کیا وزیر اعظم کا کوئٹہ نہ جانے کا فیصلہ درست ہے؟
وزیر اعظم عمران خان نے اپنا فیصلہ اور اس کی شان نزول بیان کر دی۔ فیصلہ یہ ہے کہ لاشوں کی تدفین تک وہ کوئٹہ نہیں جائیں گے اور فیصلے کی شان نزول یہ ہے کہ ان کے خیال میں یہ بلیک میلنگ ہے اور وزیر اعظم کو بلیک نہیں کیا جا سکتا۔ سوال یہ ہے کیا وزیر اعظم کا یہ فیصلہ درست ہے اور کیا اس شان نزول کا دلیل اور سیاست کی دنیا میں کوئی اعتبار ہے؟
عمران خان، روایت یہ ہے کہ، آکسفرڈ یونیورسٹی سے سیاست اور فلسفے کی ڈگری لے چکے ہیں۔ لیکن ان کے سیاسی اور سماجی فہم پر بہت سے سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
لاشے سڑک پر رکھے ہیں اور پر امن لواحقین درد کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ ان بیٹیوں، بہنوں، مائوں کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ ہم لاشے اٹھا اٹھا کر تھک چکے، اب تدفین اس وقت ہو گی جب وزیر اعظم خود آئیں گے۔ یہ مطالبہ ایسا ہی ہے کہ جیسے گھر میں بچے لڑ پڑیں اور بھائی بہن کی یا بہن بھائی کی پٹائی کر دے تو مار کھانے والا ناراض ہو کر گھر کے لان میں جا بیٹھتا ہے کہ جب تک بابا نہیں آئیں گے اور اس مسئلے کو نہیں دیکھیں گے میں نہ گھر کے اندر آئوں گا، نہ کھانا کھائوں گا۔ یہ مطالبہ "بلیک میلنگ" کیسے ہو گیا؟ یہ تو مان ہے کہ اب گھر کا بڑا آئے گا اور ہمارا دکھڑا سنے گا تب ہم لاشے دفن کریں گے۔
وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے انہوں نے لواحقین کے تمام مطالبات مان لیے ہیں۔ تبدیلی نے اعتبار کے سارے موسم جھلسا دیے ہیں اور اب شام کے اخبار اور حکومتی دعوے کا اعتبار کرنا کسی کوہ کنی سے کم نہیں رہا۔ تا ہم اگر یہ سچ ہے کہ وزیر اعظم نے ان کے سارے مطالبات تسلیم کر لیے ہیں تو پھر انہیں بلیک میل کون کر رہا ہے اور کس معاملے میں کر رہا ہے؟ مطالبات تو پہلے ہی تسلیم ہو گئے، بلیک میلنگ کیسی؟ بلیک میلنگ تھی تو مطالبات کیوں تسلیم کیے؟ کیا وزیر اعظم غلطی ہائے مضامین کی تصویر بن چکے ہیں؟
عمران خان معاملے کی نزاکت کو سمجھ نہیں پائے۔ پاکستان اس وقت حالت جنگ میں ہے۔ جیسی خانہ جنگی کا میدان شام عراق وغیرہ کوبنایا گیا ایسا ہی ماحول پاکستان میں بنایا گیا تھا۔ اللہ کے کرم سے پاکستان نے اس بحران پر قابو پا لیا لیکن ہم حالت امن میں نہیں ہیں۔ روز ہمارے سکیورٹی فورسز کے لوگ شہید ہو رہے ہیں۔ کہیں کوئی حادثہ ہو جاتا ہے اور دل لہو ہو جاتا ہے لیکن بہت سے حادثات روک بھی لیے جاتے ہیں۔ جب حادثہ نہیں ہو پاتا اور لوگ گرفتار کر لیے جاتے ہیں تو یہ ایک سطر کی خبر ہوتی ہے جب ہوجاتا ہے تو یہ بریکنگ نیوز بن جاتی ہے۔ یہ جمع تفریق حادثے کا جواز نہیں ہے، نہ ہی ہو سکتی ہے لیکن اس انداز سے تنقید کرنا جیسے ہمارے ادارے تو کچھ کر ہی نہیں کر رہے ایک الگ طرح کی واردات ہے۔
ہماری داخلی تقسیم ایک چنگاری ہے جو کسی بھی وقت بھڑک سکتی ہے۔ ایسے میں حکومتی حلقوں کی جانب سے یہ دلیل دینا کہ آج وزیر اعظم کوئٹہ گئے تو کل کسی دوسرے گروہ کے لوگ قتل ہوئے تو وہ بھی کہیں گے کہ وزیر اعظم آئیں تو دفن کریں گے، مناسب نہیں ہے۔ حکومت اپنے شہریوں کو شہری کے طور پر دیکھتی ہے گروہوں میں بانٹ کر نہیں دیکھتی۔ حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ وزیر اعظم کے جانے یا نہ جانے کو گروہی تقسیم کے دائروں سے الگ کر کے دیکھا جاتا۔ لیکن اب یہ عالم ہے کہ خود جناب وزیر اعظم نے " بلیک میلنگ" کا لفظ استعمال کر کے ضد کی سی کیفیت پیدا کر دی ہے۔
بلاشبہ وزیر اعظم کا جانا ضروری نہ تھا۔ اصل چیز مجرمان کی سرکوبی تھی۔ لیکن غم میں ڈوبے لواحقین وزیر اعظم کی آمد کا مطالبہ کر رہے تھے تو اپنے شہریوں کا یہ مطالبہ ایسا غلط بھی نہ تھا کہ وزیر اعظم اس قدر شدید رد عمل دیتے۔ اسے ایک گروہ کے مطالبے کی بجائے شہریوں کا مطالبہ سمجھا جانا چاہیے تھا۔ کچھ تحفظات بھی تھے تب بھی ہر موقع پر بائونسر نہیں مارا جاتا۔ سٹیس مین شپ بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ کئی راستے نکل سکتے تھے۔ گورنر ہائوس میں لواحقین کے نمائندہ وفد سے بات ہو سکتی تھی۔ اور اگر موقع پر بھی جانا پڑ جاتا تو کوئی مضائقہ نہ تھا۔ اب مجرمان کا تعین اور سرکوبی کا معاملہ قومی بیانیے سے محو ہو چکا ہے اور وزیر اعظم کا جواب آں غزل ہر چیز پر غالب آ چکا ہے۔ اقوام متحدہ پہلے ہی بیان جاری کر چکی۔ نہ جانے کا آزار جانے کے خدشات پر حاوی ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
عمران خان صاحب کے کوئٹہ نہ جانے کے بہت سے دلائل دیے جا چکے اور کچھ مزید تلاش کی تلاش جاری ہو گی لیکن جمع تفریق کے میزانیے پر ان دلائل کا پلڑا ہلکا ہی رہے گا۔ جس بصیرت کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا وہ نہیں کیا جا سکا۔ منتخب جمہوری قیادت زخموں پر مرہم کرتی ہے، قادرالکلامی سے نمک پاشی نہیں کرتی۔ عمران خان وزیر اعظم بن کر بھی یہ نہیں جان پائے کہ وزیر اعظم کے منصب کے تقاضے کیا ہوتے ہیں۔ ہیرو بلیک میل نہیں ہوتا لیکن وزیر اعظم عوامی مطالبے سے متفق نہ بھی ہو تو وہ اپنے شہریوں کو بلیک میلنگ کا طعنہ نہیں دیتا۔
عمران وزیر اعظم بن کر بھی وزیر اعظم نہیں بن سکے۔ وہ آج بھی ہیرو کے طلسم کدے سے نہیں نکل پائے۔ ہیرو تو پھر ہیرو ہوتا ہے۔ انسانی جذبات سے بے نیاز۔ دلدار پرویز بھٹی اور نصرت فتح علی خان جیسے مہربان لوگوں کا جنازہ ہو یا ایدھی صاحب اور اس کے اپنے کزن نجیب اللہ کا، ہیرو جنازوں میں شرکت نہیں کرتا۔ ہیرو جذباتی نہیں ہوتا، ہیرو اداس بھی نہیں ہوتا۔ ہیرو کسی سے محبت نہیں کرتا، ہیرو کسی کی قدر نہیں کرتا۔ ہیرو اپنی ذات کا اسیر ہوتا ہے۔
عمران خان کو معلوم ہونا چاہیے، وہ اب وزیر اعظم ہیں۔ ہیرو عمران خان انسانی احساسات سے بے نیاز ہو سکتا ہے، وزیر اعظم عمران خان اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔