Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Imran Khan, Please Inhe Visa De Dain

Imran Khan, Please Inhe Visa De Dain

عمران خان! پلیزانہیں ویزہ دے دیں

یہ کرتارپور دربار صاحب کا منظر تھا۔ اگست 1947 میں بچھڑے دو بھائی، 75 سال بعد آپس میں مل رہے تھے۔ دیکھتے دیکھتے دل لہو گیا۔

کتنی اداس کر دینے والی کہانی ہے۔ ایک ہنستا بستا گھرانہ تھا، ماں تھی، اس کا پیار تھا، باپ تھا، اس کا سایہ تھا، آنگن میں ایک بیٹی پھول کی طرح مہک رہی تھی، دو بیٹے تھے۔ ماں دو سال کے بچے کو لے کر میکے گئی، پیچھے قیامت ٹوٹ گئی۔ برِصغیر تقسیم ہو گیا۔ دو ملک بن گئے۔ قتل ِعام شروع ہو گیا۔ ماں گاؤں واپس نہ لوٹ سکی۔

حالات ہی ایسے تھے کہ لہو ارزاں ہو چکا تھا۔ باپ بیٹے اور بیٹی کو لے کر پاکستان ہجرت کر گیا۔ پھر راستے میں ہی کہیں باپ بھی مر گیا اور پھر بیٹی بھی۔ ماں تک خبر پہنچی تو شدِت غم سے ذہنی توازن کھو بیٹھی اور پھر وہ بھی مر گئی۔ اب دو بھائی تھے۔ ایک پاکستان میں اور ایک بھارت میں۔ ان دو بھائیوں کو چند گھنٹوں کی ملاقات کے لیے 75 سال انتظار کرنا پڑا۔

کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ہے کہ دنیا نے مادی اور معاشی طور پر تو بہت ترقی کر لی ہے ،لیکن اخلاقی طور پر ایک بحران کا شکار ہے۔ ممالک میں مقابلے کی ایک دوڑ لگی ہے ،لیکن اس دوڑ میں انسان کا اخلاقی وجود شاید کچلا جا چکا ہے۔ اب بڑے بڑے موضوعات پر بڑی بڑی باتیں ہوتی ہیں اور مزاکرات کے دور ہوتے ہیں، لیکن ایک عام اور بے بس انسان کا دکھ ،کسی کا موضوع نہیں۔

تقسیم ہو گئی، ملک بن گئے، جھگڑے اور جنگیں بھی ہوئیں اور مذاکرات اور معاہدے، لیکن کسی نے اس مسئلے پر غور نہیں کیا کہ جو خاندان بچھڑ گئے ان کے ملنے کی، عارضی ہی سہی، کوئی صورت نکالی جائے۔ نتیجہ یہ ہے کہ چند سالوں کے بعد ،درد اور دکھ کی کوئی نئی کہانی سامنے آتے ہی ا ور لہو رلاجاتی ہے۔

برسوں پہلے، میں نے اس مقام کی طرف لائن آف کنٹرول کے ساتھ ساتھ سفر کیا تھا۔ دکھ اور درد کی ایسی ہی کہانیاں وہاں بھی دریا کے ساتھ ساتھ بہہ رہی ہیں۔ حسین وادیوں میں خوبصورت گاؤں ہیں ،لیکن ان کے بیچ لائن آف کنٹرول گزر رہی ہیں۔ خاندان تقسیم ہو گئے ہیں۔ گھروں کی چھتوں پر کھڑے ہو کر ایک دوسرے کو دیکھتے اور ہاتھ ہلاتے ہیں ،لیکن مل نہیں سکتے۔ ان کے پیارے چند قدم پر رہتے ہیں ،لیکن بیچ میں جدائی حائل ہے۔ ایسی ایسی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں، کہ رونے کو دل کرتا ہے۔

عالمی سیاست میں فرد نظر انداز ہو رہا ہے۔ اس کے دکھ اور اس کے مسائل پر کوئی بات نہیں کرتا۔ چاہیے تو یہ تھا، پاکستان اور بھارت دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے کوئی حل نکالتے کہ ،منقسم خاندانوں کی باہمی ملاقات آسان ہو جاتی۔ کوئی وزارت یا کمیشن بنایا جاتا اور تمام تر تنازعات اور تلخی کے باوجود اس پر اتفاق کر لیا جاتا ،کہ منقسم خاندانوں کی آمد و رفت پر کبھی بھی اعلانیہ یا غیر اعلانیہ پابندی عاید نہیں کی جائے گی۔ اور ان کے لیے ہمیشہ آنے جانے کا راستہ کھلا رہے گا۔ لیکن اگر باہمی تعلقات کی پیچیدگیاں ایسے بند و بست کی راہ میں حائل ہیں، تو پھر یہ کام اقوام متحدہ کو کرنا چاہیے تھا۔

بین الاقوامی بارڈر اور لائن آف کنٹرول کے ساتھ ساتھ ایسے پوائنٹ بنائے جا سکتے ہیں، جہاں یہ خاندان ایک دوسرے سے مل سکیں۔ ہفتے میں ایک بار یا مہینے میں ایک بار ملاقات کی کوئی صورت نکالی جا سکتی ہے۔ یہ جدائی ایک بہت بڑا انسانی المیہ ہے، اسے کب تک نظر انداز کیا جاتا رہے گا۔

یقینا یہ کام آسان نہیں اور اس میں بہت ساری پیچیدگیاں حائل ہیں، لیکن حکمت اسی چیز کا نام ہے کہ ان پیچیدگیوں پر قابو پاتے ہوئے کوئی قابل عمل راستہ نکالا جائے۔ پہلے مرحلے میں اتنا ہی کر لیا جائے کہ بزرگ شہریوں کو، جن کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ ہے،آزادانہ طور پر آنے جانے کی اجازت دی جائے۔ آزادانہ سے مراد ہر گز یہ نہیں کہ، قانونی تقاضے ہی پورے نہ کیے جائیں۔ آزادانہ سے مراد یہ ہے کہ، ویزے کا عمل ان بزرگ شہریوں کے لیے اتنا تیز اور آسان کر دیا جائے ،کہ انہیں ایک دوسرے سے ملنے کے لیے 75 سال انتظار نہ کرنا پڑے۔

ایک عام انسان کے دکھ، ہمارے لیے سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ ہمارے ہاں امن کی آشا بروئے کار آتی ہے تو وہ بھی ایک محدود طبقے کے معاملات کو دیکھ کر، اور ہمارے ہاں پیپل ٹو پیپل کانٹیکٹ کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ ،چند شعراء، ادیب، اداکار اور صحافی اِ دھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر آ جائیں۔ جن کے پیارے بچھڑے ہیں اور جن کے خونی رشتے آر پار موجود ہیں، وہ اور ان کے دکھ کسی کی ترجیح ہیں ،نہ کسی کا موضوع۔

چنانچہ اس معاملے میں بھی دیکھ لیجیے، ان دوبھائیوں کو بھی ایک دوسرے کی خبر ناصر ڈھلوں نام کے ایک صاحب کے یو ٹیوب چینل، پنجابی لہر سے ہوئی جو بالآخر سات دہائیوں بعد ایک ملاقات میں بدل گئی۔ اس سے قبل سوشل میڈیا ہی کے ذریعے بنگلہ دیش کی ایک اکسٹھ سالہ ماں جی کا بنگلہ دیش میں اپنے خاندان سے رابطہ ہوا، اور کچھ نوجوانوں نے انہیں کراچی سے ڈھاکہ پہنچایا۔ یہ خاتون 1983میں اغواء کر کے یہاں لائی گئیں اور سوشل میڈیا پر ولی اللہ معروف نامی ایک طالب علم نے ان کی ویڈیو شیئر کی، اور بالآخر ان کا اپنے بچھڑے خاندان سے ملاپ ممکن ہو گیا۔ ہمارا مین سٹریم میڈیا اگر سمجھے تو یہ اس کے لیے بڑا چیلنج ہے، اور اس میں اس کے لیے دعوتِ فکر بھی ہے۔

بھارت سے آئے محمد حبیب چند گھنٹوں کی ملاقات میں کہتے ہیں کہ بھارت میں سکھ دوستوں نے میرا بہت خیال رکھا ،لیکن اب میں پاکستان آنا چاہتاہوں، تا کہ مروں تو میری تدفین میرے اپنے کروائیں۔ میں ایک بوڑھا ہوں ،مجھ سے کسی کو کیا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ مجھے ویزہ دے دیں۔ ایسا نہ ہو کہ جیسے میری زندگی دکھوں میں گزری، ویسے ہی میرا انجام بھی دکھوں سے بھرا ہو۔

پھر 77 سالہ یہ چھوٹا بھائی ،اپنے 88 سال کے بڑے بھائی کے گلے لگ کر روتا ہے اور کہتا ہے:" عمران خان سے کہو نا مجھے ویزہ دے دے"۔ یہ درخواست نہیں تھی ،یہ ایک آہ تھی اور آہ تو عرش کو بھی ہلا دیتی ہے۔ آئیے ہم سب مل کر عمران خان سے مطالبہ کریں، کہ محمد حبیب کو پاکستان کا ویزہ دیں اور شہریت بھی۔ جو خاندان ہجرت کر کے پاکستان آیا ہواور جس خاندان کا باپ اس ہجرت میں شہید ہوا ہو، اس پاکستان پر اس خاندان کے 2 سالہ بچے سے ز یادہ کس کا حق ہو سکتا ہے؟ بھلے دو سال کا بچہ اپنا حق مانگنے 75 سال بعد ہی کیوں نہ آیا ہو، اس کا حق تو بہر حال حق ہے۔

پاکستان پر سارا خاندان قربان کر دینے والا بچہ ،آج 75سال بعد مانگ بھی رہا ہے تو کیا؟بس یہی کہ ویزہ دے دو۔ وہ اپنے مہ و سال کا حساب نہیں مانگ رہا، وہ صرف یہ مانگ رہا ہے کہ اب موت تو اسے اس کے اپنوں میں آئے۔

کیا ہم اس سے بھی انکار کر دیں گے؟

Check Also

6 Judgon Ke Khat Par Sawalat

By Najam Wali Khan