تبدیلی کا عشق
حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے کسی آنے والے وقت کے تصور کی ہمت نہیں پاتا۔ تاریخ میں ایسے انقلابات کا ذکر پڑھا ہے جب مشتعل عوام نے ہر اس شخص کو پکڑ کر پھانسی پر لٹکا دیا تھا جس کے ہاتھ کی ہتھیلیاں نرم اور ملائم تھیں یعنی جو محنت کش دکھائی نہیں دیتا تھا اور بھوکوں کو کیک کھانے جیسا نادر مشورہ دیتا تھا۔
آج جب لوگ اپنے حکمرانوں کے اثاثوں کی تفصیلات سنتے پڑھتے ہیں اور ان کو خوش و خرم اور مسائل سے بالکل محفوظ زندگی گزارتے دیکھتے ہیں، وہ ان حکمرانوں کو سجی ہوئی میزوں کے گرد بیٹھا دیکھتے ہیں جو تازہ خوشبودارپھولوں کے ڈھیروں سے لدی ہوئی ہوتی ہیں اور میزوں پر ولائتی پانی کی بوتلیں سجی ہوئی ہوتی ہیں، جی ہاں وہ پانی جو عوام کو صاف بھی میسر نہیں، ایسے حکمرانوں کا یہ گروہ جو کسی الیکشن یا کسی دوسرے طریقے سے حکومت میں آجاتا ہے اگر کوئی بات نہیں جانتا تو وہ عوامی مسائل ہیں جو ظاہر ہے کہ کسی پہلی حکومت نے پیداکیے ہوتے ہیں کیونکہ یہ عوام سے ہر وقت یہی بات کہتے رہتے ہیں اور اپنے پیشرو حکمرانوں کو عوام کی ہر مشکل کا ذمے دار ٹھہراتے ہیں چنانچہ وہ اپنا سارا وقت ان سابقہ حکمرانوں کی غلطیوں کی تفصیل میں صرف کر دیتے ہیں۔
چونکہ نیتیں صاف نہیں ہوتیں اس لیے نہ تو پہلے کی کسی غلطی کا ازالہ ہوتا ہے اور نہ عوام کو کسی نئی سہولت کی خوشخبری سنائی جاتی ہے بلکہ مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ عوام صبرو تحمل سے کام لیں اور تکالیف کو برداشت کرنے کی کوشش کریں کیونکہ ان کے ذمے دار وہ حکمران ہیں جو اب نہیں ہیں۔ جو اس وقت حکومت کررہے ہیں وہ بے گناہ ہیں، بے قصور ہیں اور سابقہ حکومت کی غلطیوں کو درست کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
پنجابی کی ایک مثل ہے کہ پیٹ میں روٹی نہ ہو تو سب باتیں کھوٹی ہوتی ہیں، کوئی بات کھری نہیں ہوتی۔ ایک قاری نے فون پر اپنا دکھڑا بتاتے ہوئے کہا کہ آٹے کی قلت بھی ہے اور قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے، گرمی اور حبس کے موسم میں بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ نے زندگی مشکل بنا دی ہے، اپنے قاری کی طرح میں بھی اس لوڈ شیڈنگ کا شکار ہوں جس کا نہ تو کوئی وقت مقرر ہے اور نہ ہی دورانیہ بجلی کے محکمے والوں کا جب دل چاہتا ہے وہ بجلی بند کر دتے ہیں۔
زندگی کی مشکلات میں اضافہ ہی ہورہا ہے، سابقہ حکومت میں ایک مشکل بھری زندگی سے نجات پانے کے لیے اپنے اوپر جن لوگوں کو مسلط کر لیا ہے انھوں نے تو رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے۔ زندگی کے لیے ضروری اور لازمی اشیاء مثلاً آٹا وغیرہ کی قلت تو جو ہے سو ہے اس پر نایابی اور گرانی نے انسانوں کو انسانیت سے دور کر کے حیوانیت تک پہنچا دیا ہے، اب لوگ ان سے نفرت کرنے لگے ہیں جن کے گھر میں دانے ہیں جنھوں نے بجلی پیدا کرنے کے لیے جنریٹر لگا رکھے ہیں اور ٹھنڈی گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں۔
آج کے یہ حالات جن کی وجہ سے نفرت پیدا ہورہی ہے کل یہی نفرت تنگ آمد بجنگ آمد بن جائے گی اور جس پر شک گزرے گا اس کے گھر کچھ ہے اس کو لوٹنے کا پروگرام بنے گا۔ کچھ بعید نہیں کہ عام لوٹ مار شروع ہو جائے۔ کسی ایسے خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں جو زیادہ دور نہیں ہے کیونکہ لوگ اپنی انھی مشکلات کی وجہ سے ملک سے ہی بے زار ہو رہے ہیں جب کہ اس میں کسی ملک کا نہیں اس ملک کے حکمرانوں کا قصور ہے جو اس مالا مال ملک کو اپنی بدانتظامی اور بدعنوانی کی وجہ سے غریب اور محتاج بنا چکے ہیں۔
کسی زمانے میں دمشق میں قحط پڑ گیا تھا۔ شیخ سعدی نے اس قحط کا ذکر کرتے ہوئے ایک خوبصورت شعر کہا تھا جو شاعرانہ انداز میں اس حال کو بیان کرتا ہے۔ اس شعرکا اردو زبان میں کئی بار ترجمہ ہو چکا ہے اور شاید آپ نے پہلے بھی پڑھا ہوگا۔
چناں قحط سالے فقددرد دمشق
یاروں فراموش کردند عشق
کہ دمشق میں ایسا قحط پڑھا کہ یار لوگ عشق تک کو بھول گئے۔ آج وہ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے پسندیدہ اور محبوب سیاسی لیڈروں کو بھول رہے ہیں جن کو اقتدار میں لانے کے لیے ہم نے ووٹ دیے تھے۔ کوئی جتنا بھوکا جتنا پریشان ہے، اتنا ہی حکمرانوں سے نالاں ہے، کوئی دلیل ماننے اور کوئی عذر سننے کو تیار نہیں ہے۔
مہنگائی کی وجہ سے قوت خرید میں زبردست کمی واقع ہو رہی ہے، اس وقت عوام کو جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش وہ دو وقت کی روٹی کا ہے، ان کو کسی تبدیلی وغیرہ سے کوئی غرض نہیں رہی، وہ حقیقت میں گھبرا چکے ہیں اور ان کی گھبراہٹ حکومت ہی دور کر سکتی ہے جس کی پٹاری میں فی الحال مفلوک حال عوام کے لیے سوائے طفل تسلیوں کے لیے کچھ نہیں ہے۔ لہذا مشورہ یہی ہے کہ عوام تبدیلی کے عشق کو بھول جائیں ایسے ہی جیسے دمشق کے لوگ قحط میں عشق بھول گئے تھے۔