مولانا روم
مولانا روم یاد آئے ہیں تو یادوں کا ایک ہجوم امڈا چلا آ رہا ہے، آج بھی انھی یادوں کا ایک سلسلہ پیش خدمت ہے۔ سال تو یاد نہیں اور ضروری بھی نہیں، میں ترکی کے شہر قونیہ میں مقیم تھا جہاں پہنچنے کے لیے ان دنوں بس کے ذریعے استنبول سے دس گھنٹے کا سفر طے کرنا پڑتا تھا۔
سلجوقی حکمرانوں کا آباد کردہ ثقافتی سرگرمیوں سے بھرا پرا یہ شہر مولانا کے حوالے سے معروف ہے۔ قونیہ کی جس گلی سے میں گزر رہا تھا وہ ایک چوک میں جا نکلتی تھی۔ قونیہ کے شوق آوارگی میں اس چوک میں رک کر یہ سوچنے لگ گیا کہ کسی ایسی طرف نکل جائوں جہاں سے اس مسافر کو کچھ حاصل بھی ہو۔ اسی سوچ میں کھڑا تھا کہ ایک ترک نوجوان نے اپنا تعارف کرایا۔ میں نے اپنی تھوڑی بہت انگریزی میں پاکستان اور لاہور کا ذکر کیا تو اس نوجوان نے فوراً اقبال کا نام لیا۔
میں نے نوجوان کو کہا کہ میں مولانا کے مزار پر کئی بار حاضری دے چکا ہوں، اب کسی دوسری جگہ جانا چاہتا ہوں۔ نوجوان نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں جہاں کھڑا ہوں، یہ ایک تاریخی جگہ ہے، مشہور یہ ہے کہ مولانا روم اور ان کے پیرومرشد شمس تبریز کی پہلی ملاقات یہیں ہوئی تھی جو بعد میں تصوف و سلوک کی منزلوں اور تاریخ کا عنوان بن گئی۔ اس اچانک ملاقات نے نہ جانے کیا کچھ معجزے دکھائے اور تصوف و معرفت کی بند راہیں کھول دیں۔
دنیا کے مورخوں نے جن میں ظاہر ہے کہ سلسلہ تصوف کے متلاشیوں کی اکثریت تھی انھوں نے تصوف کی دنیا میں تاریخ کے ایک نئے موضوع کی بنیاد رکھی اور مولانا کی اس ملاقات اور اس دوران ان کی گفتگو اور مباحثے کے بارے میں عالمی سطح پر تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ لکھنے والوں میں جرمن مورخ این میری شمل سر فہرست ہیں۔ شمس تبریز جو ایک درویش اور دیوانہ وار زندگی بسر کرتے تھے مولانا روم جیسے عالم کی زندگی کا ایک حصہ بن گئے۔
شمس ایران کے کسی شہر سے تھے، ان کے مذہبی عقائد کے بارے میں کئی روایات مشہور ہیں لیکن اسلامی تصوف کو ا س فقیر نے اپنے وجود پر طاری کر دیا تھا۔ مولانا جب حسب معمول مدرسے سے درس سے فارغ ہوتے تو شاگرد ان کا خچر ان کی سواری کے لیے لے آتے تھے۔ پرانے زمانوں میں علماء گھوڑوں پر سفرنہیں کرتے تھے کہ اس سے کبریائی پیدا ہوتی ہے یا تو وہ کسی دامانی گدھے پر جو عام گدھوں سے بڑے ہوتے ہیں یا خچر کو سفرکے لیے موزوں سمجھتے تھے۔ مدرسے سے فارغ ہو کر وہ اسی خچر پر سوار ہوتے راستے میں یہی چوک پڑتا تھا جہاں میں اس موجود تھا۔ اسی چوک پر وہ یاد گار ملاقات ہوئی جو تصوف کی دنیا میں یاد گار رہے گی۔
مولانا کے سوانح نگاروں اور ان کے افکار و خیالات کو بیان کرنے والوں نے اس ملاقات کے بارے بہت کچھ لکھا لیکن وہ ان دو کے تعلق کی کیفیت بیان نہ کر سکے۔ یہ عاشق و معشوق کا تعلق تھا۔ ان کے شب و روز کی رفاقت جب کبھی کسی حادثے کا شکار ہوتی تو یہ حادثہ دنیائے تصوف کا رستہ بن گیا۔ ایک دو بار شمس تبریز مولانا کو چھوڑ کر دمشق چلے گئے۔ مولانا تلاش کرنے کے بعدان کے پیچھے دمشق پہنچ گئے اور انھیں اپنے ساتھ قونیہ لے آئے اور وہی دن رات کی ملاقات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ پتہ چلتا ہے کہ قونیہ کے لوگ اور اور مولانا کا مدرسہ ان کے بغیر اجڑ گیا۔
سلجوقی حکمرانوں نے یہ مدرسہ بڑے شوق سے بنایا تھا اور افغانستان کے شہر بلخ سے ایک برگزیدہ عالم کو یہاں لا کر یہ مدرسہ ان کے سپرد کر دیا۔ جلا ل الدین ان کا بیٹا تھا۔ بتاتے ہیں کہ سفر کے دوران ایک رات اپنے وقت کے معروف صوفی کے ہاں بسر کی، صبح کے وقت اس صوفی نے جلال الدین کو بلا کر اس کا سر دونو ںہاتھوں میں تھام لیا، اسے ایک جھٹکا دیا اور رخصت کر دیا۔ قدرت کو اس میں کچھ معجزے دکھانے منظور تھے۔ انھوں نے دیوان شمس تبریز کے نام سے کئی جلدوں میں دیوان مرتب کیا جو فارسی شاعری کا یہ ایک نایاب تحفہ ہے۔
مولانا کی مثنوی معنوی جو "بشنو از نے" سے شروع ہوتی ہے، کتنی ہی داستانیں اور شعر و سخن کے معرکے بیان کرتی ہے۔ میں خوش نصیب ہوں جو اس ہجرے میں بہت دیر تک بیٹھا رہا جہاں کی راتوں میں فارسی شاعری کا یہ معجزہ ظہور پذیر ہوا تھا۔ بڑی بڑی بانسریاں معلوم نہیں انھیں کون سر دیتا ہو گا اور کس میں اتنی سانس ہو تی ہو گی جب ان میں سے آواز درست نکلتی ہو گی۔ تانپورے بھی اور بعض دوسرے اس وقت کے دوسرے ساز بھی یہ سب اس کمرے میں اب تک محفوظ ہیں اور میرے دل و دماغ میں نقش ہیں۔
یہ داستان اتنی طویل ہے اور مولانا کے پیر و مرشد شمس تبریز کے ساتھ مولانا کا تعلق جس حد تک مورخوں نے بیان کیا ہے ایک وجد آفرین داستان ہے اور شمس تبریز کا مزار جو قونیہ میں ہے میرے سامنے رہا ہے۔ شمس تبریز کی وفات کے بارے میں کئی مختلف روائتیں ہیں بہر کیف قونیہ کے کچھ لوگ مولانا سے جدائی برداشت نہیں کر پاتے تھے اور اس کا سبب یہی ایرانی درویش تھا۔