیں چیئرمین منتخب نہیں کرواسکی۔ یہاں بھی سات ووٹ کیوں مسترد ہوئے اُس کا راز بھی پیپلزپارٹی ہی جانتی ہے۔ سینیٹ کی چیئرمین شپ حاصل کرنا شاید پیپلزپارٹی کاٹارگٹ ہی نہیں تھا۔ یوسف رضاگیلانی کو قائد حزب اختلاف بنانے کے لیے مطلوبہ ووٹ باپ پارٹی سے دلوائے گئے تھے۔
پیپلزپارٹی نے پی ڈی ایم سے جو فوائد حاصل کرنا تھے وہ حاصل کرلیے۔ اب اُسے اُن کے ساتھ ملکر سیاست کرنے کا کوئی خاص فائدہ نہیں ملنا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کی نظروں میں معتبر ہونے کے لیے پی ڈی ایم سے علیحدگی ایک سیاسی اور وقتی ضرورت تھی، جو بڑی ہوشیاری اوردانش مندی سے پوری کرلی گئی۔ اُس کے بعد ہی وہ کشمیر کے الیکشن میں دوسری بڑی پارٹی بنکر سامنے آسکی۔
پیپلز پارٹی جس راستے پرچل پڑی ہے وہ اُسے 2023 کے انتخابات میں کامیابی کا یقین دلارہے ہیں۔ اِسی لیے بلاول جنوبی پنجاب کوسرکرنے کے اپنے اصل منصوبے کی تکمیل کے لیے پوری قوت کے ساتھ جت گئے ہیں۔ سندھ میں توانھیں معلوم ہے کہ یہاں کی سیٹیں پیپلزپارٹی کے علاوہ کسی کو نہیں ملنی، لہٰذا تیس چالیس سیٹیں اگر پنجاب سے مل جائیں تواُن کے لیے یہ معرکہ سر کرجانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
وہ آج کل اپنی سیاسی مہم مسلم لیگ نون اورپی ٹی آئی دونوں کے خلاف چلارہے ہیں۔ صوبہ پنجاب میں تحریک عدم اعتماد کی تحریک لانے کا نعرہ بھی وہ دراصل مسلم لیگ نون کو زیر کرنے کی غرض سے لگا رہے ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ عثمان بزدار کے خلاف کوئی ایسی تحریک کامیاب نہیں ہونی جہاں مسلم لیگ (ق)اوربہت سے قوتیں ابھی تک اُن کی حمایت پرمضبوطی کے ساتھ کھڑی ہیں۔
پھر اُن کایہ کہنا کہ پی ڈی ایم اگر ہماری تجویز مان لیتی اورلانگ مارچ شروع کردیتی تو پنجاب پہنچنے سے پہلے ہی عثمان بزدار ڈھیر ہوجاتااورمارچ کے اسلام آباد پہنچنے سے پہلے ہی عمران خان بھی، یہ ایک ایسی خام خیالی ہے جس پر شاید ہی کسی کویقین ہو۔ اول تو لانگ مارچ سے آج تک کوئی حکومت تبدیل نہیں ہوپائی ہے۔ پی ٹی آئی اور علامہ طاہرالقادری ایسی کوششیں کرکے دیکھ چکے ہیں۔ 126 دنوں تک کے دھرنے نے بھی اپنے مقاصد حاصل نہیں کیے۔
حالانکہ انھیں پس پردہ قوتوں کی بڑی سرپرستی اور مدد حاصل تھی۔ مولانا فضل الرحمن صاحب نے بھی 2019 میں یہ کوشش کرکے دیکھ لی ہے۔ ہاں جس کام سے یہ حکومت منٹوں میں گر سکتی تھی یامشکلات سے دوچار ہوسکتی تھی وہ بلاول بھٹو نے کیا ہی نہیں یعنی اسمبلیوں سے اجتماعی استعفے۔ پیپلزپارٹی سندھ صوبے میں اقتدار سے محرومی کسی صورت برداشت نہیں کرسکتی۔ وہ صرف اُسی وقت ایسا کرسکتی ہے جب نئے الیکشن سر پر کھڑے ہوں ورنہ وہ کیونکر اپنے پیروں پرخود لاٹھی مارے گی۔
قبل ازوقت استعفیٰ دینے سے وہ ایک صوبے کی حکمرانی سے محروم ہوسکتی ہے۔ پیپلزپارٹی جب بھی سیاست کرتی ہے بڑی ہوشیاری اوردانشمندی سے کرتی ہے، اِسی لیے تواُسے ہماری قومی سیاست میں بڑا ماہر اورشاطر سمجھاجاتاہے۔