عمل کا وقت
افغانستان میں طالبان کی کامیابی کے دعوے داروں کی تعداد کم نہیں ہو رہی۔ ہر کوئی اس کا کریڈٹ لینا چاہتا ہے۔ انگریزی کے مشہورمحاورے کے مطابق کامیابی کے سو وارث پیدا ہوجاتے ہیں جبکہ ناکامی یتیم ہوتی ہے۔ یہ فطری امر ہے کہ جس آدمی نے دو عشروں تک کوئی موقف اپنائے رکھا، جب وہ درست ثابت ہوجائے تو خوشی ہو اور انبساط کی کیفیت میں اس کا اظہار بھی کیا جائے۔ چند دنوں میں یہ فیز ختم ہوجائے گا۔ اگلا مرحلہ جو اہم ترین ہے، وہ شروع ہونے کوہے، یعنی عمل کی دنیا بسانا۔
طالبان کا اصل امتحان اب شروع ہوا ہے۔ سب سے بڑا چیلنج تو حکومت سازی ہے۔ تقدیر نے ان کے سامنے ایسا نقشہ بنا دیا ہے کہ انہیں اپنی حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم کرانے کے لئے وسیع البنیاد حکومت بنانا ہوگی۔ یہ مکھی نگلنا آسان نہیں۔ جن لوگوں کو طالبان بیس برس تک اپنا ہدف قرار دیتے رہے، ان پر سخت تنقید کی، انہیں امریکی گماشتہ قرار دیا، اب انہیں یا ان کے نامزد کردہ افراد کو حکومت میں شامل کرنا کٹھن مرحلہ ہے۔
حامد کرزئی دس سال تک حکمران رہے، طالبان انہیں افغانستان کی خرابیوں کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ اسی طرح عبداللہ عبداللہ ہیں، ممتاز تاجک لیڈر جنہوں نے ماضی کی حکومتوں کو اپنی بھرپور سپورٹ فراہم کی اور ہمیشہ اینٹی طالبان موقف اختیار کیا۔ اب ان دونوں سے طالبان لیڈروں کو ملاقاتیں کرنا پڑ رہی ہیں، نئی حکومت میں ان افراد کی کسی نہ کسی انداز میں نمائندگی بھی متوقع ہے۔ گلبدین حکمت یار کے حوالے سے بھی طالبان میں خاصے تحفظات ہیں۔ گلبدین حکمت یار کو البتہ عبداللہ عبداللہ اور کرزئی پر یہ برتری حاصل ہے کہ وہ امریکیوں کے ساتھی کبھی نہیں رہے اور ٹھیٹھ اسلامی شناخت رکھتے ہیں۔ امکانات ہیں کہ نئے سیٹ اپ میں حکمت یار کو بھی تھوڑا بہت شیئر دیا جائے۔
ازبک اور ہزارہ نمائندگی بھی لازمی ہے۔ اس کے ساتھ بعض معروف وارلارڈز کو اکاموڈیٹ کرنے کی بات بھی ہو رہی ہے۔ ہرات کے اسماعیل خان، بلخ کے عطا نور اور چند ایک دیگر دیگر وارلارڈز کو بھی کسی انداز میں نمائندگی دی جا سکتی ہے۔ بدنام شخصیات کی جگہ ان کے نسبتاً صاف ستھرا امیج رکھنے والے صاحبزادوں کو موقعہ مل سکتا ہے۔ لکھنے اور کہنے میں جس قدر آسان لگ رہا ہے، عملی طور پر ایسا کرنا بہت مشکل ہے۔ طالبان فیلڈ کمانڈروں، لوئر رینک جنگجوئوں اور عام آبادی میں موجود طالبان حامیوں کو مطمئن کرنا پڑے گا۔ یہ لوگ سوال کریں گے کہ ہم نے اور ہمارے ساتھیوں نے اس لئے قربانیاں دیں کہ بیس سال تک امریکہ کا حصہ رہنے والے لوگ طالبان سیٹ اپ کا بھی حصہ بنیں؟ اپنی صفوں اور عوامی حلقوں میں یکسوئی پیدا کرنے کے لئے طالبان قیادت کو ایک واضح اور مضبوط بیانیہ تخلیق کرنا ہوگا۔
طالبان کو ایک بڑا ایڈوانٹیج یہ ہے کہ اس کے لیڈر، کمانڈر، جنگجو اور عام حامی بھی اپنے قائد کے ساتھ شرعی بیعت کے بندھن میں بندھا ہے۔ بیعت ممکن ہے ہمارے سیاسی کلچر میں غیر اہم چیز ہو، ہم لوگ بیعت کو پیری مریدی یا تصوف کی کوئی رسم سمجھتے ہیں۔ شرعی بیعت کی مسلم تاریخ میں بڑی غیر معمولی اہمیت رہی ہے۔ اسلامی تاریخ کی کئی اہم جنگیں بیعت کے معاملے پر ہوئیں۔ ٹھیٹھ مذہبی شعور رکھنے والے اپنی بیعت کو نبھانے، اس کی پابندی کرنے کا غیر معمولی دھیان کرتے ہیں۔ امریکہ اپنے تمام تر قوت، مالی وسائل اور ترغیبات کے باوجود طالبان تحریک کو توڑنے یا تقسیم کرنے میں اسی لئے ناکام رہا کہ ان کے کمانڈر اور جنگجو اپنی بیعت فسخ کرنے یا توڑنے پر تیار نہیں تھے۔ قوی امکانات ہیں کہ طالبان اپنے اسی مضبوط سسٹم اور سپرٹ کی وجہ سے اتحاد قائم رکھیں گے۔ قیادت نئی حکومت سازی کا اعلان کرے گی تو فیلڈ کمانڈروں سے لے کر مفتی صاحبان اورٹاپ سے مڈل اور لوئر رینک تک سب اس کی پابندی کریں۔
طالبان کے سامنے دیگر چیلنجز بھی ہیں۔ پہلا چیلنج تو یہ کہ اگر وسیع البنیاد حکومت بنی تو اسے کامیاب بنایا جائے۔ یہ بھی آسان نہیں۔ انتہائی مختلف سوچ اور ویژن رکھنے والے افراد ایک ساتھ کیسے کام کر سکتے ہیں؟ کچھ لوگ وہ ہیں جنہوں نے پچھلے بیس سال میں افغانستان کا موجودہ سیاسی، جمہوری سیٹ اپ بنایا۔ پارلیمنٹ، سول ادارے، میڈیا، خواتین کی نمائندگی، مخلوط تعلیمی ادارے وغیرہ وغیرہ۔ دوسری طرف طالبان ہیں جو ان میں سے بیشتر چیزوں کو باطل اورغلط سمجھتے ہیں۔ وہ مغربی طرز جمہوریت کو نہیں مانتے، پارلیمنٹ کی بھی موجودہ شکل ان کے لئے قابل قبول نہیں ہوگی۔ ممکن ہے وہ ایرانی طرز کا کوئی سسٹم مستقبل میں بنا لیں، مگر ون پرسن ون ووٹ کی بنیاد پر طالبان کا اپنا وجود ختم ہوجائے گا۔ طالبان اپنے ملکی میڈیا کو پاکستانی ٹیلی ویژن کے باوقار، سادہ انداز میں شائد برداشت کر لیں، اس سے زیادہ ان کے لئے ممکن نہیں ہوگا۔ خواتین کو وہ باہر نکلنے کی اجازت دے دیں گے، برقع کی پابندی نہیں لگائیں گے، سکارف پر اکتفا کر لیں گے، مگر مخلوط تعلیم اور مخلوط ورکنگ کو جائز قرار دینا ان کے لئے آسان نہیں۔ جو سلوک مغل بادشاہ اورنگ زیب نے موسیقی اور موسیقاروں کے ساتھ کیا تھا، وہی اب افغانستان میں ہوگا۔ افغان فنکاروں کو موسیقی کا جنازہ تیار کر لینا چاہیے، اسے دفن بھی گہرائی میں کرنا پڑے گا۔ جب یہ سب ایشوز آئیں گے تو اختلافات پھوٹنا فطری ہیں۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ طالبان اور ان سے مختلف سوچ رکھنے والے اس پل سے کیسے گزرتے ہیں؟
دو معاملات البتہ ایسے ہیں جن پر اتفاق رائے ہوسکتا ہے۔ ملک میں امن وامان قائم کرنا اور کرپشن سے پاک انتظامیہ کی تشکیل۔ امید کرنی چاہیے کہ طالبان کی حکومت میں کرپشن کے حوالے سے زیروٹالرنس ہوگی اور تیز رفتار انصاف کا روایتی قبائلی نظام بھی کام کرے گا۔ لوگوں کے مسائل حل ہوں گے، امن قائم ہوگا تو اس سے بھی کئی چیزیں بہتر ہوجائیں گی۔
ایک بڑا چیلنج ردِ انقلاب کا ہے، طالبان کی مخالف قوتوں کا بڑا حصہ وقتی طور پر خاموش ہوجائے گا، دب جائے گا، مگر وہ ختم نہیں ہوجائیں گے۔ ڈھائی تین لاکھ افغان فوج اب ختم ہوچکی ہے۔ ان کا ایک حصہ ٹرینڈ ہے اور مسلح بھی۔ روایتی فوج کے طور پر جنگ لڑنا اور بات ہے جبکہ چھوٹی موٹی گوریلا کارروئیاں کرنا اور اس کے بعد بھاگ جانا مختلف معاملہ ہے۔ سابق افغان فوجی یہ کام کر سکتے ہیں۔ جس طرح امریکہ کے افغانستان آنے پر شمالی اتحاد چھا گیا تھا اور طالبان غائب ہوگئے، ڈیڈھ دو سال بعد وہ نمودار ہونے لگے۔ ایسا ہی مستقبل میں بھی ہوسکتا ہے۔ طالبان کو ان تمام چیزوں پر نظر رکھنا ہوگی۔
طالبان کے پاکستانی حامیوں کو اب طالبان پر سے نظر ہٹا کر اپنے اندرونی مسائل کی طرف فوکس کرنا ہوگا۔ ٹی ٹی پی کے خلاف طالبان کچھ نہیں کریں گے، یہ انہوں نے واضح کر دیا ہے۔ البتہ وہ انہیں افغان سرزمین کو استعمال نہیں کرنے دیں گے۔ یہ اب ٹی ٹی پی کے لئے ممکن نہیں ہوگا کہ پاکستانی قبائلی علاقوں میں کارروائی کر کے واپس افغانستان جا کر چھپ جائیں۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہمارے قبائلی علاقوں اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں پر دبائو آئے گا۔ ہزاروں ٹی ٹی پی جنگجو افغانستاں میں مقیم تھے، اب وہ واپس لوٹے تو ان کے لئے ہمیں تیار رہنا چاہیے۔ یہی معاملہ بلوچ شدت پسند گروہوں کا ہے۔
ہم میں سے جنہوں نے طالبان کی غیر مشروط حمایت کی، ان میں سے بعض کو جلد ہی بڑے دھچکے سے سامنا کرنا پڑے گاجب طالبان بھی روایتی افغان نیشنلسٹ موقف اختیار کریں گے۔ طالبان نے پاک افغان سرحد پر لگی باڑ پر تنقید کرنا شروع کر دی ہے۔ مختلف حوالوں سے ان کا اختلاف رائے بڑھے گا۔ اس لئے کہ وہ افغان ہیں اور افغان مفادات کا تحفظ کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔ پاکستانیوں کو یہ بات سمجھنا ہوگی۔ ہمیں اپنے اندرونی سسٹم کو مضبوط بنانا ہوگا۔ باڑ کوہر حال میں مکمل بنایا جائے کہ یہی مستقبل کا تقاضا ہے۔ ماضی میں ہم نے اپنے علما، مدارس اور جہادی تنظیموں کو طالبان کے ساتھ بہت زیادہ جڑنے کے مواقع فراہم کئے، ان پر نظر نہیں رکھی۔ وہ غلط حکمت عملی تھی۔ اب پرانی غلطیاں نہیں دہرانی چاہئیں۔ ہمیں اپنے قومی مفادات کو عزیز رکھنا ہوگا۔ طالبان کے ساتھ تعاون کیا جائے، انہیں کامیاب کرانے کی تمام تر کوششیں کی جائیں، مگر ایک اصول یاد رکھیں کہ زیادہ توقعات زیادہ مایوسی لاتی ہیں۔ طالبان اور پاکستان بعض حوالوں سے ایک پیج پر آ سکتے ہیں، تمام چیزوں پر نہیں اور یہ فطری امر ہے۔