میرا مارگلہ
مارگلہ کا ہر موسم میر کا دیوان ہے لیکن پھولوں کو چھوتی شبنم کی طرح دبے پائوں جاڑا اترتا ہے تو سارا جنگل سرگم ہو جاتا ہے۔ گھر کے پاس سے ندی بہہ رہی ہے، اُس پار جنگل ہے۔ کڑاکے کی سردی پڑتی ہے۔ جنگل میں، ندی کے ساتھ ساتھ دور تک چلنے کے لیے اس سے اچھا موسم کوئی نہیں۔ درہ جنگلاں (ٹریل فائیو) پانچکی دہلیز پرپہنچا تو ابھی صبح نہیں اتری تھی۔ ملگجا سا اندھیرا تھا۔ لیکن جنگل آج بہت مہربان تھا۔ چار سو سالہ قدیم برگد کے درخت تلے کھڑااسباب سفر باندھ ہی رہا تھا کہ پارکنگ کی جانب سے جنگل میں سرسراہٹ سی ہوئی۔ ایک حیرت کدہ میرے سامنے تھا۔ پھر پانچ چھ ہرن قلانچیں بھرتے پگڈنڈی پر نمودار ہوئے۔ لمحہ بھر کو ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا، پھر وہ اسی قطار میں چھلانگیں بھرتے جنگل میں غائب ہو گئے۔ ان کے پیچھے پیچھے تین لومڑیاں چہل قدمی کرتے ہوئے پگڈنڈی پر آئیں اور جنگل میں گم ہو گئیں۔ جب تک میں سنبھلتا پگڈنڈی ویران مگر دل آباد ہو چکا تھا۔
مارگلہ میں، میں نے میلوں دور تک جنگل چھانا ہے۔ وقت نہیں، یہاں میرے پہر بیتے ہیں۔ گائوں کے راستوں کی طرح یہ پگڈنڈیاں مجھے یاد ہیں۔ دور اوپر ڈھوک جیون کی ندی کی چھائوں میں سالوں پہلے غورالوں کی ایک ٹولی دیکھی تھی، فیصل مسجد کے سائے میں درہ کوانی تو آج کل بند ہے کہ وہاں تیندوے آ چکے ہیں، لیکن سالوں پہلے اس درے میں ندی کے تیسرے موڑ سے آگے سرمئی رنگ کی لومڑیوں کا راج ہوتا تھا۔ درہ جنگلاں میں بھی بدھ مت کی قدیم گپھائوں کے آس پاس لومڑیاں پائی جاتی ہیں۔ یہیں نیچے انجیر کے چشمے کے پاس میں نے پہلی بار لومڑی دیکھی تھی۔ لیکن درہ جنگلاں میں پارکنگ کے ساتھ ہی ندی سے بھی پہلے اتنے ہرن اور لومڑیوں کا ایک ساتھ نمودار ہونا میرے جیسے رفتہِ عشق کو نہال کر گیا۔
ندی کے پہلے موڑ سے بائیں جانب ایک پگڈنڈی نکلتی ہے۔ یہہاں میلوں دور تک مکمل ویرانی ہے۔ ہرن ادھر کو ہی بھاگے تھے۔ ہرنوں کے تعاقب میں اس پگڈنڈی پر تھوڑا آگے تک گیا لیکن پھر رک گیا۔ ادھر جانا آسان تھوڑی ہے کہ تیندوے بھی یہاں مقیم ہیں۔ جنگل کا یہ سلسلہ آگے شادرا تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ راستہ آگے جا کر وادی رملی اور شادرا اور پھر آگے مری کی طرف نکل جاتا ہے۔ بائیں جانب کے پی کے ہے۔ یاد آیا کہ مارگلہ کی اس بستی شادرا میں ابھی دو سال پہلے اسی جاڑے میں تیندووں نے گائوں والوں کی درجن بھر بکریاں ماردی تھیں۔
عافیت اسی میں تھی کہ ندی کے ساتھ ساتھ چلا جائے۔ یخ بستہ پگڈنڈی پر ندی کے ساتھ ساتھ انجیر کے چشمے تک پہنچا اور یہاں سے بوہڑی کے چشمے کی طرف جانے کی بجائے بائیں جانب نکل گیا جہاں بدھ مت کی قدیم گپھائیں ہیں۔ اوپر چوٹی تک پہنچتے دن نکل چکا تھا۔ گپھا کے سامنے ایک اور حیرت کدہ میرا منتظر تھا۔ سورج کی دھوپ سے پہاڑ کا یہ حصہ چمک رہا تھا اور بائیں جانب ڈھلوان کے کنارے پر ایک لومڑی دھوپ سینک رہی تھی۔ چند لمحے وہ مجھے اور میں اس کو دیکھتا رہا۔ عام حالات میں لومڑیاں ایک ہی ساعت میں بھاگ جاتی ہیں لیکن یہ لومڑی شاید رات بھر کی ٹھٹھری ہوئی تھی۔ دھوپ چھوڑ کر جانا اس کے لیے اتنا آسان نہ تھا۔ اس خیال سے کہ کہیں میں اس کے آرام میں مخل نہ ہو جائوں، میں بالکل خاموش بت بنا کھڑا رہا یہاں تک وہ خود ہی اٹھی اور دائیں جانب پگڈنڈی پر غائب ہو گئی۔
سنہری دھوپ میں ایک پتھر پر بیٹھے یہ خیال دستک دیتا رہا کہ مارگلہ خدا کا انعام ہے، افسوس ہم اس کی ناقدری کر رہے ہیں۔ شادرا سے لے کر گڑیالہ تک، صاف پانی کی بارہ ندیاں یہاں سے پھوٹتی ہیں۔ صاف اور میٹھے پانی کے چھ چشمے ہیں۔ یہ ندیاں جب تک جنگل اور پہاڑ میں گھومتی پھرتی ہیں ان کا پانی موتیوں کی طرح چمکتا ہے۔ جیسے ہی یہ اسلام آباد کی شہری حدود میں داخل ہو جاتی ہیں ان میں سیوریج ڈال دیا جاتا ہے۔ ابھی وہ لوگ ز ندہ ہیں جو سیکٹرز سے گزرتی ان ندیوں میں سے مچھلیاں پکڑا کرتے تھے۔ کوئی دکھ سا دکھ ہے۔
کتنا پر اسرار سا لگتا ہے کہ آج بھی اس جنگل میں لومڑیاں، ہرن، غورال اور تیندوے پائے جاتے ہیں۔ صرف تتلیوں کی اتنی اقسام ہیں کہ یوں لگتا ہے جنگل کے جانوروں کے ہر قبیلے کی اپنی اپنی تتلی ہے۔ کوئی مور کے رنگوں جیسی، کوئی شیرکی شبیہ والی، کوئی تیندوے سے ملتی جلتی۔ قدرت نے رنگوں کی ایک قوس قزح آباد کر رکھی ہے۔ اتنے پکھو، ہیں کہ آدمی شانت ہو جاتا ہے۔ پرندوں کی چہچہاہٹ سے جنگل گونج رہا ہوتا ہے۔
مارگلہ کا یہ جنگل کہنے کو تو نیشنل پارک ہے لیکن کیا نیشنل پارک ایسے ہوتے ہیں۔ نیشنل پارک تو جانوروں کی محفوظ قیام گاہ کا نام ہوتا ہے۔ یہ کیسی قیام گاہ ہے جس کے اوپر پہاڑ پر دو ہوٹل بنا دیے ہیں اور سر شام سینکڑوں گاڑیاں ان ہوٹلوں کی طرف رواں دواں ہوتی ہیں۔ سڑک کے کنارے جنگل میں میلوں دور تک برقی قمقمے لگا دیے ہیں۔ گاڑیوں کی روشنی، برقی قمقمے رات کو جنگل کا سکون اور سکوت غارت کر دیتے ہیں۔ کوئی غور کرنے والا نہیں کہ ہزاروں لوگ ان ہوٹلوں میں آتے ہیں تو ان کا فضلہ اور کوڑا کہاں جاتا ہے؟ کیا نیشنل پارک میں فضلہ ڈمپ کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ کیا کسی ہوٹل کو یہ اختیار دیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنا سیوریج نیشنل پارک میں ڈال دے؟
اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کی ذمہ داری ہے کہ وہ مارگلہ نیشنل پارک کو دیکھے لیکن اس کی افرادی قوت محض ساٹھ افراد پر مشتمل ہے۔ ان میں سے ایک بھی مستقل نہیں۔ کوئی ڈیلی ویجر ہے تو کوئی کنٹریکٹ پر ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ 43 ہزار ایکڑ رقبے پر محیط نیشنل پارک کی نگہداشت صرف 60 افراد کر سکیں۔ چنانچہ آگ لگتی ہے تو کئی کئی دن تک مارگلہ جلتا رہتا ہے۔ سٹاف کے پاس آگ بجھانے کے جدید آلات نہیں ہیں۔ جنگل میں تیندوے موجود ہیں لیکن سٹاف کے پاس ٹرینکولائزر گن نہیں ہے۔ نیشنل پارک میں شکر پڑیاں اور راول ڈیم کا علاقہ بھی موجود ہے لیکن وائلڈ لائف کا عملہ صرف پہاڑ کی تین پگڈنڈیوں تک محدود ہے۔ شکر پڑیاں اور راول جھیل بھی تجاوزات کی زد میں ہیں اور مارگلہ کا پہاڑ بھی۔
مارگلہ ایک تہذیبی ورثہ بھی ہے۔ مارگلہ کا گائوں سید پور شہنشاہ جہانگیر کا سسرال بھی ہے اور شہنشاہ کی دلہن کے جہیز کا تحفہ بھی۔ ہندو تہذیب میں بھی اس گائوں کی بہت اہمیت ہے۔ ہندوئوں کے مطابق وشنو کے ساتویں اوتار راجہ راما چندرانے جلا وطنی کے ایام یہیں گزارے تھے۔ یہاں ان کی یاد میں رام کنڈ نامی مندر آج بھی موجود ہے۔ کچھ سال پہلے تک یہاں ہندوئوں کا میلہ لگتا تھا۔ گڑیالہ کے غاروں میں بد ھ مت کے زائرین آتے تھے۔ یہیں اوپر سکندر اعظم کی یادگار موجود ہے۔ وہ اسی راستے سے گزر کر آیا تھا۔
قدرتی حسن سے لے کر تہذیبی اور تاریخی ورثے تک مارگلہ میں کیا کچھ نہیں ہے۔ یہاں مذہبی سیاحت کے بھی غیر معمولی امکانات موجود ہیں۔ لیکن ہم یہ سارا ورثہ ضائع کر رہے ہیں اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں۔