کیا ہمیں اس پارلیمان کی کوئی ضرورت ہے؟
ان دنوں اسلام آباد میں قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں ان کوششوں کا انجام کیا ہو رہا ہے؟ 22 دسمبر کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا، تمام متعلقہ وزارتوں کے لوگ، سیکیورٹی کا عملہ، پارلیمان کا سٹاف اور جملہ خدام ادب حاضر تھے لیکن کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے ملتوی ہو گیا۔
اس کے بعد طے ہوا کہ کردار کے غازی م بے داگ ماضی، نہ جھکنے والے، نہ بکنے والے، اور حیران کن طور پر آئین کے آرٹیکل باسٹھ اور ترسیٹھ پر پورا اترنے والے ان معززین اراکین پارلیمان کو 24 دسمبر کو زحمت دی جائے۔ 24 دسمبر کو اجلاس تھا اور وہ بھی بغیر کسی کارروائی کے، کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے ملتوی ہو گیا۔ اس کے بعد ایک تیسری کوشش کی گئی۔ منگل کے دن وہ کوشش بھی کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے ناکام ہو گئی۔ طے ہوا کہ اب بدھ یعنی 29 دسمبر کو اجلاس منعقد ہو گا۔ جس وقت میں یہ سطور لکھ رہا ہوں اجلاس کا وقت ہو چکا ہے۔ اب خدا جانے یہ اجلاس بھی کورم کی نذر ہو جاتا ہے یا آج ہمارے معزز اراکین پارلیمان اہم کارروائی میں حصہ لیتے ہیں۔
پارلیمان کے ایک دن کی نشست و برخواست پر اوسطا چار کروڑ روپیہ خرچ ہو تا ہے۔ یعنی ان تین دنوں میں غریب قوم نے اپنے 9 کروڑ برباد کرا لیا لیکن اجلاس منعقد نہ ہو سکا۔ سوال یہ ہے ان منتخب نمائندوں کے یہ اتنے مہنگے چونچلے یہ غریب قوم آخر کب تک برداشت کرے گی؟
یہ واردات یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ اس کے کچھ اور پہلو بھی ہیں جو زیادہ شرمناک اور خوفناک ہیں۔ 22 دسمبر کو اسمبلی ریکارڈ کے مطابق 219 اراکین قومی اسمبلی کی حاضری لگی تھی۔ اسی طرح 24 دسمبر کو 176 اراکین اسمبلی نے حاضری لگائی تھی۔ اب قانونی پوزیشن یہ ہے کہ کورم پورا کرنے کے لیے صرف 86 اراکین کا حاضر ہونا ضروری ہوتا ہے۔ ایک رو ز219 اراکین کی حاضری لگی ہو لیکن ایوان میں 86 اراکین بھی موجود نہ ہوں اور دوسرے دن حاضری تو 176 لوگوں کی لگ جائے لیکن کورم پھر بھی پورا نہ ہو سکے تو یہ اس پر بہت سارے قانونی اور اخلاقی سوالات اٹھتے ہیں۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا حاضری فاضل اراکین خود لگاتے ہیں یا یہ فریضہ بھی انجمن واردات باہمی، ادا کرتی ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر جعلی حاضریوں والا الزام تسلیم نہ کیا جائے کیونکہ باسٹھ تریسٹھ پر پورا اترنے والے با کردار اراکین پارلیمان اس طرح کی جعل سازی تو ظاہر ہے کہ نہیں کر سکتے، تو پھر وہ حاضریاں لگا کر کہاں جاتے ہیں؟
کیا یہ بات اخلاقی طور پر درست ہے کہ حاضری لگا کر اپنے پیسے تو کھرے کر لیے جائیں۔ اور اس کے بعد جو بنیادی ذمہ داری ہے اس سے غفلت برت کر ایوان سے نکل لیا جائے؟ پارلیمان کی بالادستی کا پہاڑہ پڑھنے والے سیاسی قائدین بتانا پسند کریں گے کہ اس حرکت کا کوئی قانونی اور اخلاقی جوا موجود ہے کہ 219 اراکین پارلیمان حاضری لگا کر اپنے پیسے کھرے کر لیں لیکن ایوان میں 86لوگ بھی موجود نہ ہوں۔ کیا ایسے غیر سنجیدہ لوگوں کو ایوان کا حصہ رہنے کی اجازت ہونی چاہیے اور کیا اس رویے کی تادیب کے لیے کوئی قانون نہیں بننا چاہیے؟
سرکاری ملازمین کے لیے چھٹیوں کے سخت ضابطے ہیں۔ لیکن معزز اراکین پارلیمان کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ سرکاری ملازمین غیر حاضر رہیں تو ان کے خلاف کارروائی ہوتی ہے اور اراکین پارلیمان غیر حاضر رہیں تو اسمبلی کے فلور پر تجویز پیش کی جاتی ہے کہ حاضری کو یقینی بنانے کے لیے اراکین کو بیرون ممالک کے دورے کرائے جائیں۔ اور نہیں بتایا جائے اتنی حاضریاں ہوں گی تو مفت کا سیر سپاٹا کروایا جائے گا۔ آپ ہی بتائیے اس بدترین رویے کے ساتھ کیا پارلیمان چلائی جا سکتی ہے۔
مراعات کا وقت آتا ہے تو اراکین پارلیمان قومی خزانے کو مال غنیمت سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ کورم پورا رکھنے کے لیے صرف ایک چوتھائی حاضری کا اصول رکھا گیا ہے اور حالت یہ ہے کہ ایک چوتھائی حاضری بھی پوری نہیں ہو پاتی اور کورم ٹوٹ جاتے ہیں۔ اسی سال مسلسل چار اجلاس کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے ملتوی کرنا پڑے۔ اس اسمبلی کے تین سالوں کی کارکردگی یہ ہے کہ اس کے 31 فیصد اجلاس کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے ملتوی کرناپڑے۔ قانون سازی اب ویسے ہی صدارتی آرڈی ننس کی ذریعے ہوا کرتی ہے۔
اسمبلی کی کارروائی میں دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ ان تین سالوں میں ہونے والے 80 سے زائد اجلاس میں سے جناب وزیر اعظم نے صرف 7 اجلاس میں شرکت فرمائی۔ یعنی غیر حاضری کی شرح 90 فیصد سے بھی زیادہ رہی۔ قائد حزب اختلاف صرف 8 اجلاسوں میں شریک ہو سکے۔ موصوف جیل میں تھے تو ایوان میں ان کے پروڈکشن آرڈر کا یوں شور مچتا تھا کہ لگتا تھا صاحب کسی اجلاس میں سے غیر حاضر رہنا پسند نہیں فرماتے لیکن اب یہ عالم ہے کہ ایوان تشریف لانا وہ بھی اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ اجلاس کبھی ہو ہی جائے تو اس کی یتیمی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وزیر اعظم تو کجا، وزرائے کرام بھی تشریف لانا پسند نہیں فرماتے، حتیٰ کہ جس وزارت سے سوال پوچھا گیا ہو اس کے وزیر صاحب کی بھی تلاش کی جا رہی ہوتی ہے کہ صاحب کہاں ہیں۔
قانون سازوں نے اپنے لیے قانون کو موم کی ناک بنا رکھا ہے۔ چنانچہ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ غیر حاضر رہنے پر اسمبلی میں ایسا ہومیو پیتھک قسم کا قانون دیا گیا ہے کہ پڑھ کر سمجھ نہیں آتی ہنسا جائے کہ رویا جائے۔ مسلسل غوروفکر کے بعد فیصلہ ساز اس نتیجے پر پہنچے کہ جو رکن مسلسل 40 اجلاس میں شرکت نہیں کرے گا اس کی رکنیت ختم ہو جائے گی۔ غور فرمائیے، مسلسل چالیس اجلاس۔ یعنی انتالیس اجلاس غیر حاضر رہیے، پھر ایک دن تشریف لے کر ایوان میں آ جائیے اور اگلے چالیس اجلاس پھر مزے۔ تنخواہیں لیجیے اور مراعات سے لطف اٹھائیے۔ کون پوچھنے والا ہے۔
قومی اسمبلی کا بنیادی کام قانون سازی ہے۔ فاضل اراکین کی تشریف آوری اور " تشریف جاوری" پر غریب قوم اتنی غیر معمولی رقم اسی لیے خرچ کرتی ہے کہ یہاں اہم قومی امور پر غوروفکر کے بعد قانون سازی ہو گی لیکن صورت حال یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے ان تین سالوں میں اسمبلی موجود تھی لیکن اس کے باوجود 60 کے قریب آرڈی ننس جاری کیے گئے۔ جہاں کوئی قانون مزاج یار کی راہ میں حائل ہوتا ہے وہاں اس قانون کو بذریعہ آرڈی ننس روند کر ہموار کر دیا جاتا ہے۔ پارلیمان کی ناقدری دیکھیے کہ کابینہ میں غیر منتخب حضرات کا تناسب 34 فیصد ہے۔ پارلیمان میں موجود لوگ اس قابل بھی نہیں سمجھے گئے کہ کابینہ میں لیے جاسکیں۔ 34 فیصد لوگ پارلیمان سے باہر سے اٹھا کر کابینہ میں شامل کر لیے گئے۔ سوال اب یہ ہے کہ اس رویے کے ساتھ ہمیں اس پارلیمان کی ضرورت ہی کیا ہے؟