آؤ حکومت کے فضائل بیان کریں
ایک اہم ادارے کے چیف کا 2019 میں فرمان افروز تھاکہ الیکٹرانک میڈیا صرف چھ ماہ کے لیے حالات کی اگر مثبت رپورٹنگ کرے توسب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ یہ وہ وقت تھا جب ہماری اس حکومت کو برسراقتدار آئے ہوئے صرف ایک سال کاعرصہ گذرا تھا۔
لوگوں نے چیف کے اس مشورے پر عمل کرتے ہوئے اپنا ہاتھ کچھ ہلکا کردیا۔ وزیراعظم نے 2019 کے شروع میں فرمایا تھا کہ مشکلات کادور گذر چکا اب لوگ بہتری محسوس کرینگے۔ پھر 2020 کا سال آیاتو پھر فرمایا کہ نیاسال خوشحالی کاسال ہوگا، مگر یہ سال بھی تنزلی کاسال ہی ثابت ہوا۔ پھر2021 آگیاجس کی ابتدا میں فرمایاگیا یہ سال ملک وقوم کی ترقی کا سال ہے۔
اس نئے سال کے بھی دس ماہ گذرجانے کو ہیں قوم ریلیف محسوس کرنے کے بجائے مزید مشکلات میں پھنستی چلی گئی۔ ہم نے بہت چاہا کہ کسی ایک کالم میں حکومت کی کارکردگی کو مثبت کرکے پیش کریں مگر نجانے کیوں ذہن و قلم ساتھ ہی نہیں دے رہا۔ حکومت کے نامہ اعمال میں ایک کارنامہ بھی ایسا نہیں ہے جسے اعلیٰ کارکردگی کے زمرے میں گردانا جاسکے۔
سیاسی و سماجی معاملات ہوں یا خارجی اور بیرونی معاملات کسی ایک محاذ پر حکومت ابھی تک سرخرونہیں ہوپائی ہے۔ دوسال قبل سلامتی کونسل کے ایک اجلاس سے خطاب کرکے ہمارے وزیراعظم نے جو نام وشہرت کمائی تھی اُس کاسحر اورجادو بھی رفتہ رفتہ زائل ہوتاچلاگیا۔
داخلی محاذ پر حکومت صرف زبانی جمع خرچ پردن گذارے جارہی ہے اورعوام کو ریلیف فراہم کرنے کے بجائے تسلیاں اور دلاسے ہی دے رہی ہے۔ ہر نیا مہینہ لوگوں پر مہنگائی اوراشیاء صرف کی چیزوں کے دام قوت خرید سے باہر کرجانے کا سبب بنتا ہے اور حکومت ہے کہ اس بڑھتی مہنگائی کو قابو کرنے کے بجائے اُسے سابقہ حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کا نتیجہ قرار دیکر خود کو اس سے بری الذمہ ثابت کرنے میں مشغول رہتی ہے۔ نہ متعین مقاصد ہیں اورنہ طے شدہ حکمت عملی۔ سب کچھ وقت اورحالات کے دھارے کے سپرد کردیاگیاہے۔
وزراء اورمشیروں کایہ حال ہے کہ وہ صبح سے شام تک اپناکام کرنے کے بجائے صرف اپوزیشن کولتاڑنے اورزبان وبیاں کے گھوڑے سرپٹ دوڑانے میں مشغول رہتے ہیں۔ کسی ایک وزیر کی کارکردگی بھی اس قابل نہیں ہے جسے نمایاں طور پر پیش کیاجاسکے۔ لوگوں کی توقعات کاشیش محل حقائق کی سنگباری سے تقریباً چکنا چور ہو چکاہے۔ قوم نے خان صاحب کی دلنشیں اور دلفریب تقاریر سے جوتوقعات وابستہ کرلی تھیں وہ ساری کی ساری سراب ثابت ہوتی جارہی ہیں۔
لوگوں کی توقعات کے بلند تر اورکارکردگی کے پست گراف نے نہ صرف ساری امیدوں پر پانی پھیر دیاہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ پارٹی کے ارسطو اورآئن اسٹائن نظرآنے والے تمام وزراء اورزعماء کو بے نقاب بھی کردیا ہے۔ 12کروڑ نفوس پرمشتمل آبادی والے ملک کے سب سے بڑے صوبے کی خدمت کے لیے سارے پاکستان میں کوئی دوسرا شخص نہیں ملااور بڑی تلاش اورچھان بین کے بعد جو ملا اُسے وسیم اکرم پلس کہہ کروسیم اکرم کی جوپذیرائی اورعزت افزائی کی گئی ہے اس پرخود وسیم اکرم بھی انگشت بدنداں ہیں۔
حکومت کی نااہلی کوتاہیوں اورفروگزاشتوں کی داستان اتنی طویل ہوتی جارہی ہے کہ یہ صرف ایک کالم میں سموئی نہیں جاسکتی۔ ہر نئی صبح ایک نیا بحران لیے طلوع ہوتی ہے۔ کبھی چینی کابحران تو کبھی آٹے کا۔ کبھی ادویات کاتوکبھی تیل اورگیس کا۔ یہ سارے بحران سابقہ حکومتوں کے پیداکردہ ہرگز نہیں تھے۔ انھیں حالیہ حکمرانوں کی نااہلی اورناقص حکمت عملی نے خود پیداکیے ہیں۔
ڈالر کی قیمت کو بڑھاتے چلے جانا اورنتیجتاً مہنگائی کے طوفان کو دعوت دینا کسی غیر سرکاری مافیاکاکام نہیں ہے بلکہ خود حکومت کاکرتا دھرتا ہے۔ ایل این جی کو تاخیر سے مہنگا درآمد کرناکس کی غلطی اور نااہلی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے پاس جہاں دیدہ اورسمجھ دار قابل ارکان کا فقدان موجود ہے۔ غلطی پر غلطی۔ تین سالوں میں چار وزیرخزانہ تبدیل کیے جاسکے ہیں اورحالات ہیں کہ پہلے سے بھی بدتر ہوتے جارہے ہیں۔
خوش قسمتی سے خان صاحب کوسابقہ دونوں حکومتوں کے مقابلے بہت اچھے اورسازگار حالات ملے تھے۔ تمام ریاستی اداروں کی حمایت کے علاوہ ملکی حالات بھی اتنے سازگار ملے کہ جوشاید ہی کسی اور حکومت کوملے ہوں۔
2018 میں جب خان صاحب نے حکومت سنبھالی، تونہ ملک میں دہشت گردی تھی اورنہ خودکش حملے اوربم دھماکے۔ نہ کراچی شہر میں خوف اوردہشت کاراج تھا اورنہ کوئی امن وامان کامسئلہ۔ نہ توانائی اوربجلی کابحران تھا اورنہ مہنگائی اورگرانی کاایساطوفان تھا۔ اس کے باوجود بھی اگر وہ کوئی کارکردگی نہیں دکھاسکے تواسے ہم کسی اورکے پلڑے میں نہیں ڈال سکتے ہیں۔
ایسے دور میں جب حالات مکمل طور پر اُن کی خواہشوں کے قالب میں ڈھلتے رہے ہوں اورکہیں سے کوئی روک ٹوک بھی نہ ہوں کارکردگی نہ دکھانابڑے دکھ اورافسوس کی بات ہے۔ اس سے اچھااورسنہری موقعہ تو شاید ہی کسی کوملاہو۔ قوم کوجو خواب دھرنے والے دنوں میں دکھائے گئے تھے وہ ایک ایک کرکے سارے تشنہ تعبیر ہوچکے ہیں، جو جو وعدے اوردعوے کیے گئے تھے ان سب کی متضاد عملی شکل ہم نے ان تین سالوں میں دیکھ لی ہے۔
ترقی وخوشحالی کاجوسورج سابقہ دورمیں طلوع ہوچکاتھا، اُس سورج کو اب گہن لگ چکاہے۔ قوم کی حسرتوں اور امیدوں پرپانی پھیراجاچکاہے۔ بہتری اور ترقی کی راہیں مسدود ہوچکی ہیں۔ کتابی دانش اورعملی دانش میں شاید یہ فرق ہوتاہے۔ کنٹینرپر چڑھ کرجو باتیں کی گئی تھیں وہ اب بڑ معلوم ہونے لگی ہیں۔