گوہر قلم
"گوہر قلم انتقال کر گئے "۔ برادرم شعیب شاہد کا پیغام ملا اور دل لہو سے بھر گیا۔
کسی ایک فرد کی موت نہیں تھی، یہ ایک عہد تھا جو تمام ہوا۔ یہ ہمارے خاندان کا آخری درویش تھا جو اگلی منزل کو روانہ ہو گیا۔ یہ ہماری محفلوں کی جان تھا۔ جاڑے کی ٹھٹھرتی راتوں میں، جب گائوں کے سارے راستے دھند سے بھر جائیں گے اور آگ کے الائو کے گرد محفل جمے گی تب پتا چلے گا ہم کسے گنوا آئے۔ یہ اگر درست ہے کہ فخر ہوتا ہے قبیلے کا سدا ایک ہی شخص، تو جان لیجیے ہمارا فخر لاہور میں دفن ہو چکا۔
گوہر قلم پاکستان کی پہچان تھے۔ فیصل مسجد کے مرکزی ہال میں تیس بڑے شو کیسوں میں سجے قرآن کریم کے تیس پارے ان کے فن کا شاہکار ہیں۔ ان تیس پاروں کا وزن چالیس من ہے۔ یہ قرآن پاک 406 رسم الخط میں لکھا گیا ہے۔ روایت ہے کہ چودہ سو سالہ تاریخ میں جس جس رسم الخط میں کبھی کسی نے قرآن لکھا، گوہر قلم نے ہر اس رسم الخط کو یہاں جمع کر دیا۔
خطِ اجارہ، خطِ تعلیق، خطِ ثلث، خطِ ثلث جدید، خطِ دیوانی جدید، خطِ دیوانی منقش، خطِ دیوانی قدیم، خطِ رقاع، خطِ ریحانی، خطِ شکستہ، خطِ شجردار، خطِ عمارتی، خطِ غبار، خطِ طغرا، خطِ طغرا قدیم، خطِ کوفی قدیم، خطِ کوفی جدید، خطِ کوفی منقش، خطِ محقق، خطِ مغربی، خطِ ماہی، خطِ مجموعہ، خطِ نسخ اور جانے کون کون سے رسم الخط اس میں شامل ہیں۔ خطاطی اور عشق کے اس شاہکار کو عجائب القرآن کہا جاتا ہے۔ عجائب القرآن ہی کے اعتراف میں انہیں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی عطا کیا گیا۔ حضرت علی ہجویری ؒ گنج بخش کے دربار میں لکھی سورہ رحمٰن اور خط نستعلیق میں لکھا درود تاج بھی گوہر قلم کے حسن خطاطی کا ایک نادر نمونہ ہے۔
گوہر قلم اپنے مداحوں کو سوگوارچھوڑ گئے اور ان کے فن کے قدر دان اداس ہیں۔ میرا دکھ مگر اور ہے۔ کسی بین الاقوامی شہرت یافتہ خطاط کو نہیں، میں تو اس " پتریر" کو رو رہا ہوں جس جیسا اب دورتک کوئی نظر نہیں آ رہا۔ یہ ایک ہی جواں بخت تھا جو قبیلے میں سب کا سانجھا تھا۔ اس کا دل کینے اور حسد سے پاک تھا۔ وہ سراپا خیر تھا۔ خیر خواہ ہوں یا بد خواہ، وہ سب کے لیے خیر تھا۔ جس نے اچھا کیا اس کا بھی بھلا، جس نے برا کیا اس کا بھی بھلا۔ ایک معصوم سی مسکراہٹ ہر وقت ہمراہ لیے پھرتا تھا۔ وقت نے بہت کروٹیں بدلیں لیکن اس سے اس کی مسکراہٹ نہ چھین سکا۔ جس نے بھی اسے دیکھا اور جس حال میں دیکھا، مسکراتے ہوئے دیکھا۔ وہ ایک درویش خدا مست تھا۔
محفل آرائی اس پر ختم تھی۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھا۔ بزرگوں کی محفل میں ہوتا تھا تو بزرگ ہوتا تھا اور بچوں کی محفل میں بچہ ہوتا تھا۔ ایسے حسن ظرافت سے مالا مال تھا کہ تیس پینتیس کزنز کی محفل میں جہاں ایک سے بڑھ کر ایک حضرت ہو، وہ جب کسی پر فقرہ اچھال دیتا تھا تو یہ اس محفل کا مقطع ہو تا تھا۔ کسی میں پھر دم نہیں ہوتا تھا کہ مصرعہ اٹھا سکے۔ اپنے فن میں، اپنے قبیلے میں اور اپنی محفلوں میں، وہ ایک گوہر تھا۔
گائوں سے جا نے والوں کو مصروفیات جکڑ لیتی ہیں اور بتدریج گائوں سے ان کا رشتہ کمزور ہوتا جاتا ہے۔ لیکن اس شخص کا معاملہ عجب تھا۔ خوشی غمی کا کوئی موقع ایسا نہ تھا جہاں یہ نہ پہنچا ہو۔ یہ ایک درویش تھا۔ تکلفات اور نمودو نمائش سے دور اپنی زمین سے جڑا ایک سادہ اور بے ریا شخص۔ اس درویش کی محفل میں آدمی کی عزت اس کے مرتبے سے نہیں اس کی آدمیت سے ہوتی تھی۔ وہ محبتوں کا سفیر تھا اور سادگی کا استعارہ۔
اے جناب اور اے حضور۔۔۔۔ دو ہی فقروں میں گوہر قلم نے زندگی بتا دی۔ جب وہ خوش ہوتے تھے تو انداز تخاطب ہوتا تھا: اے جناب۔ اور جب خفا ہو جاتے یا شکوہ کرنا مقصود ہوتا تو کہتے: اے حضور۔ پچھلی سردیوں کی بات ہے ان کی کال آئی " اے حضور میں آپ کے شہر میں ہوں "۔ میں جان گیا طبیعت میں جلال غالب ہے۔ عرض کی " اے حضور آپ بتا کر آتے اور آپ کی تشریف آوری کا مجھے علم ہوتا تو میں قدم بوسی کو آتا نا"۔ مسکرائے اور کہا: اے جناب اب آ جائیے۔ حضور سے جناب کا مرحلہ ایک ہی جست میں طے ہو جانے کا مطلب تھا درویش کے مزاج پر اب جمال غالب آ چکا۔
وہ اکادمی ادبیات میں ٹھہرے ہوئے تھے، میں انہیں اپنے گھر لے آیا۔ ان کے بیٹے ظاہر بھی ان کے ساتھ تھے۔ بہت دیر ہم نے باتیں کیں۔ گائوں کی، کزنز کی، بزرگوں کی، سیاست کی۔ ایک پہر بیت گیا۔ یہ میری ان سے آخری ملاقات تھی۔ کسے معلوم تھا وہ میرے گھر پہلی دفعہ آئے تو الوداعی ملاقات کو آئے تھے۔
ایک بار اسلام آباد آئے تو میرے لیے ایک فن پارہ تحفے میں لائے۔" اے جناب یہ بہت خاص چیز لایا ہوں میں "۔ میں نے شرارت کی کہ اتنی خاص بھی نہیں ہے۔ بس ایسے ہی ہے جیسے سمندر کسی پیاسے کو شبنم عطا کر دے۔ بہت ہنسے، اور کہنے لگے: اے حضور، اے نا معقول انسان ابھی تو تم آدھے منہ سے کہتے ہو اور فن پارہ پہنچ جاتا ہے۔ اس فن پارے کو اپنے پاس رکھو، جب گوہر قلم نہیں رہے گا تب تمہیں معلوم ہو گا یہ فن پارہ کیا تھا۔
رات میں نے یہی فن پارہ اٹھا کر گود میں رکھا تواس احساس سے آنکھیں برسات ہو گئیں کہ یہ فن پارہ اب نوادرات میں شامل ہو چکا تھا۔ اب یہاں کوئی ایسا گوہر موجود نہیں جو ایسا شاہکار تخلیق کر سکے۔ معین بھائی (معین نظامی) نے ٹھیک لکھا ہے:" کبھی کبھی دل پر اداسی کی بہت سخت گرہ لگ جاتی ہے۔ شاید دل ہی سارے کا سارا گرہ بن جاتا ہے"۔
ایسے تو موت کا دکھ ہی کم نہیں ہوتالیکن جب بیماری سے پہلے جنازے کی خبر پہنچ جائےکیفی اعظمی نے کہا تھا:
رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے تو جاتا نہیں کوئی