فیصلہ ہو چکا ہے
جب سے سیاسی میدان میں ہلچل شروع ہوئی ہے، اپوزیشن نے پر پرزے نکالنے شروع کیے ہیں۔ ہم کالم نویسوں کے قاری بھی جاگ اٹھے ہیں۔
ایک بزرگ قاری گائوں سے کسی کام کے لیے لاہور پہنچے ہیں اور مجھے باخبر سمجھتے ہوئے کہنے لگے کہ ایک بات میری سمجھ میں نہیں آ رہی کہ کیا وجہ ہے کہ ضروریات زندگی کی جو قیمت آج سے کچھ عرصہ قبل تھی و ہ یکایک بڑھنی کیوں شروع ہو گئی ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ کہنے لگے کہ تم اخبار والے سنا ہے حکمرانوں اور حکومت کو جانتے ہو، کچھ بتائو کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ وہ کون ہے جو ہماری ہنستی بستی زندگیوں میں ہماری برداشت سے باہر بے چینی پیدا کر رہا ہے۔ اس کا انجام کیا ہو گا۔
گزشتہ برس ہمارے کھیتوں نے ہماری ضروریات سے زیادہ گندم پیدا کی، چاول کی پیداوار بھی پہلے سے بڑھ گئی، دوسری فصلیں بھی اچھی ہو رہی ہیں۔ ہم کاشتکاروں نے اس ملک کو سنبھالنے اور اسے باعزت بنانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی اور اپنی کوششوں میں کامیاب رہے ہیں۔ اگر آج کے زمانے میں روٹی کپڑا اور مکان ہی خوشحالی کا نام ہے تو یہ ہمارے پاس اپنا موجود ہے، پھر کیا ہے کہ ہمارے چہروں پر خوشی نہیں ہے۔ خوشحالی ہم سے دور کیوں ہے اور ہم اتنا کچھ رکھتے ہوئے مقروض اور بے عزت کیوں ہیں۔
کاشتکاروں کی طرح ہماری فوج نے بھی اپنی ذمے داری نبھاتے ہوئے ملک میں امن و امان قائم کر دیا ہے۔ آئے روز کے بم دھماکوں کا جو خوف اس قوم پر طاری تھا اس سے ہم نکل آئے ہیں، پھر وہ کون سا سایہ ہے جو ہماری جان چھوڑنے کو تیار نہیں۔ ان بزرگ کا یہ کہنا ہے کہ مجھے اپنے اس سوال کا جواب چاہیے، وہ تم دو یا تمہارے حکمران کہ ہم گائوں کے رہنے والے یہ سوال تو کر سکتے ہیں لیکن ان سوالوں کے مشکل جواب ہماری سمجھ میں نہیں آتے۔
یہ بزرگ کاشتکار جو دنیا بھر کی خبریں ریڈیو سے اور اب ٹیلی ویژن سے دیکھتے اور سنتے ہیں اور دنیا بھر کے حالات سے باخبر رہتے ہیں۔ ان کے پاس دیہات کی صاف ستھری دانش بھی ہے اور اس کی نگاہوں نے انگریز کا زمانہ بھی دیکھا ہے۔ پاکستان کو بنتے دیکھا ہے، اسے ٹوٹتے دیکھا ہے، اسے آباد سے برباد ہوتے دیکھا ہے، بہت کچھ دیکھا ہے۔ تاریخ کا یہ عہد اس نے بچشم خود دیکھا ہے۔ عمر بھر رزق حلال کھایا ہے، صرف ایک خاتون کے ساتھ زندگی بسر کی ہے اور کسی کبیرہ گناہ کا اس کی معلوم دیہاتی زندگی میں گزر نہیں ہوا۔
کسی قرابت دار کو اس سے کوئی شکوہ شکایت نہیں ہے۔ وہ پاکستان کا ایک آئیڈیل شہری ہے جس نے اس ملک سے لیا کچھ نہیں دیا بہت کچھ ہے۔ کوئی الاٹمنٹ، کوئی بینک قرضہ، کوئی رعایت اس کے نام پر نہیں ہے۔ یوں وہ ایک سخی اور فیاض شخص ہے جو زندگی بھر دیتا رہا ہے۔ اس کی محنت اور اس کی پیداوار اور اولاد سب اس ملک کے لیے وقف رہی ہے۔ نمازی ہے اور کبھی روزہ نہیں چھوڑاہے۔ میں اس سادہ غذا کھانے والے اور سادہ لباس پہننے والے با صفا پاکستانی کی مثالی زندگی الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ ایسے شخص کے سوالات سن کر میں اس کی طرف دیکھتا رہ جاتا ہوں۔ میرے پاس اس کے سوالات کا کوئی جواب نہیں ہے۔
اس کا جواب مجھے ایک صوفی نے دیا تھا، انھوں نے فرمایا تھا اس ملک کے حکمران طبقے کے خلاف ان تمام لوگوں کے خلاف جو اس ملک کے آج تک حکمران رہے ہیں، ایک فیصلہ ہو چکا ہے جس میں سب کو سزا سنا دی گئی ہے لیکن ابھی تک اس پر عمل نہیں ہوا، یہ کب ہو گا اس کا وقت کسی کو معلوم نہیں۔ سوائے اس ذات باری کے وہی اپنے فیصلوں کی حکمت جانتا ہے اور وہی اس کے نفاذ کا صحیح وقت بھی جانتا ہے۔ اس صوفی نے فرمایا تھا کہ اس ملک کی زمینوں پر چند لاکھ لوگوں کا خون بھی بہتا ہوا دیکھ رہا ہوں اور ہم نے اس کا بعد میں مشاہدہ بھی کیا۔ ان لوگوں کی گفتگو جو تفصیل سے بھی ہوئی اور کبھی الفاظ سے زیادہ تاثرات اور آواز کی لرزش سے اس کا درج کرنا ضروری نہیں ہے لیکن یہ ان لوگوں کی باتیں ہیں جن کی ایک اپنی سائنس اور توجیہات ہیں۔
ہم لوگ اس سائنس سے بھی نا آشنا ہیں اور حالات کے تجزیہ کے اس روحانی انداز سے بھی بے خبر ہیں۔ ہمیں تو ظاہر کو دیکھنا ہے اور ظاہر پر ہی کوئی فیصلہ دینا ہے۔ صاحب کشف لوگ ماضی حال اور مستقبل کی جو تصویر دیکھتے ہیں وہ ہمیں دکھائی نہیں دیتی۔ اس لیے ہم ان کی گفتگو سن سکتے ہیں اس کے جواب میں خاموش رہ سکتے ہیں مگر کسی فیصلے پر نہیں پہنچ سکتے۔
ہمارے پاس جو علم ہے وہ ہماری ظاہری آنکھ کا دیکھا ہوا ہے۔ ہم باطن کو نہیں جانتے لیکن یہ دیکھ رہے ہیں کہ کچھ لوگ مسلسل لوٹتے چلے آ رہے ہیں اور یہ بالکل غیر منطقی بات ہے کہ لوٹنے والے ڈاکے ڈالنے والے، زبردستی چھین لینے والے، سدا محفوظ اور سزا سے بچے رہیں۔ نہ اس دنیا کی ظاہری عدالت میں کبھی ایسا ہوا ہے اور نہ ہی اللہ کی یہ سنت ہے کہ وہ اپنی زمین کو فساد سے بھرا ہوا دیکھتا رہے اور اپنی مخلوق کی مظلومیت اور فریاد کو نہ سنے۔"ان جھٹلانے والے خوشحال لوگوں سے نمٹنے کا کام تم مجھ پر چھوڑ دو اور انھیں ذرا کچھ دیر اسی حالت پر رہنے دو"۔ (سورۃ مزمل)