قوم بہت بھولی ہے
2014میں جب خان صاحب، مسلم لیگ (نواز) حکومت کے برسراقتدار آجانے کے ایک سال بعد ہی لانگ مارچ کرتے ہوئے اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے عین سامنے ڈی چوک پر دھرنا دیے بیٹھے تھے جہاں وہ ہر روز سرِشام لوگوں کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کرپشن اورمہنگائی کی نئی، نئی کہانیاں سنایاکرتے تھے جسے سن کر بے چاری یہ قوم سمجھ بیٹھی تھی کہ خان صاحب کی شکل میں اُسے کوئی ایسا مسیحا اور لیڈر مل گیا ہے جو اُسے ناکامی اورنامرادیوں کے دلدل سے نکال کرعظمت وبلندی کی آسمانی رفعتوں پر پہنچادے گا، مگر تین سال سے زائد کاعرصہ بیت چکاہے تحریک انصاف کو حکومت بنائے ہوئے ہماری یہ قوم زوال و پستی کے دلدل سے نکلنے کے بجائے مزید گہرائی میں جا پھنسی ہے۔
جو آٹاوہ اُن دنوں تیس پینتیس روپے کلو خریدلیاکرتی تھی وہ اب اُسے بمپر فصل ہونے کے بعد بھی 80روپے کلومل رہا ہے۔ چینی جو 53 روپے میں باآسانی ہر کریانہ اسٹور سے مل جاتی تھی اب 110 روپے میں بھی مشکل سے مل رہی ہے۔ خوردنی تیل 156روپے سے بڑھکر365 روپے تک جاپہنچا ہے۔ حکومت کی بے حسی اوربے اعتنائی کا یہ عالم ہے کہ ہر پندرہ دنوں بعد پیٹرول کی قیمت میں اضافہ کرتے ہوئے غریب عوام کا ذرا بھی خیال نہیں آتا۔ بلکہ اوگرا اگر ایک روپیہ بڑھانے کی سمری حکومت کو بھیجتا ہے تو وہ اُس میں اپنے لیے چار روپے کااضافی ٹیکس شامل کرکے اُسے پانچ روپے فی لیٹر بنادیتی ہے۔ وزرائے حضرات وزیراعظم سے سوال کرنے کے بجائے عوام کے سامنے اُن کے اس فیصلے کادفاع کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
تین سال ہوچکے ہم تحریک انصاف کی حکومت کو معیشت کی زبوں حالی کاملبہ سابقہ حکمرانوں پرڈالتے دیکھتے ہوئے۔ قوم یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اگرسابقہ حکمراں اتنے ہی غلط اورخراب تھے توچار پانچ سال تک مہنگائی کے جن کو کیسے قابو میں رکھاہواتھا۔ ڈالر کیسے 104تک روکے رکھاتھا۔ ساتھ ہی ساتھ ملک بھر میں ترقیاتی کاموں کاجال بھی بچھادیاتھا۔ قرضے تو ہماری اس حکومت نے بھی کچھ کم نہیں لے رکھے ہیں لیکن اُن قرضوں کو کہاں خرچ کیاجارہا ہے خود وزراء کو بھی نہیں معلوم۔ بلکہ ایساسوال پوچھنے والے صحافی پر قدغنیں لگادی جاتی ہیں۔
جو لیڈر اقتدار میں آجانے سے قبل میڈیا کی آزادی کے بڑے بھاشن دیاکرتاتھاوہ آج اُس پرقفل لگانے کی ترکیبیں سوچ رہے ہیں۔ یہ الیکٹرانک میڈیا ہی تھا جس کے بل بوتے پر تحریک انصاف اس مقام پر پہنچی ہے، ورنہ 2011 سے قبل ایک دونشستوں سے زیادہ اسے کسی الیکشن میں نہیں ملیں اوریہ الیکٹرانک میڈیا ہی ہے جو انھیں باربار ان کی کہی ہوئی باتیں یاد دلایاکرتا ہے۔ ڈالر ایک روپیہ مہنگاہوتاہے تو قوم پر قرضہ کتنابڑھ جاتاہے یہ حساب کتاب بتانے والے آج ڈالر 170 پر پہنچاکربھی قطعاً نادم نہیں ہیں۔
ملکی اورداخلی محاذکی ناکامیوں کو ہم اگر وقتی طورپر نظر اندازبھی کردیں توخارجہ محاذ پر بھی ہمیں کوئی غیر معمولی کامیابی دکھائی نہیں دیتی۔ چین جیسے عظیم وفادار دوست ملک سے تعلقات بھی اعتماد اوربھروسے کے فقدان کی وجہ سے سرد مہری کاشکار ہوچکے ہیں۔ یہ تحریک طالبان پاکستان کو ایمنسٹی دینے کی باتیں کرنے کی بھلااتنی جلدی کیا تھی کہ سارا معاملہ ہی الٹ کر رکھ دیا ہے۔ ساری دنیا افغان مسئلہ کے پرامن حل کے لیے پاکستان کی طرف دیکھ رہی تھیں وہ ہماری اس جلد بازی سے ہمیں شک و شبہات کی نظروں سے دیکھنے لگی ہے۔ پی ٹی آئی کی اس ناتجربہ کارحکومت کی ایک خرابی یہ ہے کہ وہ ہرکام بغیر کسی ہوم ورک اورتیاری کے کیاکرتی ہے جس کاخمیازہ ساری قوم کو بھگتناپڑتا ہے۔
اپوزیشن کو دیوار سے لگاکر اگلاالیکشن جیت جانے کی خواہش نے اُسے اتنا بے چین اورمضطرب کیا ہوا ہے کہ کارکردگی دکھانے کے بجائے صرف اورصرف اپوزیشن کو نیچادکھانے کی کوششوں اور سرگرمیوں میں لگی ہوئی ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈ کے حالیہ انتخابات نے اُسے اور بھی پریشان کردیا ہے۔
وہ سمجھ رہی تھی کہ مسلم لیگ نون کے مزاحمتی بیانیہ سے وہ کنٹونمنٹ علاقوں میں لمبی شکست سے دوچار ہوگی لیکن نتائج بتارہے ہیں کہ وہاں کے تعلیم یافتہ لوگ بھی موجودہ حکومت کی کارکردگی سے غیر مطمئن ہیں۔ لاہور اور راولپنڈی کے نتائج تو اور بھی حیران کن ہیں، یہی وجہ ہے کہ حکومت پریشان ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ حکمران اس کاعلاج اب بھی کارکردگی بہتر بنانے کے بجائے ایسی ترکیبوں میں تلاش کررہے ہیں کہ کسی طرح نون لیگ کومنظر نامہ سے ہٹایا جائے۔ انھیں اچھی طرح پتاہے کہ عوام مہنگائی کی وجہ سے اُن سے بددل ہوتے جارہے ہیں لیکن اس کے باوجود پیٹرول کے نرخوں میں یکدم پانچ روپے کااضافہ اُن کی غیر ذمے دارانہ سوچ کامظہر ہے۔ ایسالگتاہے انھیں عوام کی حالت زار کی کوئی پرواہ نہیں۔ وہ اب بھی اقتدار واختیارات کی ندی میں ویسی ہی ڈبکیاں مارے جارہے ہیں جیسے وہ ابتدائی مہینوں میں مار رہے تھے۔
ہماری قوم ویسے بہت بھولی ہے، وہ بہت جلد اپنے حکمرانوں کی غلط کاریوں کو بھول جاتی ہے۔ یہ ہماراالیکٹرانک میڈیاآج موجودنہ ہوتاتو قوم کوکبھی بھی یاد نہیں آتاکہ تحریک انصاف کے لیڈر نے کنٹینر پرچڑھ کراس سے ہمدردی کرتے ہوئے کیاکچھ فرمایا تھا۔ یہ الیکٹرانک میڈیا ہی ہے جو پرانی ویڈیو دکھا دکھا کر انھیں احساس دلانے کی کوششیں کرتا ہے۔ کرپشن کی وہ ساری رام کہانیاں فرضی، من گھڑت اورخود اختراعی کی زبردست مثال تھیں، جنھیں آج تین سال گذرجانے کے باوجود عدل وانصاف کی چھلنیوں سے گذارا نہیں جاسکا اورہنوز لفظی تکرار اورمیڈیاٹرائیل سے آگے نہ بڑھ سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ قوم اب یہ سوچنے اورکہنے پرمجبور ہوچکی ہے کہ وہ اگرچوراورڈاکو تھے توبھی وہ اِن فرشتوں اورنیک لوگوں سے اچھے اوربہتر تھے، ہم کم از کم اُن کے دور میں سکھ اور چین کی زندگی توگذاررہے تھے۔