کیا یہی جمہوریت ہے ؟
یہ درست ہے کہ وزیر اعظم عمران خان پاکستان کے ان خوش قسمت انسانوں میں شامل ہیں جنھوں نے جس شعبہ میں قدم رکھا اس میں نیک نامی کمائی اور کامیاب رہے۔ ان کی غیر سیاسی زندگی ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے اور اب سیاسی زندگی میں بھی وہ اپنی غیر سیاسی زندگی کی کمائی کھا رہے ہیں۔
وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد وہ کسی حد تک اس بات پرڈٹے ہوئے ہیں کہ احتساب کا عمل جاری رکھیں گے اور اس میں کسی سے کوئی رو رعایت نہیں ہو گی اس کے لیے وہ اپنے قریبی ساتھیوں کی مثالیں دیتے ہیں جو نیب میں پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ لیکن میں انھیں اتنا خوش نصیب نہیں سمجھتا کہ جب ان کے خلاف اپوزیشن اٹھ کھڑی ہو گی تو وہ اس قدر منتشر ہو گی جس کے لیے اپنے اتحاد کی سربراہی کے لیے کسی ایک شخصیت پر اتفاق رائے پیدا کرنا مشکل ہو جائے گا۔ ایسی بے پیری اپوزیشن بہت ہی قسمت والوں کو ملتی ہے۔
اپوزیشن کا یہ اتحاد جسے پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کا نام دیا گیا ہے ان تمام سابق حکمرانوں کا ایک مشترکہ اتحاد ہے جو ایک دوسرے کو داؤ لگانے کے لیے گھات لگائے بیٹھے ہیں جس کا داؤ زیادہ بہتر ہو گا وہ فتح کی امید رکھ سکتا ہے۔ ان کے اتفاق اور اتحاد کا اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ابھی تک اتحاد کے سربراہ کے چناؤ میں پس و پیش کر رہے ہیں۔
اپوزیشن کے اسی ہنگامے کے دوران اپوزیشن کے چند رہنماؤں کی آرمی چیف سے ملاقات کا احوال بھی بیان کیا جارہا ہے۔ فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا ہے کہ نواز لیگ کے سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے درخواست کر کے آرمی چیف سے دو ملاقاتیں کی۔ جس میں انھوں نے نواز شریف اورمریم نوازکے مقدمات پر بات چیت کی اور اس پر مدد طلب کی۔ افواج پاکستان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ آرمی چیف نے واضح کیا ہے کہ قانونی معاملات عدالتوں میں اور سیاسی معاملات اسمبلی میں ہی حل ہوں گے۔
آرمی چیف نے یہ واضح کر دیا ہے کہ افواج پاکستان ملک کے سیاسی اور عدالتی معاملات میں مداخلت نہیں کرتیں لہذا سیاستدانوں کو اپنے معاملات خود ہی حل کرنا ہوں گے۔ ہماری سیاسی قیادت کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے چور راستے تلاش کرتی ہے اورسیاسی قیادت کا یہ چورراستہ مقتدر حلقوں کی جانب جاتا ہے۔
آرمی چیف سے نواز لیگ کے رہنماؤں کی ملاقات کے حوالے سے نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ نواز شریف کے کسی نمایندے نے آرمی چیف سے ملاقات نہیں کی اپنے چچا میاں شہباز شریف کو وفاداری کی سند دیتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ شہباز شریف بہت وفادار بھائی ہیں وہ کبھی نواز لیگ سے علیحدہ نہیں ہوں گے۔
شہباز شریف کے متعلق محترمہ مریم نواز کی بات بالکل درست ہے وہ اپنے بھائی میاں نواز شریف سے کبھی علیحدہ نہیں ہوں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ نواز لیگ پارٹی نواز شریف تک محدود ہے اور پارٹی کے اندر کسی محاذ آرائی کی گنجائش نہیں جو کوئی بھی نواز لیگ سے علیحدہ ہو گا اس کی سیاسی شناخت ختم ہو جائے گی۔
اصل بات یہ ہے کہ میاں شہباز شریف کی صلح جو شخصیت، مفاہمتی کردار اور مقتدر حلقوں کی جانب جھکاؤ آہستہ آہستہ سب کی سمجھ میں آرہا ہے، میاں نواز شریف کھل کر مقتدر حلقوں کی مخالفت کرتے ہیں جب کہ شہباز شریف بڑے بھائی کے ناپسندیدہ الفاظ پر مرہم رکھتے ہوئے مقتدرحلقوں کو اپنی حمایت کا یقین دلاتے ہیں۔
ایک ہی پارٹی کے دو رہنماؤں کا متضاد بیانیہ سمجھ سے بالاتر اور شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے کہ پارٹی کے صف اول کے دو رہنماؤں کے رویے میں تضاد کیوں ہے۔ دوسری جانب حکومتی وزیر شیخ رشید کا کہنا ہے کہ آرمی چیف سے ایک ملاقات میں شہباز شریف اور میں ایک ہی ٹیبل پر بیٹھے تھے۔
آل پارٹیز کانفرنس میں نواز شریف کی تقریر کی بازگشت ابھی تازہ تھی جس میں انھوں نے عمران خان پر تنقید کے بجائے ان کو اقتدار کی مسند پر بٹھانے والوں سے سمجھوتہ نہ کرنے کی بات کی تھی ان کا واضح اشارہ افواج پاکستان کی جانب تھا۔
ابھی ان کی تقریر پر تبصرے جاری تھے کہ ان کی جماعت کے سرکردہ لیڈروں احسن اقبال، محمد زبیر اور خواجہ آصف کی فوجی سربراہ سے ملاقات کی خبر نے سیاسی میدان میں ہلچل مچا دی ہے اور عوام کویہ سوچنے پر مجبور کر دیاہے کہ نواز شریف کا اصل بیانیہ کیا ہے۔ گو کہ مریم نواز نے نواز شریف کے کسی نمایندے کی ملاقات کی تردید کی ہے لیکن نواز لیگ کے وہ رہنما جنھوں نے فوجی قیادت سے ملاقات کی وہ اس کی خود تصدیق کر رہے ہیں۔ بقول شاعر ؎
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
ایک طرف اپوزیشن کا اتحاداپنی کمر کس رہا ہے تو دوسری جانب اپوزیشن کی سرکردہ جماعتوں کے رہنما فوج کی حمایت اور رہنمائی حاصل کرنے کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
افواج پاکستان ایک منظم ادارہ ہے جو مخصوص قواعد و ضوابط کے تحت اپنے فرائض سرانجام دیتا ہے۔ اس کے سربراہ سے کسی بھی معاملے پر ملاقات کرنے کے لیے پیشگی وقت طے کرنا پڑتا ہے اور جب معاملہ سیاستدانوں کا ہو تو ملاقات کے لیے اس میں دو طرفہ رضا مندی کا عنصر بھی شامل ہو جاتا ہے۔
اگر نئے صوبے گلگت بلتستان کے سیاسی اور انتظامی معاملات کی بات ہے تو ایسے معاملات کے لیے سب سے بڑا ادارہ پارلیمان کا ہے جہاں پر قومی نوعیت کے معاملات زیر بحث آنے چاہئیں اور اگر ضروری ہو تو اس میں فوج کا نمایندہ بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال نظریاتی سیاستدانوں نے جمہوریت کا جو لبادہ اوڑھ رکھا ہے اس کا پردہ چاک ہو کر عوام کے سامنے آرہا ہے۔
پاکستان کا عام شہری آج تک کسی جمہوریت کا مطلب نہیں سمجھ سکا اس کے جمہوری رہنماؤں نے اسے جمہوریت کا مطلب سمجھنے کی مہلت ہی نہیں دی ہے اسے اس قدر لاتعداد مسائل میں الجھا دیا گیا ہے کہ جمہوریت کا لفظ سنتے ہی اس کی زہریلی ہنسی چھوٹ جاتی ہے اور وہ کہتا ہے کہ اگر یہی جمہوریت ہے تو پھر اس سے معاف ہی رکھا جائے۔