حکومت نے حکومت کو چارج شیٹ کر دیا؟
بظاہر تو عمران خان صاحب نے اپنی کابینہ کے دس وزراء کو حسن کارکردگی پر اعزازی اسناد سے نوازا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے بے خیالی میں اپنی ہی حکومت کے خلاف فرد جرم عائد کر دی ہے۔ جس حکومت کا وزیر اعظم اپنے وزیر خارجہ، وزیر دفاع، وزیر خزانہ، وزیر اطلاعات اور وزیر پارلیمانی امور کی کارکردگی سے ہی مطمئن نہ ہو، کابینہ کے اس کشتہِ مرجان کو اب کسی ناقد کی کیا حاجت؟
لوگ سوال پوچھ رہے ہیں کہ جن وزرائے کرام کو کارکردگی پر اسنادِ فضیلت عطا کی گئی ہیں، ان کی کارکردگی کے چراغ ِ نور خلق خدا کو نظر کیوں نہیں آتے لیکن اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ جن وزرائے کرام کوشاباش کے قابل نہیں سمجھا گیا، بیدادِ عشق کے ان پروانوں کا قصور کیا تھا؟
پاکستان کو درپیش حالیہ چیلنج کی ایک فہرست بنائی جائے تو سب سے پہلے معیشت آتی ہے۔ سب سے بڑا چیلنج اس وقت معاشی ہے۔ اتفاق سے معیشت کے میدان میں حکومت کے دعوے بھی بہت بلند و بانگ ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے ملک کی معاشی سمت درست کر دی ہے۔ ابھی چند روز پہلے جناب وزیر اعظم کا بیان اخبارات کی زینت بن چکا ہے کہ دنیا ہماری معاشی ترقی کو تسلیم کر رہی ہے لیکن اپوزیشن بلا وجہ شور مچا رہی ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے جس معاشی ترقی کو " دنیا" تسلیم کر رہی ہے اس ترقی، کے معمار وزیر خزانہ صاحب کی کارکردگی کو خود وزیر اعظم تسلیم نہیں کر رہے۔ خوشی کی بات مگر یہ ہے کہ چلیں کوئی ایک چیز تو ایسی ہے جس پر وزیر اعظم اور اپوزیشن میں اتفاق ہے۔ اب کوئی رہنمائی فرمائے تو معلوم ہو کہ معاشی ترقی کا دعویٰ جھوٹا تھا یا وزیر خزانہ کوا عزاز ی سند نہ دینے کا فیصلہ غلط ہے۔
پاکستان کا دوسرا بڑا چیلنج امور خارجہ کی دنیا میں درپیش ہے۔ جب ہم طالب علم سوال کرتے کہ بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پامال کرتے ہوئے کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دے دیا لیکن ہم سفارتی میدان میں بے بس کھڑے رہے اور ہم سے او آئی سی کا ایک اجلاس تک نہ بلوایا جا سکا تو ہمیں کہا جاتا کہ آپ نا سمجھ ہیں ۔ دعوے کیے گئے کہ پاکستان نے خارجہ محاذ پر کمال کر دیا ہے۔ او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا افغان ایشو پر پاکستان میں اجلاس ہوا تو اسے بھی اپنی کامیابی قرار دیا گیا۔
ابھی 23 مارچ کے موقع پر او آئی سی کا ایک بار پھر اکٹھ ہونے جا رہا ہے، جسے امور خارجہ کی دنیا کا ایک اور اعزاز قرار دیا جا رہا ہے۔ چین کے دورے سے واپسی پر قوم کو بتایا گیا کہ توقع سے زیادہ کامیابی ملی اور اب اپنے وزیر خارجہ کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کر دیا گیا ہے۔ سوال وہی ہے کہ کس بات کا یقین کیا جائے؟ امور خارجہ میں غیر معمولی کامیابی کے دعووں کا یا اسی وزیر خارجہ پر عدم اطمینان کا؟
پاکستان کا تیسرا بڑا چیلنج دفاع کا ہے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات خاصے کشیدہ ہیں۔ چند مواقع تو ایسے تھے کہ بالکل جنگ کی سی صورت حال پیدا ہو گئی تھی۔ افغانستان کی طرف سے بھی چیلنج ابھر رہے ہیں۔ ہر موقع پر خود وزیر اعظم قوم کو یقین دلاتے ہیں کہ ملک کا دفاع محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ اب مگر ان کے خیال میں وزیر دفاع کی کارکردگی اس قابل بھی نہیں کہ ان کا شمار دس عدد اچھے وزراء میں کیا جائے تو یہ باقاعدہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم اپنے وزیر دفاع سے کیسی کارکردگی چاہتے تھے جس کا مظاہرہ پرویز خٹک نہ کر سکے؟ نیز یہ کہ پرویز خٹک صاحب کو بطور وزیر دفاع کیا کچھ کرنا چاہیے تا کہ اگلی مرتبہ انہیں بھی ایک سند عطا کی جا سکے؟
ابلاغ کی دنیا ایک بہت بڑا محاذ ہے۔ متحدہ اپوزیشن کی یلغار کے سامنے حکومت کا دفاع کرنا اور اس کارکردگی کے ساتھ حکومت کا دفاع کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ فواد چودھری نے مگر یہ کر دکھایا۔ زیادہ سے زیادہ ان پر یہ تنقید ہو سکتی ہے کہ ان کے اسلوب گفتگو میں گاہے غیر ضروری شدت آ جاتی ہے اور وہ حکومت کا کچھ زیادہ ہی دفاع کر جاتے ہیں لیکن ان پر یہ تنقید تو کوئی نہیں کر سکتا کہ ابلاغ کی دنیا میں حکومتی موقف کو پیش کرنے میں یا حکومت کا دفاع کرنے میں انہوں نے کوئی کمی دکھائی ہو۔ حیرت ہے کہ وہ بھی کارکردگی کی سند ِ فضیلت سے محروم رہے۔
علی محمد خان صاحب کو دیکھ لیجیے۔ ڈھنگ کی انہیں کوئی وزارت نہیں دی گئی تو کم از کم ایک عدد سند تو دے دی جاتی۔ تحریک انصاف کی معدومی کے خطرے سے دوچار فکری شناخت کے وہ حامل ہیں۔ سینیٹ تو مکمل ان کے پاس ہے۔ وزرائے کرام تو وہاں جانا شان کے خلاف سمجھتے ہیں تو سوالات کا سامنا کرنے کو سینیٹ میں ایک علی محمد خان ہی بیٹھے ہوتے ہیں۔ کسی کا جواب دیتے ہیں، کسی پر غصہ کرتے ہیں اور کسی پر بلاوجہ غصہ کرتے ہیں تا کہ پارٹی قیادت یہ نہ کہے کہ تم نے حکومتی مخالفین کے چھکے کیوں نہیں چھڑائے۔
یہ بھی اس قابل نہیں سمجھے گئے کہ ایک بے ضرر سی سند ہی ان کو تھما دی جاتی۔ چنانچہ انہوں نے شکوے کا اظہار بھی کر دیا ہے کہ غیر ذمہ دار وزراء کو جو ایوان میں بھی نہیں آتے سندیں دے دی گئی ہیں۔ اس ایک فقرے کے پیچھے درد کی صورت، وہ سارا کشٹ چھپا ہے جو سینیٹ میں انہیں اٹھانا پڑ رہا ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ وزراء کی کارکردگی جانچنے کا پیمانہ کیا تھا؟ وہ کون سے معیار تھے جن پر وزرائے کرام کی کارکردگی کو پرکھا گیا اور جنہیں نگاہ ناز نے چن لیا ان کا میرٹ کیا تھا اور جو نگاہ ناز سے محروم رہے ان کا قصور کیا تھا؟ عوام کو صرف یہ بتا دینا کافی نہیں کہ یہ دس وزراء میری کابینہ کے رجال کار ہیں۔ عوام یہ بھی تو جانیں کہ وہ کون سی کارکردگی ہے، وہ کون سا معیارِ ناز ہے جس پر مراد سعید تو پہلے نمبر پر ہیں لیکن وزیر خزانہ، وزیر دفاع، وزیر خارجہ اور وزیر اطلاعات کا دور دور تک ذکر نہیں۔
اخباری اطلاعات کے مطابق جن وزراء کو اسناد نہیں دی جانی تھیں، وہ اس تقریب میں شریک ہی نہیں ہوئے۔ گویا خود کابینہ نے اس معیار کو قبول کرنے سے انکار کر دیاہے۔ چنانچہ اب اس معیار، اصول اور انتخاب کی وضاحت مزید ضروری ہو گئی ہے تا کہ عوام نہ سہی، کم از کم کابینہ تو اس مشق سے مطمئن ہو۔
ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے اور وہ جناب وزیر اعظم سے متعلق ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 91کی ذیلی دفعہ ایک کے مطابق وزیر اعظم بھی کابینہ کا حصہ سمجھے جاتے ہیں اور اس کے سربراہ بھی۔ اب اگر کابینہ کے اس اہم ترین رکن کو، جو کابینہ کا سربراہ بھی ہے، کارکردگی کی سند نہیں دی گئی تو کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ وزیر اعظم خود اپنی کارکردگی سے بھی مطمئن نہیں ہیں؟