Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Ali Ahmad Dhillon
  3. Jeet Khushi Deti Hai Magar Ye Cricket Mein Hi Kyun?

Jeet Khushi Deti Hai Magar Ye Cricket Mein Hi Kyun?

جیت خوشی دیتی ہے! مگر یہ کرکٹ میں ہی کیوں؟

حالیہ ورلڈ کپ میں کرکٹ ٹیم کی مسلسل فتوحات نے جس انداز میں قوم کو خوشی دی اور مورال بلند کیا، اس کی مثال نہیں ملتی۔ یقینا ملک کے طول وعرض میں پھیلی سرشاری کی کیفیت نے نہال کردیا۔ ایسا نہال کہ ہر پیر وجواں ایسا خوش مدتوں بعد دیکھا۔ میچ نہیں جیسے پاکستان جنگ میں فاتح قرارپایاہو۔ محض ایک کامیابی نے قوم کا اجتماعی مورال اس قدر بلند کیا کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے اس قوم کو خوشی کی کوئی بڑی خبر نہیں ملی۔ مسائل اور پے درپے ناکامیوں اور معاشی مجبوریوں نے ایسا جھکڑا کہ اجتماعی حوصلہ ہی شکستہ ہوگیا۔ لوگ کامیابی کا تصور ہی بھول گئے۔ یعنی فتوحات نے مہنگائی کے ہاتھوں مسائل کا شکار بائیس کروڑ عوام کے چہروں پر خوشیاں بکھیر کر پوری قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا تو وہاں عقل والوں کے لیے بھی بہت سی نشانیاں چھوڑیں کہ اگر سلیکٹرز غیر جانب دار ہوں، میرٹ پہلی ترجیح ہو، ٹیم کی سلیکشن فیورٹ ازم سے بالاتر ہو تو پھر ٹیم کا مورال بھی ہائی ہوتا ہے۔

وہ قومی جذبے سے فتح حاصل کرنے کے لیے جان بھی لڑا دیتی ہے اور کچھ کر گزرنے کی لگن انھیں ہر قیمت پر ڈٹے رہنے پر مائل رکھتی ہے۔ یہی باتیں راقم نے اپنے گزشتہ ماہ کے کالم میں لکھیں کہ ہمیشہ ایسی ٹیم منتخب کی جائے جو کامیابی سے ہمکنار کرے، اور سفارشی کلچر کو نکال باہر کیا جائے تاکہ ٹیم میں کسی قسم کی بدمزگی نہ ہو۔

رمیز راجہ نے آتے ہی ایسا ہی کیا، کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ کامیابی انھی کے قدم چومتی ہے جو خلوص نیت سے آخری گیند تک لڑتے ہیں۔ گرین شرٹس کی میدان میں باڈی لینگوئج سے صاف نظر آرہا تھا کہ وہ کسی سلیکٹر ز کی پیداوار ہیں نہ ہی ان پر کسی قسم کا دباؤ ہے۔

کپتان نے وہی کھلاڑی کھلائے جو باصلاحیت تھے، جن پر اسے پورا اعتماد تھا، میدان میں کسی کوچ کی پرچی آئی نہ ہی سلیکٹرز نے اپنے پسندیدہ کھلاڑی کو حتمی الیون میں شامل کرنے پر دباؤ ڈالا۔ قصہ مختصر کہ کرکٹ اگر چہ ایک کھیل ہے۔ ہار اور جیت اس کا لازمی حصہ ہے لیکن اس کے باوجود جس طرح پوری قوم میں حوصلہ پیدا ہوا۔ لوگوں نے خوشیاں منائیں۔ پاکستان سے محبت کا اظہار کیا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ اس ملک کو مسلسل چھوٹی یا بڑی کامیابیوں کی مسلسل ضرورت ہے۔ بہت سارے میدان ایسے ہیں جہاں پاکستان دوسرے بہت سے ممالک سے آگے ہے۔

خاص طور پر ترقی پذیرممالک کی رہنمائی کرنے کی پوزیشن میں ہے لیکن اس کے باوجود میڈیا پر ان کامیابیوں کا چرچا نہیں ہوتا۔ غیرملکی میڈیا کا خیر ذکر ہی نہیں وہ عمومی طور پر ان پہلوؤں کو زیادہ اجاگر کرتا ہے جو ہماری منفی شبیہ ابھارتے ہیں۔ اس لیے ہمیں کم سے کم ایسی چیزوں کو شو آف کرنا چاہیے! دنیا بھر میں ہنگامے ہوتے ہیں، مگر وہاں حکومتی رٹ بھی دکھائی جاتی ہے، اور حکومت بتاتی ہے کہ وہ بھی کہیں نہ کہیں موجود ہے، ایسا کرنے سے یقینا عوام کا مورال بلند ہوتا ہے اور انھیں حقیقی خوشی حاصل ہوتی ہے۔

لہٰذاحکومت کو آخری ایک سال اور چند ماہ میں کام کرنا چاہیے جیسے آج کل ڈینگی اموات کے ریکارڈ توڑنے میں مصروف ہے، بزدار حکومت ہنگامی بنیادوں پر کام کرے، ہر طرف ایمرجنسی نافذ کردے، ویسے بھی کئی اضافی پراجیکٹس پر حکومت اربوں روپے ضایع کر رہی ہے، جب کہ صرف چند کروڑ روپے استعمال کرکے پورے شہر میں گاڑیوں کے ذریعے سپرے کا اہتمام کرے، یا یہ سب کچھ چھوڑ دیں، پنجاب میں صفائی ستھرائی ہی کو پرانی سطح پر بحال کردیں یا چھوٹے چھوٹے کام جو کئی برسوں سے رکے ہوئے ہیں وہی کروا دیں تو عوام کا مورال نہ صرف بلند ہوگا بلکہ وہ اگلی حکومت کے بارے میں بھی شش و پنج میں مبتلا نہیں ہوں گے۔

پھر حکومت نے جب اعلان کیا کہ کنسٹرکشن شروع کی جائیں، کسی سے نہیں پوچھا جائے گا کہ پیسہ کہاں سے آیا۔ لوگوں نے دھڑا دھڑ عمارتیں کھڑی کرنا شروع کردیں، لیکن اب جو عمارت ایک کروڑ میں تیار ہو رہی تھی اُس پر لاگت دو کروڑ سے بھی زائد ہو چکی ہے، اسی وجہ سے آدھے سے زائد پراجیکٹ التوا کا شکار ہوچکے ہیں اورگزشتہ دو تین ماہ سے کنسٹرکشن انڈسٹری میں بھی کام نہ ہونے کے برابر ہے۔

حکومت اس پر توجہ دے کر بھی عوام کو حقیقی خوشی سے نواز سکتی ہے۔ پھر سیاحت پر حکومت توجہ تو دے رہی ہے مگر یہ ایسے ہی ہے جیسے جنگل میں ناچا مور، ، ، کس نے دیکھایعنی جب تک ہم ملک میں امن وامان قائم نہیں کریں گے تب تک ہم کیسے باہر سے سیاح لاکر اپنا ملک دکھا سکتے ہیں؟ فی الحال تو جو ملک کی شکل پیش کی جاتی رہی ہے اُس کے مطابق گزشتہ چند دنوں سے پورا ملک جام ہے۔ اس طرح کے ماحول میں سرمایہ کار بھاگ جاتے ہیں۔

حتیٰ کہ اپنے دوست ممالک اور بیرون ملک آباد پاکستانی بھی ملکی سفر سے کترانے لگتے ہیں۔ الغرض یہ ساری سرگرمیاں بے وقت ہوجاتی ہیں کیونکہ سیاح صرف ان ہی ممالک کا رخ کرتے ہیں جہاں امن ہوتا ہے۔ سہولتیں ہوتی ہیں۔ خطرات لاحق نہیں ہوتے۔ ماحول دوستانہ ہوتا ہے۔ حکومت ملک میں دوستانہ فضاء قائم کرے، اپوزیشن کو اعتماد میں لے۔ ہر طرف ترقی کی فضاء پیدا کرے، وزیرا عظم اپنے ارد گرد مفاد پرست ٹولے کو نکال باہر پھینکیں۔ اب تک تو وزیرا عظم کو کئی معاملات میں سمجھ بوجھ بھی ہوگئی ہوگی، کہ عوام ذرا سی خوشی میں بھی جھلک پڑتے ہیں۔

اُن کا مورال بلند ہو جاتا ہے اس لیے سارے کام اکٹھے "جیتنے " کے بجائے الگ الگ اور ایک ایک کرکے جیتے جائیں۔ تبھی ہم عوام کو خوشی دے سکتے ہیں ورنہ ہماری خوشی کے لیے صرف کرکٹ رہ گئی ہے یا ہمسایہ ملکوں کے ساتھ سرد جنگ جیسے شغل۔ یا absolutly not سے Why Notتک کا سفر!

Check Also

Hikmat e Amli Ko Tabdeel Kijye

By Rao Manzar Hayat