Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Asif Mehmood
  3. Mini Budget Ke Baad Kya Hoga?

Mini Budget Ke Baad Kya Hoga?

منی بجٹ کے بعدکیا ہو گا؟

قومی اسمبلی میں حزب اختلاف نے جس طرح وزیر خزانہ کا گھیراؤ کیا اور فقرے اُچھالے یہ سستی جذباتیت، نیم خواندہ معاشرے میں ایک کامیاب سیاسی واردات تو بن سکتی ہے لیکن یہ جذباتیت گلی کوچوں میں گوارا کی جا سکتی ہے، پارلیمان میں نہیں۔ پارلیمان میں اگر حزب اختلاف نام کی کسی چیز کا وجود ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ معیشت کے باب میں بہت سے سنجیدہ سوالات اس کی توجہ چاہتے ہیں۔ ان سوالات کو سستی جذباتیت پر بہر حال فوقیت حاصل ہے۔

عمران خان کی حکومت نے معیشت کے ساتھ جوکیا ہے وہ اب کسی مزید تعارف کا محتاج نہیں۔ یہ کارگزاری تو لوگوں پر ڈراؤنے خواب کی طرح بیت رہی ہے۔ سوال مگر یہ بھی ہے کہ اس پر معترض حزب اختلاف اپنے اپنے دور اقتدار میں ملک کی معیشت چلانے کے لیے وہ کون سے معاشی امکانات چھوڑ کر گئی تھی جنہیں عمران خان نے تباہ کر دیا ہے۔ حزب اختلاف بتائے کہ صرف پیپلز پارٹی اورن لیگ کے دور میں معیشت کے وہ کون سے سرچشمے ہوا کرتے تھے جنہیں عمران خان نے آ کر خشک اور برباد کر دیا ہے؟

سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ ہر دور میں ملک چلانے کا ایک ہی فارمولا ہوا کرتا تھا۔ ہم کشکول لے کر دنیا میں نکلتے تھے اور عالمی برادری کو آواز دیتے تھے: دے جا سخیا راہ خدا تیرا اللہ بوٹا لائے گا۔ چنانچہ قرض اور امداد مل جاتی اور ملک چلتا رہتا۔ بیچ میں جہاد افغانستان اور دہشت گردی کے خلاف جنگ جیسے مواقع پر ڈالر ذرا فیاضی سے آنے لگے اور ہمیں لگا کہ ملکی معیشت بہتر ہو گئی ہے۔ قرض اور امداد کھا کھا کر ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ قرض واپس کیسے ہو گا یا کبھی قرض نہ ملا تو ہم کیا کریں گے۔ عمران خان پر تنقید کر کے اگر معیشت بہتر ہو سکتی تو ملکی قرضہ تو صرف میرے کالموں سے اُتر چکا ہوتا۔ لیکن معیشت اپنے پیداواری امکانات سے بہتر ہوتی ہے، چاند ماری کے لیے کسی ایک کو چن لینے سے بہتر نہیں ہوتی۔ یہ صرف عمران حکومت کا نہیں ہمارا اجتماعی نامہ اعمال ہے جس نے ہمیں یہ دن دکھائے ہیں۔

آج تک جتنی بھی حکومتیں آئیں کیا ان میں سے کسی نے سوچا کہ ملک چلانے کے لیے مقامی سطح پر ایسے امکانات پیدا کر دیے جائیں کہ چار چیزیں تو ایسی ہوں جنہیں ہم دنیا میں فروخت کر کے زر مبادلہ حاصل کرسکیں۔ آج حزب اختلاف عمران خان پر گرج برس رہی ہے کہ وہ قرض لے رہا ہے اور ٹیکس بڑھا رہا ہے۔ یہ اعتراض اپنی جگہ درست ہے لیکن کیا حزب اختلاف بتائے گی کہ عمران قرض بھی نہ لے اور ٹیکس بھی نہ بڑھائے تو ملک کیسے چلائے۔ حزب اختلاف ورثے میں وہ کون سی انڈسٹری چھوڑ گئی ہے جس کی پیداوار سے ملک چلانے کے اسباب مہیا کیے جا سکتے ہیں۔

یہ تقابل سرے سے کوئی تقابل ہی نہیں کہ ہمارے دور میں قرض کا حجم اتنا تھا جو عمران دور میں بڑھ کر اتنا ہو گیا۔ سب جانتے ہیں کہ سودی قرض وہ لعنت ہے جس کا حجم وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہے۔ آنے والا دور آج سے بھی مشکل ہو گا۔ اس سے نبٹنے کے لیے حزب اختلاف کے پاس کیا فارمولا ہے؟ کوئی ہے تو ذرا سامنے تو لایا جائے؟

کسی حکومت نے اس ملک میں کبھی ایسا کوئی منصوبہ متعارف نہیں کرایا جس سے پاکستان کیلئے مستقل ذریعہ آمدن پیدا ہو سکے۔ پیپلز پارٹی تو چار عشروں سے روٹی کپڑے مکان کے دھوکے سے لوگوں کو لوگوں کو نہیں نکال سکی اور ن لیگ نے میٹرو جیسے جو منصوبے شروع کیے قرض لے کر کیے اور ان کی افادیت اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن وہ پیداواری منصوبے نہیں۔ یہ سبسڈی پر چلنے والے منصوبے ہیں۔

بھلے ان سے لوگوں کو سہولت ملی اور یہ اچھا ہوا لیکن ملک چلانے کیلئے بھی تو کوئی منصوبہ ہوتا۔ قرض لیکر چولہے میں ڈالنے کی بجائے دو چار ایسی انڈسٹریز کھڑی کر دی جاتیں جو پاکستان کوز ر مبادلہ دیتیں۔ آج عالم یہ ہے کہ قرض کا پہاڑ سر پر کھڑا ہو گیا ہے اور اس قرض سے نصف درجن پیداواری منصوبے شروع نہیں ہو سکے۔ کوئی بتا سکتا ہے کہ پھر یہ قرض گیا کہاں؟ جس رقم کے عوض پوری قوم کو گروی رکھ دیا گیا وہ رقم کہاں خرچ ہوئی؟

پاکستان ایک ز رعی ملک ہے لیکن کیاوجہ ہے کہ ہم ملک میں ایگرو انڈسٹری استوار نہیں کر سکے۔ چاہیے تو یہ تھا ہمارے جیساز رعی ملک دنیا کو اپنی اجناس بیچتا لیکن ہمارا عالم یہ ہے کہ زرعی زمینوں کو بوجھ سمجھا جا رہا ہے اور وہاں ہائوسنگ سوسائیٹیاں بن رہی ہیں۔ کسی کے پاس وقت ہو تو معلوم کرے گوجرانوالہ میں کتنے گائوں ایک ہائوسنگ سوسائٹی لے چکی۔ مستقبل میں شاید ہمیں گندم کے لیے بھی دنیا کے سامنے کشکول رکھنا پڑے کہ سخیا اس میں بھی کچھ دیتا جا۔

ملک میں سڑکوں پر ٹریفک کا سمندر ہے۔ لیکن ملک میں گاڑیاں تیار نہیں ہو رہیں۔ گاڑیاں باہر سے آتی ہیں اور ڈالر دے کر خریدی جاتی ہیں۔ ملک میں آٹو انڈسٹری کیوں نہیں لگائی گئی۔ اس سازش میں کون کون بد بخت شامل ہے؟ جاپان نے ہمیں کیا دیا ہے کہ ہم مفت میں اسکی آٹو انڈسٹری کی اتنی بڑی مارکیٹ بنے بیٹھے ہیں؟ یہ گناہ بے لذت نہیں تو کیا ہے؟

ہر بندے کے پاس موبائل ہے۔ لیکن یہ موبائل ہم اپنے ملک میں نہیں بنا سکتے۔ باہر سے خریدے جاتے ہیں۔ یہی حال لیپ ٹاپ کا ہے۔ قرض کھا کھا کر ہمیں بد ہضمی ہوئی پڑی ہے لیکن اس قرض کا کہیں ہم ڈھنگ کا استعمال نہیں کر سکے اور آج عالم یہ ہے کہ اس قرض پر اقساط اور سود کی ادائیگی کے لیے بجٹ میں مختص رقم، ہمارے دفاعی بجٹ سے زیادہ ہو چکی ہے۔ کیا کسی کو احساس ہے اس عدم توازن کا انجام کیا ہو گا اور ہم تیزی سے کس گڑھے کی سمت لڑھکتے جا رہے ہیں۔

قرض، مزید قرض اور مزید قرض۔ ہماری معاشی پالیسی کا خلاصہ بس اتنا سا ہے۔ نہ ہمارے پاس کوئی متبادل ہے نہ ہم نے کبھی متبادل تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ ہماری اجتماعی نا اہلی کا نا مہ اعمال ہے جو ہمارے سامنے رکھا ہے۔ آنے والے دنوں میں صورت حال مزید سنگین ہو نے کا ڈر ہے۔ بلکہ ڈر کیا ہے، نوشتہ دیوار ہے۔ ہمارے پاس کوئی معاشی متبادل نہیں۔ احتساب کے خوف سے سرمایہ بھاگ گیا۔ سرمایہ کاری کے لیے یہاں ماحول سازگار نہیں۔ ون ونڈو آپریشن آج تک رائج نہیں ہو سکا۔ کرپشن اور بد عنوانی کا راج ہے۔ سیاسی استحکام یہاں کبھی آنے ہی نہیں دیا گیا۔ ہر حکومت میں یہی جاسوسیاں ہو رہی ہوتی ہیں کہ ستمبر ستم گر ہو گا، مارچ میں مارچ ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ جہاں سیاسی استحکام نہ ہو وہاں سرمایہ کاری کیسے ہو سکتی ہے۔

آج نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ دو ارب ڈالر کے قرض کے حصول کیلئے ہم اتنے مجبور ہو چکے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پر پارلیمان میں قانون سازی کر رہے ہیں۔ سوال یہ کہ اگلے سال ہماری مجبوری کا عالم کیا ہو گا اور آئی ایم ایف کی شرائط کیسی خوفناک ہوں گی۔ پھر اس سے اگلے سال؟ اور پھر اس سے اگلے سال؟

Check Also

Fahash Tarkari

By Zubair Hafeez