خوشحالی کے لیے جدوجہد کریں
مذاکرات مطلب بات چیت، صلح صفائی یا کسی مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک میز پر اکٹھے ہونا۔ مذاکرات نے ہمیشہ انسانی تاریخ میں Safe Hand کا کام کیا۔ ماہرین کے مطابق جب جانور سے "انسان" بننے کا عمل جاری تھا تو انسان نے اپنی بقاء اور سلامتی کے لیے اور اپنے "جھنڈ "(گروہ) کو بچانے کے لیے دوسرے جھنڈ سے مذاکرات ہی کیے تھے۔
تبھی انسان کی آبادی میں اضافہ ہوسکا اور اُس نے ایک کمیونٹی کے طور پر رہنا سیکھا۔ اگر اُس وقت کے "مذاکرات" کامیاب نہ ہوتے تو انسان آج بھی چنیدہ چنیدہ ہوتے اور جنگلوں تک ہی محدود رہتے۔ اب جب کہ جدید دنیا میں بھی تیسری جنگ عظیم کو روکنے کے لیے ہر ممکن طور پر مذاکرات کی راہ ہی اپنائی جاتی ہے تبھی ماضی کی نسبت اقوام اور گروہوں کے درمیان امن ہے۔
ورنہ خدانخواستہ ہر ملک ایک دوسرے کے ساتھ نبرد آزما رہتا جو نوع انسانی کی بقاء کے لیے خطرہ رہتا۔ خیر"مذاکرات " کا لفظ آج کل پاکستان میں بھی کافی زبان زد عام ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں جتنی بھی جنگیں ہوئیں، ان کا خاتمہ ہمیشہ "مذاکرات" پر ہی ہوا، اور اگر ہم لکھی پڑھی تاریخ کے مطابق بات کریں تو سب سے پہلا معاہدہ 7500قبل مسیح میں اسکاٹ لینڈ میں دو قبائل کے درمیان ہوا۔ جب انسان نے پتھروں کے گھروں میں رہنا سیکھ لیا تھا۔ جی ہاں یہ وہی اسکاٹ لینڈ ہے جو کبھی فرانس کے زیرنگیں رہا، تو کبھی برطانیہ کے اور کبھی رومیوں کے۔ اُس کے بعد جدید تاریخ پر نظر ڈالیں تو دنیا کی جتنی بھی بڑی جنگیں ہوئیں وہ مذاکرات کے ذریعے ہی ختم ہوئیں۔
جیسے فرانس اور امریکا کے درمیان جنگ بندی کا تاریخی معاہدہ 1783 میں ہوا۔ یہ معاہدہ آج بھی قائم ہے اور سوا دو سو سال گزرنے کے بعد بھی کوئی جنگ نہیں ہوسکی۔ پھر ملائیشیا سنگا پور کے درمیان1990 میں معاہدہ ہوا، جس سے دونوں ممالک کے درمیان جنگ کے منڈلاتے خطرات ختم ہوگئے، پھر پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے تمام معاہدے اُٹھالیں کہ کس طرح یہ جنگیں ختم ہوئیں۔ پھر 22 ستمبر 1938 کو جرمن آمر اڈولف ہٹلر نے برطانوی وزیراعظم چیمبرلین سے جرمنی میں بون کے قریب گوڈسبرگ میں ہوٹل ڈریسن میں مصافحہ کیا تھا۔
دونوں کی ملاقات کا مقصد اس وقت کے چیکوسلواکیہ کے علاقے سڈیٹنلینڈ میں جرمن قبضے کے حوالے سے مذاکرات کرنا تھا۔ چیمبرلین پراعتماد برطانیہ واپس لوٹے تھے کہ انھوں نے امن قائم کر دیا ہے۔ ایک سال کے بعد ہی دوسری عالمی جنگ چھڑ گئی تھی۔
پھر 23 جولائی 1945 کو امریکی صدر ہیری ٹرومین (درمیان میں) نے برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل (بائیں) اور سوویت رہنما جوزف اسٹالین (دائیں) کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ یہ تینوں رہنما یہ فیصلہ کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے کہ دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر یورپ اور بالخصوص جرمنی کا کیا ہوگا۔ پھر دو جولائی 1964 کو وائٹ ہاؤس، واشنگٹن ڈی سی میں سول رائٹس ایکٹ پر دستخط کرنے کے موقع پر امریکا صدر لینڈن بی جانسن نے ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ جونیئر سے مذاکرات کیے اور ایک لمبی لڑائی کا خاتمہ ہوا۔
اس ایکٹ کے تحت عوامی مقامات اور ملامتوں میں رنگ، نسل، مذہب، جنس اور قومیت کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا خاتمہ ہوا۔ پھر 21فروری 1972 کو پاکستان کے تعاون سے امریکی صدر نکسن کے دورہ چین کو اس کی بڑی سفارتی کامیابی قرار دیا جاتا ہے، ان دو ملکوں کے درمیان تاریخی مذاکرات ہوئے۔ اسی کی بدولت دونوں ممالک کے درمیان 23 سال سے سرد تعلقات کے بعد نکسن کے دورہ چین کے موقعے پر ہوا جس سے ایک نئے تعلق کا آغاز ہوا جس سے برسوں سے جاری عدم اعتماد کی فضا کا خاتمہ ہوا، اور نئی تجارتی راہیں کھلیں۔ پھر نومبر 1985 میں سویت رہنما میخائل گورباچوف اور امریکی صدر رونلڈ ریگن سوئٹرزرلینڈ کے شہر جنیوا میں پہلی بار آمنے سامنے آئے۔
یہ وہ دور تھا جب "مذاکرات " ہی کے ذریعے سرد جنگ کا خاتمہ ہو رہا تھا۔ پھر چار جولائی 1990 کو برطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر نے اے این سی رہنما نیلسن منڈیلا سے لندن میں 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ کی دہلیز پرمذاکرات ہوئے۔ تھیچر نے ایک بار منڈیلا کی اے این سی کو ایک "دہشت گرد تنظیم" قرار دیا تھا۔ پھر 13 ستمبر 1993 کو فلسطینی رہنما یاسر عرفات اور اسرائیلی وزیراعظم رابن نے واشنگٹن ڈی سی میں مذاکرات کیے تھے۔ دونوں رہنماؤں نے امریکی صدر بل کلنٹن کی میزبانی میں اسرائیل اور پی ایل او کے درمیان مشرق وسطی میں قیام امن کا معاہدہ اوسلو اکورڈز پر دستخط کیے تھے۔
آپ پاکستان کو دیکھ لیں 65کی جنگ کے بعد بھی معاہدہ تاشقند ہوا، 71کی جنگ کے بعد بھی معاہدہ شملہ ہوا۔
الغرض یہ حوصلہ ان لوگوں میں ہوتا ہے جو جنگ اور امن میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی، اعلیٰ ترین مقصد حیات اور عوام کے وسیع تر مفاد کو ذاتی خواہشات، تعصبات اور مفاد پر ترجیح دیتے اور اپنے رنج و الم بھول جاتے ہیں۔ بہرکیف مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ریاست سے زیادہ کوئی طاقتور نہیں ہوتا۔ تشدد اور لڑائی نے ہمیشہ شکست کھائی ہے۔ ہر قوم کی زندگی میں ایک وقت آتا ہے جب اسے اپنی غلطیوں کو سدھارنے کا موقع ملتا ہے۔
امریکی انخلا کے بعد پاکستان نے ازسرنو داخلی امن پر توجہ دی ہے۔ جو عناصر بیرونی فنڈز پر سرگرم تھے وہ اپنی موت مر چکے۔ اس لیے پاکستان کے بہترین مفاد میں یہ ہے کہ ہماری حکومت اپنی تمام تر توانائیاں ملک کومسائل کی دلدل سے نکالنے کے لیے استعمال کرے۔