کیا قانون سازی ایسے ہوتی ہے؟
جہا ں حکومت پھنستی ہے اور مزاجِ یار برہم ہوتا ہے، ایک عدد آرڈی ننس آ جاتا ہے۔ یہاں تک کہ طے شدہ قوانین بھی حکومت کی راہ میں حائل ہو رہے ہوں تو آرڈی ننس کے ذریعے ان قوانین کو روند دیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کیا قانون سازی ایسے ہوتی ہے؟
ابھی بلدیاتی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ قانون یہ ہے کہ انتخابی مہم کے دوران کسی وزیر کو اس حلقے میں جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ ماضی میں خود تحریک انصاف اس قانون کے حوالے دیتی پائی جاتی تھی لیکن اپنی حکومت آئی تو یہی قانون اسے برا لگنا شروع ہو گیا۔ علی امین گنڈا پور صاحب پر حال ہی میں الیکشن کمیشن نے پابندی عائد کی کہ وہ انتخابی حلقے میں نہیں جا سکتے۔ چنانچہ صدارتی آرڈی ننس کے ذریعے اس قانون کو ہی بدل دیا گیا تا کہ کوئی اس سے سوال ہی نہ کر سکے اور الیکشن کمیشن بھی بے بسی سے بیٹھا تماشہ دیکھتا رہے کہ کل تک جو کام غیر قانونی تھا اب اسے راتوں رات قانونی قرار دے دیا گیا ہے۔ اب بعد میں پارلیمان سے اس آرڈی ننس کی توثیق ہو یا نہ ہو، انتخابات کے دوران اس سے بھر پور فائدہ تو اٹھا ہی لیا جائے گا اور اسے پری پول رگنگ، بھی نہیں کہا جا سکے گا کیونکہ جو کچھ ہو رہا ہے قانون کے مطابق ہو رہا ہے۔
یاد آ رہا ہے کہ بھارت کی سابق وزیراعظم اندرا گاندھی بھی ایک انتخابی حلقے کا دورہ کرنے جا رہی تھیں، الیکشن کمیشن کو اطلاع ملی تو فوری حکم جاری کر دیا کہ وزیر اعظم واپس آ جائیں اور اگر وہ حلقے میں داخل ہو گئیں تو ان کے خلاف کارروائی ہو گی۔ معلوم نہیں اب یہ اندرا گاندھی کی کم علمی تھی، ان کا وزیر قانون زیادہ لائق نہیں تھا یا ان کا صدر مملکت اتنا لج پال نہیں تھا کہ وہ واپس آ گئیں، حلقے میں داخل نہیں ہوئیں اور واپس آ کر کوئی صدارتی آرڈیننس بھی جاری نہیں کروایا حالانکہ یہ اختیار ان کے آئین میں بھی موجود تھا۔
اس سے پہلے سینیٹ میں جب تحریک انصاف کی حکومت کو ناکامی کا خطرہ لاحق ہوا تو وہاں بھی طے شدہ انتخابی قانون کو تبدیل کر دیا گیا۔ قانون یہ تھا کہ ووٹنگ خفیہ ہو گی۔ اس سے حکومت بد مزہ تھی کہ کہیں اس کے اپنے اراکین اس کے خلاف ووٹ نہ دے آئیں اور اسے ہزیمت کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے۔ وہ آرڈی ننس لے کر آ گئی کہ ووٹنگ اعلانیہ ہو گی اور اس طرح ہو گی کہ بیلٹ پیپر کی شناخت ہو سکے کہ کس نے کس کو ووٹ دیا ہے۔ یعنی قانون مزاج یار کی راہ میں حائل ہوا تو قانون ہی ختم کردیا گیا۔ یہ الگ بات کہ اس آرڈی ننس جاتی بہار کے غنچوں کی طرح بن کھلے ہی مرجھا گیا اور سپریم کورٹ نے معاملہ واپس پارلیمان کو بھیج دیا۔
ایک ایک دن میں آٹھ آٹھ آرڈیننس آ جاتے ہیں۔ جتنی قانون سازی اس دور میں پارلیمان کے ذریعے ہوئی ہے اس سے زیادہ قانون سازی آرڈی ننس کے ذریعے ہوئی ہے۔ صدر کے منصب کا ایک وقار ہوتا ہے، اسے محض سیکشن افسر نہیں بنا دینا چاہیے کہ حکومت جب جہاں اور جو چاہے صدر محترم تب، وہیں اور وہی آرڈی ننس جاری کر دیں۔ حتی کہ اگر حکومت کسی قانون سے پریشان ہو تو اس قانون ہی کو بذریعہ آرڈی ننس روند دیا جائے۔ بنیادی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ قانون موم نہیں ہوتا کہ ضرورت، خواہش اور مفادات کے تحت کھڑے کھڑے تبدیل کر دیا جائے۔
حکومتوں سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ قانون کا احترام کرکے ایک مثال قائم کریں گی۔ لیکن اگر حکومت آڑدی ننس کے ذریعے اس قانون ہی کو بدل دے جو اس کی راہ میں حائل ہو رہا ہو تو یہ کوئی اچھی مثال نہیں ہوتی۔
یہ تاثر بھی درست نہیں ہے کہ صدر محترم کے پاس آرڈی ننس جاری کرنے کا ایسا اختیار ہے جس پر کوئی قدغن نہیں اور کسی بھی آرڈی ننس پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔ آئین کے آرٹیکل 89 کے تحت صدر کے پاس آرڈی ننس جاری کرنے کا اختیار ضرور ہے لیکن اس کے لیے تین شرائط بھی اسی آرٹیکل میں بیان کر دی گئی ہیں۔ پہلی شرط یہ ہے کہ اس وقت قومی اسمبلی یا سینیٹ کا سیشن نہ چل رہا ہو۔ دوسری شرط یہ ہے کہ حالات ایسے ہو چکے ہوں کہ فوری قانون سا زی ضروری ہو۔ اور تیسری شرط یہ ہے کہ صدر مملکت اس امر سے مطمئن ہوں اور ان کی رائے بھی یہی ہو کہ واقعی حالات ایسے ہی ہیں۔ یعنی بات صرف اتنی نہیں کہ حکومت کہہ دے اور صدر صاحب دستخط کر دیں بلکہ ان کا اپنا اطمینان ہونا بھی لازمی ہے۔
اب جو تازہ ترین آرڈی ننس آئے ہیں یہ اس وقت آئے ہیں جب قومی اسمبلی کا سیشن چل رہا تھا اور اسے دانستہ طور پر ختم کر دیا گیا تا کہ یہ شرط پوری ہو سکے۔ یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ ایسی کیا ایمر جنسی آن پڑی تھی کہ انتخابی قانون کو راتوں رات بدلنا پڑا۔ یہ بھی ایک راز ہی ہے کہ صدر محترم اس سے مطمئن کیسے ہو گئے؟
یہ بھی یاد رہے کہ اس نکتے پر چیئرمین سینیٹ کی رولنگ بھی آ چکی ہے اور اسی دور حکومت میں آ چکی ہے اور خود تحریک انصاف کے حمایت یافتہ چیئرمین سینیٹ جناب صادق سنجرانی کے دستخطوں سے آ چکی ہے کہ حکومت صدارتی آڑدی ننس کے لیے صدر سے کہنے سے پہلے آئین کی شقوں کا بغور مطالعہ کر لیا کرے۔ اور جب تک انتہائی ضروری نہ ہو صدارتی آرڈی ننس جاری کرنے سے اجتناب کیا جائے۔ چیئر مین سینیٹ کے خیال میں اس طرح آرڈی ننس جاری کر دینا Breach of the Parliament کے زمرے میں آتا ہے۔
لیکن یہاں آرڈی ننس ہی کا کیا رونا کہ معاملات جب پارلیمان کے سامنے لائے جاتے ہیں تو وہاں بھی یوں عجلت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے کہ اوگرا ترمیمی بل پاس ہو جاتا ہے اور کسی کو پرواہ نہیں ہوتی کہ آئین کیا کہتا ہے اور مشترکہ مفادات کی کونسل کدھر چلی گئی؟ سٹیٹ بنک کا بل بھی عجلت میں پاس ہوتا ہے۔ جائنٹ سیشن بلایا گیا تو ایک دن میں 33 بل پاس کروا لیے گئے۔ تیرہ جنوری 2022 کو قومی اسمبلی سے 16بل پاس ہوئے۔ دس جون 2021 کو قومی اسمبلی سے 21 بل پاس ہوئے۔ کیا بل اس طرح پاس ہوتے ہیں؟
اب تو یہ روایت ہی بن گئی ہے کہ پل بھر میں قانون سازی کرا لی جاتی ہے اور کوئی اس میں ترمیم تجویزکرتا ہے تو ہمارے قابل احترام دوست علی محمد خان کی جانب سے کہا جاتا ہے پہلے بل پاس کریں ترامیم کو بعد میں دیکھ لیں گے۔ یعنی پہلے اطاعت کرو اس کے بعد دیکھیں گے کہ ایوان بالا میں بیٹھی رعایا کی شکایات کیا ہیں۔ یہ رویہ نہ جمہوری اقدار کے شایان شان ہے اور نہ اس انتخابی منشور کے جو تحریک انصاف نے جاری کیا تھا اور جس کی بنیاد پر لوگوں سے ووٹ لیے تھے۔ سوال یہ ہے کہ کیا قانون سازی اس طرح ہوتی ہے؟