Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Amir Khakwani/
  3. 2021 Non Fiction Kitabein Jinho Ne Mutasir Kya (2)

2021 Non Fiction Kitabein Jinho Ne Mutasir Kya (2)

2021: نان فکشن کتابیں جنہوں نے متاثر کیا (2)

ممتاز سکالر، دانشور اور رسک انالسٹ (نکولس)نسیم طالب کے بارے میں دو تین سال پہلے پتہ چلا، تب اس پر کالم بھی لکھا تھا۔ رواں سال نسیم طالب کو نسبتاً بہتر انداز سے سمجھنے کا موقعہ ملا۔ نسیم طالب بنیادی طور پر لبنانی نژادغیر مسلم سکالر ہیں۔ آئوٹ آف باکس سوچتے اور بڑی جرات سے اس کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کی کتاب بلیک سوان (Black Sawan)کو بہت شہرت ملی۔ تیرہ چودہ سال پہلے امریکہ میں شدید اقتصادی مندا پڑا تو لوگوں کو نسیم طالب کی یہ کتاب یاد آئی۔ مشہور برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز نے اس کتاب کو جنگ دوم کے بعد کی دس اہم ترین کتابوں میں شمار کیا۔

اس کی تین چار ملین کاپیاں فروخت ہوئیں، نیویارک ٹائمز کی بیسٹ سیلر لسٹ پر نو ماہ تک یہ موجود رہی۔ نسیم طالب کی کئی کتابیں پی ڈی ایف لنکس کی مدد سے ہاتھ آئیں۔ ایک طرح سے ان کا بہترین کام مل گیا۔ خاص طور سے کئی جلدوں پر مشتمل ان کا کام incertoجس میں بلیک سوان سمیت پانچ نان ٹیکنیکل کتابیں شامل ہیں۔ دل تو چاہتا ہے کہ نسیم طالب کے جادو سے آپ کو متعارف کرانے کے لئے ان کے چند اقوال نقل کئے جائیں، مگر یہ زیادتی ہوگی۔ نسیم طالب کالموں کی سیریز ورنہ کم از کم ایک مکمل کالم کا حقدار ہے۔ اگر کوئی عام روٹین سے ہٹی ہوئی مگر دانش میں ڈوبی خوبصورت تحریر یں پڑھنا چاہتا ہے تونئے سال میں نسیم طالب کو پڑھے۔

جان گرے کی ایک مشہور کتاب ہے" مینز آر فرام مارز، ویمن آر فرام وینس "یعنی مرد مریخ سے ہیں جبکہ عورت سیارہ وینس (زہرہ)سے۔ اس کا اردو ترجمہ ع عورت م مرد کے نام سے ہوچکا ہے، مگر میرا مشورہ اس کتاب کو انگریزی میں پڑھنے کا ہے۔ یہ چند سال پہلے پڑھی تھی اس کتاب کا مکمل ترجمہ بھی اپنے میگزین کے لئے کرایا تھا۔ میرا خیال ہے کہ ہر شادی شدہ جوڑے کو یا شادی کرنے والوں کو یہ کتاب ضرور پڑھنی اور سمجھنی چاہیے۔ مرد اور عورت کی شخصیت میں جو فرق ہے اور دونوں کے سوچنے، سمجھنے اور زندگی گزارنے کے اپنے طور طریقے ہیں، انہیں سمجھنا بہت آسان ہوجاتا ہے۔ میں نے بی اے کی طالبہ اپنی بیٹی کو یہ کتاب پڑھنے کے لئے دے رکھی ہے۔ اپنے خاندان کی کئی نئی دلہنوں کو اس کا مشورہ دیا، دلہا بھی اسے لازمی پڑھیں۔ جان گرے بھی تفصیلی کالم کا متقاضی ہے۔ جان گرے کی بعض اور کتابیں بھی ملیں جو اس بنیادی موضوع سے جڑی ہوئی ہیں۔ زندگی میں مزا (سپائس)واپس لانے کے خواہش مند جان گرے کو پڑھیں۔ زندگی سہل اور خوبصورت لگے گی۔

خوشونت سنگھ میرا آل ٹائم فیورٹ رہا ہے، اس نے بعض فضول کمرشل کتابیں بھی لکھی ہیں، ممکن ہے اپنی فینٹیسیز کو مجسم کرنے کے لئے، خوش ونت کو مگر صرف اسی سے نہیں جانچنا چاہیے۔ اس کا ناول" دلی" شاہکار نہ سمجھا جائے تب بھی اس کے مزے دار اور دلچسپ ہونے سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ مجھے خوش ونت کے کالم پسند ہیں، اس کے کالموں، مضامین کے کئی مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ دو کتابیں اس کی موت کے بعد بھی شائع ہوئیں۔ ایک دن چند گھنٹوں کی محنت کے بعد خوش ونت کی کئی کتابیں ڈائون لوڈ کیں، اس کا مکمل کام پھر بھی نہیں لے سکا، خوش ونت پچیس تیس کتابوں کا مصنف تھا۔ رواں سال کے کئی خوبصورت دن خوش ونت کے تیز، تیکھے، دلکش جملوں سے لطف اٹھانے میں بیتے۔

خوش ونت کی ایک کتاب میں نے اپنے اخبار روزنامہ نائنٹی ٹو نیوز کے سنڈے میگزین کے لئے ترجمہ کرائی۔ یہ اس کے مرنے سے ایک سال پہلے شائع ہوئی، " خوش ونت نامہ، لیسنز آف مائی لائف"۔ اپنی زندگی کانچوڑ چند نکات میں ستانوے سالہ سکھ ادیب نے پیش کیا۔ وہ اردو شاعروں سے متاثر تھا، اقبال کی شکوہ اور جواب شکوہ کا انگریزی میں ترجمہ بھی کیا، غالب اور میر کا دلدادہ تھا، اپنی اس کتاب میں بھی کئی اشعارنقل کئے۔ خوش ونت کی آپ بیتی تو طویل عرصہ پہلے شائع ہوئی، وہ اس کے بعد دو عشروں تک زندہ رہا۔ لکھنے کا عمل بھی جاری رہا اور آپ بیتی کے مختلف ٹکڑے بعد میں پروفائلز، خاکوں، تاثرات، انٹرویوز کی شکل میں بھی آتے رہے۔" ناٹ اے نائس مین ٹو نو " بھی دلچسپ کتاب ہے۔ حمراقریشی سے کی گئی گفتگو کتاب کی صورت میں چھپی، وہ بھی خوب ہے۔

تاریخ خاص کر اسلامی تاریخ ایک بہت دلچسپ اور اتنا ہی حساس موضوع ہے۔ ہماری اولین تاریخ میں کئی ایسے موڑ ہیں جہاں پر میرے جیسے طالب علم چکر ا جاتے ہیں کہ کیا کیا جائے؟ بہت پہلے ایک دانا شخص نے نصیحت کی تھی کہ تاریخ کو اس کے اوریجنل سورسز سے پڑھنا چاہیے، یہ مگر رسکی بھی ہوتا ہے۔ کالج کے زمانے میں تاریخ طبری ذوق شوق سے پڑھی اور ہوش اڑ گئے، بعد میں تاریخ ابن خلدون اور تاریخ ابن کثیر وغیرہ بھی پڑھی۔ طبری کی تاریخ کا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں کمزور، مضبوط، غلط سلط سب روایات اکٹھی کر دی گئی ہیں کہ بعد میں ان پر جرح ہوتی رہے گی، پہلے انہیں جمع تو کر لیا جائے۔ بعض کمزور چیزوں کو پڑھ کر ناپختہ ذہن بھٹک جاتے ہیں۔ تاریخ ہندوستان کے حوالے سے بھی اوریجنل ماخذات میں ضیا الدین برنی کی تاریخ فیروز شاہی دلچسپ لگی، اس میں خاندان غلاماں کی کئی قدآور شخصیات کا تزکرہ ہے، سلطان غیاث الدین بلبن کو سمجھنے کے لئے یہ کتاب مفید ہے، تاریخ فرشتہ ضخیم ہونے کے ساتھ دلچسپ بھی ہے، مگر اس پر بعض اعتراضات کئے جاتے ہیں۔

اسلامی تاریخ کے حوالے سے مشکل اسی سال ایک کتاب پڑھ کر دور ہوئی۔ مولانا اسماعیل ریحان ایک مستند عالم دین ہیں، انہوں نے طویل عرصہ تحقیق کر کے کئی جلدوں پر مشتمل تاریخ امت مسلمہ لکھی ہے۔ اہم کام ہے، مفتی تقی عثمانی صاحب نے اس کتاب پر بڑا اچھا مضمون لکھا ہے۔ ہمارے نوجوان فیس بکی دوستوں میں سے ایک احمد خلیق نے یہ کتاب عاریتاً پڑھنے کے لئے دی۔ سچ تو یہ کہ کتاب کو تنقیدی نظر سے دیکھا، مجھے لگتا تھا کہ تاریخ نگاری ان مولوی صاحب کے بس کی بات نہیں۔ پڑھ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔ ایسا نہیں کہ یہ پرفیکٹ کتاب ہے۔ اس پر تنقید کی گنجائش ہے، مگر مجموعی طور پر خاصا اچھا کام کیا ہے۔

خاص بات یہ کہ انہوں نے بڑے اہم اور حساس موضوعات کا بھی تحقیقی اور عالمانہ انداز میں جائزہ لیا اور بہت سی کمزور تاریخی روایات کو دلائل کے ساتھ رد کیا۔ میرا ارادہ ہے کہ اپنے بچوں کو یہ کتاب پڑھنے پر راغب کروں۔ صحابہ کے باہمی تنازعات اور واقعہ کربلا وغیرہ کے حوالے سے اہل سنت کے معروف علمی موقف کے مختلف پہلوئوں کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ مولانا اسماعیل ریحان کی صلاح الدین ایوبی اور تاریخ افغانستان پر بھی کتابیں ہیں۔

مولانااسماعیل ریحان کے نام سے خیال آیا کہ اس سال علمی ادبی جریدے النخل نے یادگار زمانہ شخصیات کا احوال مطالعہ کے نام سے ایک شاندارنمبر نکالا جو بعد میں کتابی صورت میں شائع ہوا۔ مولانا ابن الحسن عباسی صاحب اس جریدے کے مدیر تھے، وہ یہ شاندار کام کرنے کے بعد بدقسمتی سے انتقال کر گئے، مگر جو ورثہ پیچھے چھوڑ گئے وہ قابل ستائش ہے۔

اس سال زیادہ تر نان فکشن کتابیں انگریزی میں پڑھیں، اس لئے ان کا تذکرہ زیادہ ہوا۔ البتہ ایک بہت اہم کتاب کو انگریزی کے ساتھ اردو ترجمہ میں بھی پڑھنے کا موقعہ ملا۔ یووال نوح ہراری کی کتاب" ہومیو سیپین" کئی سال پہلے شائع ہوئی، مگر ہمارے ہاں پچھلے سال ہی ترجمہ ہوئی۔ اس کتاب نے دنیا بھر میں تہلکہ مچا رکھا ہے۔ اہم کتاب ہے، ا س پر ہمارے ہاں سنجیدہ گفتگو نہیں ہوئی۔ موضوع اتنا بڑا ہے کہ ہم جیسے تو اس کے تجزیے کا بوجھ اٹھانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ بنیادی طور پر یہ ارتقا سے متعلق ہے اور انسانی تہذیب وتمدن کس طرح پروان چڑھا، اس کی تفصیل بیان کی گئی۔ ہمارے ہاں ویسے اکثر لوگ بغیر پڑھے، بغیر سمجھے ارتقا کا نام سنتے ہی تنقید شروع کر دیتے ہیں۔

میں نے تو صرف پروفیسر احمد رفیق اختر ہی کو دیکھا ہے کہ وہ نہ صرف ارتقا کے حامی ہیں بلکہ وہ قرآن سے اس کے دلائل بہم پہنچاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ارتقا کا موضوع مغرب میں بھی ملحدوں نے بہت بگاڑا ہے اور وہ اسے خدا کے عدم وجود اور الہامی مذاہب کے انکار کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ہراری پر اردو میں معیاری تنقید ہونی چاہیے، کم از کم جوابی بیانیہ ہی دیا جائے، مگر علمی انداز میں، جذباتی مذہبی علم الکلام میں ایسا کرنے کا فائدہ نہیں۔

سال کے آخری دنوں میں دو مغربی سکالروں کو پڑھنے کا موقعہ ملا۔ ان میں سے ایک" ڈیمنڈ مورس" زوالوجسٹ ہیں، ان کی کتابیں بھی ارتقا کے حق میں ہیں، مگر مورس کی بعض تھیوریز کو فیمنسٹ لکھاریوں نے بڑی شدت سے رد کیا۔ ڈیسمنڈ مورس کو اس سے کیا فرق پڑنا تھا، وہ اپنے نظریات میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ نیکڈ ایپ (The Naked Ape)ان کی مشہور کتاب ہے، اس کے بعد کئی اور آئی ہیں، باڈی ٹاک، دی ہیومن زو، پیپلزواچنگ وغیرہ۔

ایک اور مغربی رائٹر کی کتابیں اہم لگ رہی ہیں، مگر ابھی انہیں پوری طرح پڑھ نہیں سکا، اس لئے کوئی حتمی رائے نہیں دے سکتا۔ یہ امریکہ جغرافیہ دان اور سکالر جیریڈ ڈائمنڈ (Jared Diamond)ہیں، ان کا کام چونکا دینے والا ہے۔ اللہ ہمت دے تو اگلے سال کی ابتدا میں ڈیسمنڈ مورس کے ساتھ جیریڈ کے کام کو بھی نمٹادیا جائے۔

Check Also

Modi Hai To Mumkin Hai

By Wusat Ullah Khan