Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Sargodha Ujar Raha Hai

Sargodha Ujar Raha Hai

سرگودھا اجڑ رہا ہے

اسد عمر صاحب کا کہنا ہے: سندھ کے چوہے 20 ارب کی گندم کھا گئے۔ جواب میں سعید غنی صاحب نے فرمایا: وفاق میں ایک چوہا 40 ارب روپے کا کرونا فنڈ کھا گیا۔ نونہالان انقلاب نے اسد عمر کے مطلع کے سہرے لکھے اور جیالوں نے سعید غنی کے مقطع پر واہ واہ کی۔ مشاعرے کے اختتام پر ہر دو اطراف کے شعرائے کرام مزے سے گھروں لوٹ گئے اور تماش بین ابھی تک اپنے اپنے شاعر کے کلام پر داد و تحسین بلند کر رہے ہیں۔ رہ گئے قومی خزانے کے 60 ارب تو ان کی یہاں کس کو پرواہ ہے۔ نہ وہ چوہے کبھی پکڑے جائیں گے جو سندھ میں 20 ارب کی گندم کھا گئے نہ وہ چوہا کبھی قانون کی گرفت میں آئے گا، جو کرونا کا 40 ارب روپے کا فنڈ کھا گیا۔

دو روز سے سرگودھا میں ہوں۔ یہ پاکستان کا بہترین زرعی علاقہ ہے۔ اس بہترین زرعی علاقے کے کسان اس وقت یوریا کھاد کے حصول کے لیے دھکے کھا رہے ہیں لیکن یوریا کھاد نہیں مل رہی۔ مل رہی ہے تو بلیک میں۔ دگنی قیمت پر۔ بیچنے والا رسید تو مقررہ قیمت کے مطابق دیتا ہے لیکن رقم دگنی لیتا ہے۔ دگنی قیمت پر کھاد کی فراہمی کے لیے بھی سفارش کی ضرورت ہے۔ مقامی سطح پر، جنہوں نے نیا پاکستان بنانا تھا اب وہ سفارشیں فرما فرما کر بلیک میں یوریا کھاد کی دستیابی ممکن فرما کر علاقے میں چودھری بنے پھرتے ہیں۔ اس سخاوت اور عطا پر یقینا ان کا یہ مطالبہ بھی ہو گا کہ کسان ان کے شکر گزار ہوں کہ ان کے با برکت عہد میں بذریعہ سفارش یوریا کھاد مل تو رہی ہے۔ اگر کھاد کی فراہمی پر حکومت ساتھ جرمانہ بھی عائد کر دیتی تو عزیزہم وطنوں نے کیا کر لینا تھا۔

کہنے کو ہم ایک زرعی ملک ہیں لیکن زراعت کو ہم نے آج تک ایک انڈسٹری کے طور پر نہیں دیکھا کہ اس سے جڑے امکانات و خدشات کو سائنسی بنیادوں پر دیکھتے۔ زرعی یونیورسٹیاں بھی اب زراعت پر ریسرچ کی بجائے کمپیوٹر سائنس اور دیگر مضامین میں ڈگریاں بانٹ رہے ہیں۔ اب کس کے پاس وقت ہے کہ تخمینہ لگائے کہ صرف یوریا کھاد کی بروقت فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے زرعی سیکٹر کو نقصان کا ممکنہ حجم کیا ہو گا۔ ایک محتاط ترین اندازے کے مطابق اس وجہ سے زراعت کو ہونے والا نقصان ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہو گا۔ یاد رہے کہ صرف تین ارب ڈالر کے قرض کے حصول کے لیے آئی ایم ایف کی جنبش ابرو کے تحت ہمیں قانون سازی کرنا پڑ رہی ہے۔ ہمارے کمالات دیکھیے کہ تین ارب کے لیے دست سوال لہرانے والے ایک ارب ڈالر مستی میں ہی برباد کر دیے۔

اس سے پہلے ہم چینی اور گندم کی خریداری میں 10 ارب ڈالر خرچ کر چکے ہیں۔ یعنی اگر ہم تھوڑی سی منصوبہ بندی بہتر کر لیتے تو یہ 11 ارب ڈالر بچا ئے جا سکتے تھے۔ یہ گیارہ ارب ڈالر اگر پاس ہوتے تو نہ ہم اس وقت آئی ایم ایف کے دبائو پر قانون سازی کر رہے ہوتے، نہ ہمارا روپیہ یوں بے توقیر ہوا ہوتا، پٹرول کی قیمت آج بھی اسی سے پچاسی روپے فی لٹر ہوتی اور سٹیٹ بنک کی خود مختاری بھی نہ کرنی پڑتی۔ ذرا تصور کیجیے کہ تھوڑی سی اہلیت اور تھوڑی سی پلاننگ ہمیں کتنی اذیت اور ذلت سے بچا سکتی تھی۔

سرگودھا کے اطراف میں زرعی زمینوں پر کینو کے باغات کا ایک طویل سلسلہ ہوتا تھا۔ بھلوال سے سرگودھا تک سڑک کے دونوں اطراف کینو اور امرود کے باغات ہوا کرتے تھے۔ اب یہاں ہائوسنگ سوسائٹیاں ہیں اور کنکریٹ ہیں۔ سڑک کے دونوں اطراف وحشت ناچ رہی ہے۔ موٹروے سے اترتے ہیں تو دکھ اور تکلیف کی ایک لہر وجود میں سرایت کر جاتی ہے۔

سرگودھا سے لاہور کی طرف بھی یہی عالم ہوتا تھا۔ شاندار لہلہاتے کھیت اور باغات۔ تاحد نظر نظر سبزہ ہی سبزہ۔ روح تک شانت ہو جاتی تھی۔ اب یہ عالم ہے کہ ڈرائیو کرتے جائیے اور کرتے چلے جائیے، دونوں اطراف ہائوسنگ سوسائٹیوں کے آزار کے سوا کچھ نہیں۔ شہر ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ بھانت بھانت کی ہائوسنگ سوسائٹیاں بن چکی ہیں۔ فیصل آباد کی طرف نکل جائیں تو کڑانہ پہاڑی تک ہائوسنگ سوسائٹیاں پھیل چکی ہیں۔ سلانوالی کی طرف جائیں تو چند سال پہلے جہاں کھیتوں کا سکون اور سکوت ہوتا تھا وہاں نئے ٹائون اور سوسائٹیاں بن چکی ہیں۔ خوشاب کی طرف نکلیں تو دھریمہ تک گویا سرگودھا ختم نہیں ہوتا۔ ٹائون ہی ٹائون اور سوسائٹیاں ہی سوسائٹیاں۔

وقت کے ساتھ ظاہر ہے کہ آبادی بڑھتی ہے اور بڑھتی آبادی کو رہائش درکار ہے۔ ٹائون اور سوسائٹیں مگر کسی پلاننگ سے بنیں تو اس چیلنج سے آسانی سے نبٹا جا سکتا ہے۔ یہاں تو حالت یہ ہے کہ ملک بھر میں چند سیٹلائٹ ٹائون تھے جو حکومت نے آباد کیے۔ اس کے بعد سرکاری سطح پر شاید ہی کہیں کوئی ہائوسنگ کالونی بنائی گئی ہو۔ ملک میں اور تو کوئی ڈھنگ کی انڈسٹری ہے نہیں جہاں لوگ سرمایہ کاری کریں۔ آسان ترین سرمایہ کاری اب یہی ہے کہ کہیں پلاٹ لے کر رکھ دیں چند سالوں میں دگنی قیمت کا ہو جائے گا۔ سرمایہ کاروں نے کارٹل بنا کر مصنوعی مہنگائی کر رکھی ہے اور پلاٹوں کی قیمتیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں۔

زراعت کو ایک مسکین اور نا پسندیدہ شعبہ سمجھا گیا ہے۔ کسی نے اس شعبے کو سنجیدہ لیا ہی نہیں۔ اچھے خاصے زمینداروں کے بچے بابو بننے کے لیے شہروں میں دھکے کھاتے پھر رہے ہوتے ہیں۔ یہ ماحول ہی نہیں پیدا ہو سکا کہ زراعت اور زمین سے جڑے معاشی امکانات کو سائنسی خطوط پر دیکھا جائے اور بڑھایا جائے۔ لوگوں کے پاس زمینیں ہیں لیکن وہ اس زمین کو " جھونگا" یعنی اضافی قسم کا معمولی سا بونس سمجھ کر تلاش روزگار کے لیے معمولی معمولی نوکریوں کے پیچھے دھکے کھا رہے ہوتے ہیں۔ وہ آج تک یہ سمجھ ہی سکے کہ زراعت بذات خود ایک پوری انڈسٹری ہے۔ بس توجہ کی ضرورت ہے۔

چنانچہ جس کی زمین کسی سڑک کے آس پاس ہے یاجس کی زمین کے آس پاس کوئی سڑک آ جاتی ہے وہ باغات کاٹ پھینکتا ہے اور پلاننگ کر کے ایک مہینے میں اتنے پیسے کما لیتا ہے جتنے وہ اس زمین سے شاید ساری عمر نہ کما سکتا ہو۔ اس میں قصور زمین کا نہیں، ہماری اس سوچ کا ہے جو زراعت کو ایک معاشی ایکٹر سمجھ ہی نہیں پا رہی۔ اس کے نزدیک زمین محض پارٹ ٹائم اور اضافی آمدن کا نام ہے۔ احساس کمتری کا یہ عالم ہے کہ " زمیندارا" کرنا آج بھی " فیشن" کے تقاضوں کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔

جب جب سرگودھا آتا ہوں حیرت اور دکھ لے کر لوٹتا ہوں۔ دور دور تک پھیلے جن باغات میں ہم بچپن میں شکار کیا کرتے تھے، وہ باغات کٹ چکے اور وہاں بھانت بھانت کے ٹائون اور کالونیاں بنتی جا رہی ہیں۔ تھوڑا سی پلاننگ کر کے اگر دیہاتوں میں تعلیم صحت کی اچھی سہولیات، معاشی امکانات اور اچھا انٹر نیٹ پہنچا دیا جائے تو شہروں کو نقل مکانی روکی جا سکتی ہے۔

بصورت دیگر یہ بات طے ہے کہ چند سالوں بعد ہمارے پاس کھانے کو گندم نہیں ہو گی۔ پھر مرلوں کا لنچ اور کنالوں کا ڈنر کیجیے گا۔

Check Also

Ghalati Kis Ki?

By Hamza Bhatti