’’ ڈو مور ‘‘ کا سلسلہ اب بھی جاری ہے
ہم سارے لوگ اِس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ ہم نے اب " ڈومور " کے حکم پر من و عن عمل داری سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے اور ملک و قوم کو ایک باعزت اور خود مختار زندگی سے ہمکنار کردیا ہے، لیکن ہمارا یہ خیال اور احساس ایک سراب اور خوش گمانی کی مانند 26جون کی شام اُسی وقت زمین بوس ہوگیا جب FATF نے ہماری جانب سے 27 میں سے 26 اہداف پر مکمل طور پر عمل کرنے کے باوجود ہمیں گرے لسٹ سے باہر نہیں نکالا اور بلیک لسٹ میں ڈالے جانے والی خوف کی تلوار ہمارے سروں سے نہیں ہٹائی بلکہ مزید چھ نئے نکات اُس میں شامل کر دیے۔
ڈو مور کی ایک نئی شکل ہم پر مسلط کردی گئی۔ ہم اپنے غیر ملکی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے کتنے ہی جتن کرتے رہیں لیکن وہ ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ وہ اگر کسی وقت ہماری فرمانبرداری اور جی حضوری سے مطمئن بھی ہوجائیں تو یہ اطمینان اور رضامندی بہت تھوڑے دنوں کے لیے ہوتی ہے۔
وہ پھر کوئی نئی شرط ہم پر لگادیتے ہیں۔ یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے۔ وطن عزیز کے معرض وجود میں آنے کے فوراً بعد ہی سے ہم ایک طاقت کی غلامی سے نکل کر دوسری طاقت کی غلامی میں جکڑ دیے گئے اور یہ غلامی پہلی غلامی سے زیادہ بدتر اور خطر ناک تھی۔ لیاقت علی خان نے اپنی قوم کو اِس شکنجے سے باہر نکالنے کی کوشش کی تو انھیں صفحہ ہستی ہی سے مٹا دیا گیا۔ بعد میں آنے والے جن دوسرے جمہوری حکمرانوں نے بھی کوئی ایسی ہی جرأت رندانہ دکھانے کی ہمت کی وہ بھی یا تو معزول کردیے گئے یا موت کی نیند سلا دیے گئے۔
بھٹو صاحب نے قوم کو جوہری توانائی سے ہمکنار کرنے کا ارادہ ظاہر کیا اور اُس پر فوری عملدرآمد بھی شروع کر دیا تو انھیں عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔ میاں نوازشریف نے بھٹو صاحب کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے ملک و قوم کے لیے ترقی و خوشحالی اور خود مختاری کے منصوبے بنائے تو انھیں بھی کام کرنے سے روک دیا گیا۔ اب باری ہمارے اِس نئے وزیراعظم کی ہے۔ وہ جب تک اُن کے ایجنڈے پر خاموشی سے عمل کرتے رہیں گے اُن کی حکومت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا، وہ جس دن اپنے پیش روؤں کی راہ پر چل پڑیں گے اُس دن، اُن کا بھی انتظام کردیا جائے گا۔
ہم جغرافیائی اور مذہبی طور پر ایک منفرد اور حساس مقام رکھتے ہیں۔ دنیا کی ایک تیسری عالمی قوت جو عنقریب سپر طاقت کا درجہ حاصل کرنے والی ہے ہماری دوست اور ہمسائی بھی ہے اور اُس کی سرحدیں ہماری سرحدوں سے جڑی ہوئی ہیں۔ دوسری جانب ہماری شناخت ایک اسلامی ملک کی بھی ہے۔
ایک ایسے اسلامی ملک کی جو اُن کے خیال میں کسی وقت بھی اُن کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ بھارت نے ایٹم بم بنایا تو کسی کی بھی جبین ناز پر کوئی شکن نہ پڑی مگر جب ہم نے یہ صلاحیت حاصل کرلی تو دنیا بھر کی اسلام دشمن قوتیں ہمارے خلاف متحد وصف آراء ہوگئیں۔ ہمارے بم کو اسلامی بم کا نام تفویض کیا گیا۔ جب کہ بھارت کے بم کو ہندو بم نہیں کہا گیا۔ ہمارے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے کے لیے بہت کوششیں کی گئیں اور ہر طرح کے حربے آزمائے گئے۔ کبھی CTBTپر دستخط کے بہانے تو کبھی خاموشی ڈپلومیسی کے ذریعے۔
ایک دور ایسا بھی آیا جب اِن عالمی طاقتوں کو ہماری مدد کی بہت ضرورت بھی پڑگئی۔ کولڈ وار کے زمانے میں روس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے ہمیں استعمال کیا گیا۔ افغانستان میں جب روس نے اپنی فوجیں اتار دیں تو امریکا نے اُس کے خلاف ہمیں تیار اور کمر بستہ کیا۔ ہمارے ایک حکمران جنرل ضیاء الحق کے ذریعے اُس نے وہ جنگ ہزاروں میل دور بیٹھ کر بھی جیت لی۔ ہم اور ہمارے حکمراں اُسے ایک اسلامی جہاد سمجھ کر اپنا سب کچھ قربان کر بیٹھے۔ تیس لاکھ افغان پناہ گزیں کو اپنے یہاں نہ صرف مہمان بناکر میزبانی کی بلکہ ایک تعداد کو اپنا قومی شناختی کارڈ دیکر پاکستانی بنا لیا۔ یہ سب کچھ ہم جذبہ اسلامی اخوت اور بھائی چارگی سمجھ کرتے رہے۔
نتیجتاً ہمیں جو خمیازہ بھگتنا پڑا وہ آج بھی کسی نہ کسی شکل میں ہم اٹھاتے رہتے ہیں۔ سویت یونین کو شکست فاش دینے کے بعد ہمیں بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا اور پھر 2001میں نائن الیون کے واقعہ کے بعد ہم سے" دوست یا دشمن" ہونے کے ثبوت و شواہد مانگے جانے لگے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہمارے یہاں ایک بار پھر ایک غیر جمہوری مطلق العنان حکمراں کا راج تھا۔
چٹکی بجاتے ہی سارے مطالبے مان لیے گئے۔ امریکا کو ڈو مور کہنے کی حاجت اور ضرورت ہی باقی نہ رہے۔ اسٹرٹیجک پارٹنر بن کر ہم عالمی قوتوں کے دوست اور ساتھی کہلانے لگے۔ اپنی بندرگاہیں اور ایئر پورٹ بھی اُن کے حوالے کر دیے۔ نیٹو افواج کے لیے کراچی سے لے کر کابل تک زمینی راستہ بھی کھول دیا گیا۔ اِن ساری مہربانیوں اور قربانیوں کے صلہ میں ہمیں کیا ملا۔ اپنے پیاروں کی لاشیں اور بے تحاشہ مالی نقصان۔
تاریخ شاہد ہے کہ ہمیں کبھی دہشت گرد ممالک کی فہرست میں ڈالے جانے کی دھمکیاں دی جاتی رہیں توکبھی ہماری ایکسپورٹس پر مختلف قدغنیں لگانے کی کوششیں کی جاتی رہیں۔ کبھی فشری پر صفائی نہ ہونے کا بہانہ بناکر سی فوڈز کی برآمد کو روکا گیا تو کبھی بچوں سے مشقت کا بل لاکر ہماری ایکسپورٹ پر پابندیاں لگائی گئیں۔ جب سارے حربے آزما لیے گئے تو اب FATF بناکر ہمیں قابو میں رکھنے کی شرطیں عائد کی جانے لگیں۔ منی لانڈرنگ کے ایشو کو اتنا بڑا ایشو بنا لیا گیا کہ ہم زندگی بھر بلیک لسٹ میں ڈالے جانے کے خوف سے اپنے عوام کا جینا دوبھر کرتے رہیں۔
کرپشن اور منی لانڈرنگ ساری دنیا میں ہوتی ہے۔ اِسی طرح دہشت گرد بھی دنیا کے ہر ملک میں موجود ہیں۔ مگر اِس ایشو کو بہانہ بناکے صرف اُن ملکوں کو نشانہ بنانا جن سے کچھ عالمی طاقتوں کو خطرہ لاحق ہے انصاف اور عدل کے اُصولوں کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ دہشت گردوں کی مالی فنڈنگ تو صرف ایک بہانہ ہے اصل معاملہ کچھ ملکوں کو اپنے طابع اور غلام بنائے رکھنا ہے۔ دنیا کے جن ممالک میں آج بھی دہشت گردی ہورہی ہے وہاں اسلحہ کہاں سے آتا ہے۔ عراق میں کئی سالوں تک کس نے دھماکے کروائے۔ یمن میں حوثی باغیوں کو کون ہتھیار فراہم کررہا ہے۔
ہم پاکستانیوں کو اب سوچنا ہوگا کہ ہم کب تک ان دیکھے اندیشوں کو اپنے سروں پر مسلط کرتے رہیں گے۔ جو ممالک FATF کی جانب سے بلیک لسٹ کر دیے گئے ہیں کیا وہ صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ ایران کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
عالمی طاقتوں نے کئی سالوں سے اُس پر مکمل پابندیاں لگائی ہوئی ہیں، وہ ایک ایٹمی طاقت بھی نہیں ہے، لیکن کیا اس قوم کے روزمرہ کے معاملات زندگی موقوف ہو کر رہ گئے ہیں، ہم جب تک ڈرتے رہیں گے یہ تلوار ہم پر مسلط ہی رہے گی، جس دن ہم نے ڈرنا چھوڑ دیا یہ ہماری منتیں کرتے نظر آئیں گے۔ یاد رکھیں جینا ہے تو جرأت و بہادری کے ساتھ جیو۔ اِسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک روزہ زندگی بہتر ہے۔ ہم آج ایک ایٹمی طاقت ہیں، کم ازکم یہی احساس ہمیں دوسروں کی ایسی غلامی اور تابعداری سے نجات دلانے میں اہم رول ادا کرسکتا ہے۔