Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Asad Ullah Khan/
  3. TTP Se Muzakraat

TTP Se Muzakraat

ٹی ٹی پی سے مذاکرات

تب وزیر اعظم عمران خان نے ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے بارے میں انکشاف نہیں کیا تھالہذا اس حوالے سے کوئی تناظر ہمارے پاس موجود نہیں تھا۔ مگردو ہفتے تک افغانستان میں رہ کرمیں نے یہ محسوس کیا کہ افغان طالبان اپنے اور ٹی ٹی پی میں کوئی فرق نہیں سمجھتے۔ نظریاتی جدوجہد کے اعتبار سے وہ انہیں اپنا ہی حصہ مانتے ہیں اور انکی کامیابی کے خواہش مند رہتے ہیں۔ لیڈر شپ کے خیالات زیادہ معلوم نہیں، گرائونڈ پر کام کرنے والے طالبان سے ہماری اکثر گفتگو رہتی، وہ بے تکلفانہ انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے، اہم عہدوں پر بیٹھی قیادت محتاط تھی۔ لیکن لیڈرشپ کے خیالات اپنے کارکنوں سے زیادہ مختلف کیسے ہو سکتے تھے تبھی شاید انہوں نے پاکستان کو ٹی ٹی پی سے مزمذاکرات کے لیے قائل کیا ہے۔

کئی جگہوں پر ہمیں طالبان کے ساتھ گھنٹوں وقت گزارنے کا موقع ملتا۔ اکثر یہ تب ہوتا جب ہم کسی جیل، تھانے یا گورنر آفس میں اپنے ویڈیو شوٹ کے لیے اجازت کے انتظار میں ہوتے، ایسے میں وہاں ڈیوٹی پر مامور دس بارہ طالبان ہمارے پاس آ بیٹھتے اور اِدھر اُدھر کی باتیں شروع کر دیتے۔ بعض اوقات یہ تعداد اس سے کم یا زیادہ ہوتی۔ باتوں باتوں میں وہ جان بوجھ کر تحریک طالبان پاکستان کا ذکر نکالتے اور ہم سے طرح طرح کے سوال کرنے لگتے۔ ایک مشترک سوال اس طرح کا ہوتا کہ آپ ٹی ٹی پی والوں کو کیوں مارتے ہیں کیا آپ شریعت کا نفاذ نہیں چاہتے۔ اب یہ بحث اتنی پیچیدہ ہے کہ اس سوال کا جواب اتنی سادگی سے نہیں دیا جا سکتا۔

جونہی ہم طور خم کے راستے پاکستان سے افغانستان داخل ہوئے، ہماری دستاویزات دیکھنے کے بعد کچھ طالبان ہمیں بارڈرسے کچھ ہی فاصلے پر بنی ایک عمارت کے کمرے میں اپنے امیر کے پاس لے گئے۔ جو بظاہر بارڈر سے متعلق معاملات کا انچارج معلوم ہوتا تھا۔ اردو نہیں جانتا تھا مگر ہلکی پھلکی انگریزی بول سکتا تھا۔ دستاویزات مکمل ہونے کے باوجود ہمیں بطور خاص اپنے امیر کے پاس لے جانے کا واضح مطلب یہ تھا کہ وہ پاکستانی صحافیوں کے افغانستان داخلے اور کوریج کو خوش دلی سے قبول نہیں کررہے تھے لیکن ذبیح اللہ مجاہد کی طرف سے جاری ہونے والے اجازت نامے کو دیکھنے کے بعد روک بھی نہیں سکتے تھے۔ لہذا طرح طرح کے سوالات کے ذریعے نرم لفظوں میں اپنے شکوے ہم تک پہنچانے کی غنیمت سمجھتے تھے۔ ہم سے پوچھا گیا ہمارے بھائیوں کو آپ کیوں مارتے ہیں، جواب دیا کہ پاکستان بے گناہوں کو نہیں مارتا صرف دہشت گردوں کو مارتا ہے جنہوں نے بہت سے بے گناہوں کا خون بہایا ہے۔ دوسرا سوال یہ تھا کہ بارڈر پر باڑ کیوں لگا دی گئی ہے۔ جواب دیا کہ اپنی سرزمین کو دہشت گردوں سے محفوظ رکھنے کے لیے۔ میں نے دوسرے سوال کو بھی ٹی ٹی پی ہی کے تناظر میں دیکھا کیوں کہ باڑ لگنے سے سب سے زیادہ متاثر ٹی ٹی پی ہی ہے، عام لوگوں کے لیے تو بارڈر پار آنے جانے کی سہولت موجود ہے۔

واپس پاکستان آتے ہوئے میرے ساتھ پشتو بولنے اور سمجھنے والے میرے ساتھی ممتاز بنگش موجود نہیں تھے۔ افغان جانب کی سرحد پر مجھے طالبان کے سوالوں کا جواب دینے میں مشکل پیش آئی تو دو افراد ہماری مدد کو آئے۔ انہوں نے میری دستاویزات دیکھنے کے بعد مجھ سے کچھ سوال کیے اور جلد ہی بے تکلف ہو گئے۔ ان دونوں کا تعلق کالعدم ٹی ٹی پی سے تھا۔ اپنا اپنا تعارف تفصیل سے کرانے کے بعد بتانے لگے کہ کچھ سال سے اپنے خاندان سمیت یہاں سرحدپار منتقل ہو گئے ہیں پاکستان واپس نہیں جا سکتے، اپنے رشتے داروں سے نہیں مل سکتے، خوشی غمی میں شریک نہیں ہو سکتے وغیرہ وغیرہ۔ دونوں کی عمر چالیس اور پینتالیس کے بیچ ہو گی، خوش مزاج تھے، لہجہ نرم تھا، یہی رعایت لے کر میں نے کہا آپ نے کئی ایسے کام کیے جو پاکستانی قوانین کے خلاف تھے، کوئی بھی ملک اپنے قوانین کی خلاف ورزی اور اپنے شہریوں کو مارنے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے۔

جواب میں امریکہ کے ظلم و ستم اور مشرف دور میں سپر پاور کا ساتھ دینے کی مخالفت میں دلائل سامنے آنے لگے۔ ٹی ٹی پی سے تعلق رکھنے والے اس طالب کے ہاتھ میں جوس کا ایک کین تھا جو انہوں نے آدھا پی رکھا تھا، مجھے اصرار کرنے لگے کہ میں بھی پیوں، میں نے شکریہ کے ساتھ انکار کیا تو اصرار کرنے لگے، بہانہ بنایا کہ کورونا کے بعد ایک دوسرے کے منہ کا نہیں پینا چاہیے تو کھلھلا کر ہنسنے لگے جیسے کہہ رہے ہوں کہاں ہے کورونا اور پھر مومن کے جوٹھے میں تو شفا ہے۔ بہرحال مجھے انہوں اپنی میڈیا ٹیم کے نمبرز دیے اور تاکید کی کہ ہمارا موقف بھی ضرور لیا کریں۔ اس دوران امارات اسلامی کے طالبان پاس کھڑے ساری گفتگو سنتے رہے، ٹی ٹی پی کے طالب نے مجھے بتایا کہ ہم سب بھائی ہیں ہم میں کوئی فرق نہیں۔ لہذا یہ واضح تھا کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو اپنا ہی ایک حصہ سمجھتے اور ان کی جدوجہد کوبھی جہاد سے تعبیر کرتے ہیں۔

افغانستان کے پاکستان کے بارے میں رائے کیا ہے اس حوالے سے سوسائٹی میں واضح تقسیم نظر آتی ہے۔ پشتونوں کی رائے مختلف ہے، غیر پشتونوں کی مختلف، پنجشیریوں کی مختلف ہے، غیر پنجشیریوں کی مختلف۔ فارسی بولنے والے ایک الگ رائے رکھتے ہیں جبکہ دیگر زبانیں بولنے والوں کے ہاں عمومی رائے کچھ اور ہے۔ اسی طرح طالبان قیادت کی رائے اور طالبان ورکرز کی رائے میں بھی فرق دکھائی دیتا ہے۔ یہاں تک کہ ہم نے یہ بھی محسوس کیا کہ افغانستان میں خوشحال طبقہ پاکستان کے افغانستان میں کردار کے حوالے سے مختلف رائے رکھتا ہے جبکہ غریب اور متوسط طبقے کی رائے کچھ اور ہے۔ ایسے ہی ہمیں روشن خیال اور رجعت پسند طبقے کی سوچ میں بھی ایک واضح فرق نظر آتاہے۔

پاکستان میں افغانستان کے حوالے سے پوچھا جانے والا ایک عام سوال یہ ہے کہ وہاں پاکستان اور پاکستانیوں کے بارے میں کیا رائے ہے۔ اس سوال کا جواب اوپر والے اقتباس میں باندھی گئی تمہید کی روشنی میں اگلی تحریر میں دینے کی کوشش کروں گا۔

Check Also

Pyara Herry

By Saira Kanwal