احتساب کی حقیقت
دوبرس قبل انتخابی مہم کے دوران وزیر اعظم عمران خان کا زور اس بات پر تھا کہ وہ قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے اور جنہوں نے یہ لوٹ مار کی ہے ان کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا۔
اس کے بارے میں وہ بڑے زور شور سے گرجتے برستے رہے، ان کی تقریریں عوام کے دلوں میں اتر جاتی تھیں کیونکہ جو لیڈر بھی عوام کے دل کی بات کرتا ہے عوام اسے پسند کرتے ہیں اور اس کے لیے اپنا تن من دھن قربان کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں، کچھ ایسا ہی معاملہ عمران خان کے ساتھ بھی ہوا اور عوام نے الیکشن میں ان کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے ان کو اپنا وزیر اعظم منتخب کر لیا۔ جس کے بارے میں اپوزیشن یہ نعرہ لگاتی ہے کہ وہ منتخب نہیں ہوئے بلکہ ان کو مقتدر حلقوں نے سلیکٹ کیا ہے لیکن حقیقت حال یہی ہے کہ عمران خان کو عوام کی بھر پورتائید اورحمایت حاصل تھی اور وہ ان کو اپنا وزیر اعظم دیکھنا چاہتے تھے جس میں وہ بالآخر کامیاب بھی ہو گئے جس کے پیچھے احتساب کے نعرے کی طاقت بھی تھی۔
پاکستان میں احتساب کا سلسلہ گزشتہ کئی حکومتوں سے جاری ہے۔ اینٹی کرپشن کے محکمہ سے لے کر انسداد رشوت ستانی اور وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کے معائنہ کمیشن بھی یہی کام کرتے رہے ہیں لیکن ان کی کارکردگی کا حال سب کے سامنے ہے۔ ملازمین کا ایک جم غفیر تو موجود ہے لیکن کارکردگی افسوسناک رہی ہے۔ میاں نواز شریف نے ان محکموں سے ہٹ کر ایک نئے محکمہ کی داغ بیل ڈالی اور اسے احتساب بیورو کا نام دیا گیا جس کے پہلے سربراہ سیف الرحمن تھے جنہوں نے اپنی نامزدگی کے بعد بلامبالغہ کئی کارنامے سر انجام دیے، بیرون ملک پاکستانی سیاستدانوں کی دولت اور بڑے افسروں کی جائیدادوں کا کھوج لگایا۔
اس زمانے میں ان کی کارکردگی دیکھتے ہوئے تعجب ہوتا تھا کہ انھوں نے محدود وسائل کے ساتھ یہ کام کیسے کر لیا لیکن خرابی یہ کی کہ جن لوگوں کو انھوں نے احتساب کے شکنجے میں جکڑا وہ اپوزیشن کے لوگ تھے حکومت نے اپوزیشن کو نشانے پر رکھا۔ اس وقت بھی اور اس کے بعد بھی حکومتوں میں وہ لوگ بھی شامل رہے جو احتساب کے زمرے میں آتے تھے لیکن سیاسی حکومتوں نے اپنے ساتھیوں کو تو چھوڑ دیاکیونکہ وہ اپنے ساتھیوں کی ناراضگی مول نہیں لے سکتے تھے لیکن اپنے سیاسی مخالفین کو زیر عتاب رکھا اور خوب رگڑا لگایا۔ بد قسمتی یہ رہی کہ جن لوگوں کے خلاف بھی کارروائی کی گئی وہ احتساب کے شکنجے سے بچ نکلے اور معاملات جوں کے توں رہے۔
ہر حکمران نے احتساب کا چرچا تو بہت کیا لیکن وہ عملاً اس لوٹ مار مافیا کے خلاف کسی کارروائی کومنطقی انجام تک پہنچانے سے قاصر رہا۔ آج بھی احتساب کا عمل آگے بڑھ رہا ہے لیکن ابھی تک کی حکومتی کارکردگی کا حال یہ ہے کہ کوئی ایک نامی گرامی ملزم بھی مجرم نہیں ٹھہرایا جا سکا۔
جب بھی کوئی نامور آدمی پکڑا جاتا ہے تو اس طرح محسوس ہوتا ہے کہ اس رشوت زدہ ملک میں شاید اب احتساب کی مضبوط روایت پڑ جائے گی لٹیروں اور بدعنوان لوگوں کو کان ہو جائیں گے کہ ہاتھ روک لو احتساب بھی ہوا کرتا ہے لیکن بدعنوانوں کے ہاتھ روکنا شاید ہماری قسمت میں نہیں اور ملک میں لوٹ مار کی عام اجازت ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ہر سیاسی حکومت اتحادیوں کی بیساکھیوں کی مرہون منت ہوتی ہے اور اگر یہ بیساکھیاں ہلا دی جائیں تو حکومت گر جاتی ہے لہذا جیسے ہی بڑے لوگ پکڑے جاتے ہیں یہ بیساکھیاں ہلنا شروع ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے حکومت ڈگمگانے لگتی ہے اور یوں احتساب کا عمل سست روی کا شکار ہو جاتاہے بلکہ نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ یہ سلسلہ عملاً رک جاتا ہے۔
عمران خان کی حکومت نے احتسابی عمل کو شفاف اور موثر بنانے کے جو دعوے کیے تھے ان میں ابھی تک کوئی پیشرفت نظر نہیں آئی سوائے یہ کہ ان کی حکومت بھی پیشرو حکومتوں کی طرح اسی پرانی ڈگر پر چل پڑی ہے کہ اپوزیشن کا احتساب جاری رکھو اور اپنی طرف اٹھنے والی انگلیوں کو نظر انداز کر دو۔ بدقسمتی یہ رہی کہ نیب جیسا فعال محکمہ ابھی تک اپنے ملزمان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کر سکا جس کی وجہ سے عدالتوں میں اس کی مسلسل سبکی ہو رہی ہے۔
عدالت میں زبانی کلامی باتوں اور اخباری بیانوں کی جگہ ثبوت درکار ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر سزا اور جزا کے فیصلے ہوتے ہیں لیکن نیب اپنے ملزموں کے خلاف ثبوت فراہم نہیں کر سکا جس کی وجہ سے نیب کے ملزمان عدالتوں سے باعزت رہا ہورہے ہیں اور اپوزیشن کو ہلا شیری مل رہی ہے اور وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ نیب سیاسی انتقام لے رہا ہے نیب کے کیسوں میں حقیقت نہیں ہے۔
حالانکہ اگر دیکھا جائے تو نیب نے جو بھی ملزم پکڑے ہیں ان کے لیے ہمیں باتیں اور ثبوت نہیں چاہئیں جن کی کل اور آج کی زندگی ہمار ے سامنے ہو اور دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہو تو اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے۔ آج کروڑوں میں کھیلنے والا بتائے کہ یہ دولت کہاں سے آئی لیکن عمران خان کے بقول ثبوت والے بھی بہت ہیں لیکن ابھی تک یہ ثبوت سامنے نہیں لائے جا سکے۔
بڑی بات یہ ہو رہی ہے کہ بڑے بڑے سماجی اور سیاسی مرتبے والے لوگوں پر ہاتھ ڈالا گیا ہے جس سے نادار لوگوں کے دلوں کوسکون ملا ہے جن کی غربت ان کی امارات کی اصل کہانی بیان کرتی ہے وہ اپنے ان ملزموں کو سزا یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں جنہوں نے کس غیر انسانی جذبے سے کرپشن کی ہے اور اپنے جیسے انسانوں کا حق مارا ہے۔ اگر قوم کے پیٹ میں روٹی کے چند ٹکڑے ہی ہوتے تو وہ اس پکڑ دھکڑ کی خوشی میں چراغاں کرتی کیونکہ پاکستان میں یہ معمولی بات نہیں ہے مگر مشکل یہ ہے کہ یہ بڑے لوگ جب پکڑ میں آتے ہیں تو اپنی سیاسی وابستگیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے احتساب کے خلاف اکٹھے ہو کر اس کو ناکام بنا دیتے ہیں اور یہی آج کل ہو رہا ہے۔
احتساب کے مکمل عمل کو ہی مشکوک بنا دیا گیا ہے اور مطالبہ یہ ہو رہا ہے کہ نیب کو ختم کردیا جائے تا کہ وہ اپنی لوٹ مار جاری رکھ سکیں ماضی اور مستقبل میں کی جانے والی لوٹ مار کا انھیں حساب نہ دینا پڑے۔ ایساکب تک چلتا رہے گا یہ خدا ہی جانتا ہے یہ بات ضرور ہے کہ یہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ احتساب کی افادیت میں کوئی شک نہیں ہے لیکن یہ کام صرف وہی حکومت کر سکتی ہے جس کو سیاستدانوں اور بااثر لوگوں کی خوشنودی درکار نہ ہو سیاسی حکومت یا جس حکومت میں سیاستدان شریک ہوں اس میں احتساب کا عمل جاری نہیں رہ سکتا۔ یہی آج کی حقیقت ہے۔