Wednesday, 24 April 2024
  1.  Home/
  2. Ashraf Sharif/
  3. Janab Wazir e Azam Sports Economics Layein

Janab Wazir e Azam Sports Economics Layein

جناب وزیر اعظم !سپورٹس اکنامکس لائیں

شاید ہم میں سے کچھ کو بے اصول سیاست اور توڑ پھوڑ، جلائو گھیرائو سے دلچسپی نہ ہو۔ جو ایسے ہیں ان کے لیے ممدوح محمد حسن ایلسبئے کی کہانی دلچسپی کا باعث ہو سکتی ہے۔ ممدوح محمد حسن کو دنیا بگ ریمے کے نام سے جانتی ہے۔ چند روز ہوئے باڈی بلڈنگ کا سب سے بڑا ٹائٹل مسٹر اولمپیا دوسری بار جیتا۔ یاد رہے مسٹر یونیورس اور مسٹر ورلڈ اس سے چھوٹے مقابلے ہیں۔ ممدوح محمد حسن مصری ہیں اور دنیا کے پہلے مسلمان ہیں جو مسٹر اولمپیا بنے۔ ان سے پہلے محمد مقاوی مرحوم، نصر السنوبتی ان مقابلوں میں نمایاں پوزیشن لیتے رہے۔ رواں برس اس لحاظ سے اہم رہا کہ مسٹر اولمپیا میں تیسری پوزیشن ایرانی باڈی بلڈر چوپان نے حاصل کی۔

ممدوح محمد حسن کی عمر 37 سال ہے۔ پیشے کے اعتبار سے مچھلی فروش خاندان کے ممدوح محمد حسن کو مسٹر اولمپیا مقابلوں کی تیاری کے لیے بھاری رقم کی ضرورت تھی۔ ممدوح محمد حسن کے خاندان نے ان کی خاطر اپنی کئی ضروریات کو روکے رکھا۔ مصر کی بڑی کمپنیوں نائل ایف ایم، ایجپٹس نمبر ون فار ہٹ میوزک وغیرہ نے ان کی ٹریننگ اور خوراک کے اخراجات اٹھائے۔ مسٹر اولمپیا کا ٹائٹل ایسے ہی ہے جیسے باکسنگ میں ہیوی ویٹ، ٹینس میں گرانڈ سلام اور کرکٹ میں ورلڈ کپ۔

ممدوح محمد حسن کفرالشیخ کے علاقے میں پیدا ہوئے۔ خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ شروع میں ماہی گیری کا کام کیا۔ اس دوران انہیں کویت جانے کا موقع ملا۔ کویت میں انہوں نے ورزش شروع کی۔ جلد ہی لوگ ان کے جسم کا سائز اور کٹ دیکھ کر انہیں سراہنے لگے۔ کویت میں کئی دوستوں نے ان کی مدد کی۔ اپنے بے انتہا شوق اور دوستوں کی مالی مدد کے طفیل ممدوح محمد حسن ورزش شروع کرنے کے صرف 3 سال بعد 2012ء میں کویت سٹی کے سب سے بڑے باڈی بلڈنگ ٹائٹل کو جیتنے میں کامیاب ہو گئے۔ 2013ء میں وہ انٹرنیشنل فیڈریشن آف باڈی بلڈنگ کے پروفیشنل کھلاڑی کے طور پر نیویارک میں سامنے آئے۔

یہ مقابلہ انہوں نے جیت لیا۔ اس سفر میں سب سے بڑی کامیابی انہیں 2020ء میں مسٹر اولمپیا کا ٹائٹل جیت کر ملی۔ اکتوبر 2020ء میں ممدوح محمد حسن کورونا کا شکار ہو گئے۔ خدشہ تھا کہ اگلے برس مسٹر اولمپیا ٹائٹل کا دفاع کرنے میں انہیں مشکل پیش آ سکتی ہے، کورونا کی وجہ سے 2020ء کی یورو پرو باڈی بلڈنگ چیمپئن شپ میں شرکت نہ کر سکے۔ چند ہفتے پہلے جب پاکستان میں ہم انٹرمیڈیٹ اور میٹرک کے نتائج پر حیرت کا اظہار کر رہے تھے ممدوح محمد حسن اپنے ٹائٹل کا دفاع کرنے میں کامیاب ہوئے۔ دنیا کی بڑی کمپنیوں نے انہیں اپنا برانڈ ایمبسڈر بنایا۔ مسٹر اولمپیا کا ٹائٹل ملا اور ساتھ میں چار لاکھ ڈالر کا کیش پرائز۔

پاکستان بھر میں لگ بھگ 10 ہزار جم ہوں گے۔ ہر بڑے شہر میں سال میں دو مقابلے لازمی ہوتے ہیں۔ لاہور، کراچی، پنڈی، اسلام آباد، پشاور اور گوجرانوالہ باڈی بلڈنگ ٹیلنٹ سے بھرے ہوئے ہیں۔ اس کھیل کی ترقی میں حکومتوں کا کردار صفر تھا اور صفر ہے۔ تمام سرمایہ کاری نجی شعبے نے کر رکھی ہے۔ حکومت نے اگر کہیں جم بنایا تو اس کا انتظام اس قدر خراب کہ کوئی جانا پسند نہیں کرتا۔ پچھلی حکومت نے پی ایچ اے کے تحت لاہور میں تین چار جم بنا کر ٹھیکے پر دیئے رکھے لیکن پی ایچ اے میں موجود کرپشن، سیاست اور اقربا پروری کسی جگہ مثبت نتائج نہیں دیتی۔ موجودہ حکومت کھیلوں کی ترقی و فروغ پر سرے سے یقین نہیں رکھتی۔ نتیجہ یہ کہ ہر کھیل اور اس کا میدان بربادیوں کے قصے سنا رہا ہے۔ ان حالات میں ہمارے باڈی بلڈر ہر سال جونیئر مسٹر ایشیا، مسٹر ایشیا تک نمایاں رہتے ہیں لیکن، مسٹر ورلڈ، آرنلڈ کلاسک اور مسٹر اولمپیا جیسے مقابلوں تک آنے میں ہمیں جانے کتنے عشرے لگیں۔

باڈی بلڈنگ اور پہلوانی میں خوراک کا خرچ بہت ہوتا ہے۔ مسٹر پاکستان مقابلوں کی تیاری کے لیے اوسطاً دس سے پندرہ لاکھ لگ جاتے ہیں۔ جو لوگ بین الاقوامی مقابلوں کی تیاری کرتے ہیں انہیں دو تین سال تک بھاری اخراجات کرنا پڑتے ہیں۔ مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب وہ ٹائٹل جیت کر واپس آتے ہیں اور کسی سرکاری ادارے میں بطور کھلاڑی انہیں ملازمت ملتی ہے نہ کوئی مقامی کمپنی ان کو سپانسر شپ دیتی ہے۔ مزید اخراجات کا بوجھ نہ اٹھا پانے کی وجہ سے ایسے باڈی بلڈر کسی جم میں ٹرینر بن جاتے ہیں یا پھر تیس پینتیس لاکھ لگا کر اپنا جم بنا لیتے ہیں۔ کھیلوں کی معیشت ہمارے ہاں پنپ نہیں سکی۔ سیالکوٹ نے کھیلوں کا سامان بنانے میں شہرت ضرور کمائی لیکن ہمارے کارخانہ دار کبھی بین الاقوامی منڈی میں بطور برانڈ ابھرنے میں دلچسپی نہیں لیتے۔ عالمی برانڈ ہم سے سامان تیار کروا کر کروڑوں ڈالر کما رہے ہیں۔ ہمارے لوگ اچھے مزدور کی طرح کام کر رہے ہیں، ہوشیار کاروباری نہیں بن سکے۔

کھیلوں کا شعبہ ملکی معیشت میں کئی طرح سے حصہ ڈالتا ہے۔ یہ روزگار فراہم کرتا ہے، ٹورنامنٹ اور مقابلے زیادہ ہونے سے کاروباری سرگرمیاں بڑھتی ہیں۔ صحت مند سرگرمیوں میں شرکت کے باعث لوگوں کی اوسط صحت مند زندگی بڑھتی ہے، ہم نے قرض کی معیشت، صنعتی اور زرعی بنیادوں پر استوار معاشی پالیسیوں کو موقع دیا۔ تھوڑی گنجائش اگر سپورٹس اکنامکس کے لیے نکال لی جائے تو سیاحت، میڈیا اور صنعت کے شعبوں میں یقینی بہتری آ سکتی ہے۔

سپورٹس سائنسز، فزیکل ایجوکیشن اور سپورٹس میڈیسن کی طرح سپورٹس ٹریڈ اور ٹورنامنٹس کے لیے آسانیاں پیدا کی جانی چاہئیں۔ کھیل صرف مالی فائدے، شہرت اور معاشی پہلو سے اہم نہیں بلکہ ہمارے جیسے بگڑے سماج میں لوگوں کو ہار سے سبق حاصل کرنا، مجاز اتھارٹی کا احترام کرنا، جذبات قابو میں رکھنا، خود پر بھروسہ رکھنا، تحمل اور مل کر کسی مقصد کے لیے کام کرنے کی تربیت دے سکتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اگر ہر چیز کو سب سے زیادہ جاننے کے دعویدار نہ ہوتے تو یہ کالم ان کی خدمت میں پیش کرتا اور عرض کرتا کہ کھیل نے آپ جیسے کتنے کھلاڑیوں کو خوشحالی دی۔ کھیل کی معیشت کو بروئے کار لائیں تا کہ دوسرے بھی خوشحال ہو سکیں۔

Check Also

Dard Dil Ki Qeemat

By Shahzad Malik