ایک عام آدمی
عام آدمی جو کبھی کسی مارشل لاء سے اور کبھی کسی دھرنے سے اپنی امیدیں وابستہ کر لیتا ہے، اسے نہ تو مارشل لاء پسند ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی دھرنا لیکن اس کے روز مرہ کے مسائل ہمارے حکمرانوں نے اتنے تلخ بنا دیے ہیں جو اسے در بدر بھٹکاتے رہتے ہیں اور انھی درد بدر کی ٹھوکروں کی تکلیف سے وہ کچھ نیا سوچنے لگتا ہے۔
ہمارے ہاں ہر نیا آنے والا حکمران خراب حالات کو درست کرنے کا عزم ظاہر کرتا ہے لیکن جب وہ حکمران بن جاتا ہے تو پھر رفتہ رفتہ وہ بھی کان نمک میں نمک بن جاتا ہے اور اپنا رویہ پرانے حکمرانوں والا اختیار کر لیتا ہے۔ جب میں آپ کی طرح بری اور ناقابل برداشت خبریں پڑھتا سنتا ہوں تو دل کرتا ہے کہ ملک کے بڑے شہروں میں مرکزی مقامات پر سولیاں گڑی ہوں اور ان پر بدعنوان لوگوں کی لاشیں عبرت بن کر لٹک رہی ہوں کیونکہ اب یہ کرپٹ لوگ عام عدالتوں کی پروانھیں کرتے جہاں سے انھیں ہر جرم میں ضمانت مل جاتی ہے یا قید جسے وہ کچھ خرچ کر کے آرام کے ساتھ کاٹ لیتے ہیں۔ ان حالات کو دیکھ کر ایک عام آدمی صرف کڑھ ہی سکتا ہے اور خواب کی طرح کسی اَن دیکھے مسیحا سے اپنی امیدیں وابستہ کرلیتا ہے اور پھر اپنے ان خوابوں کی تکمیل کے لیے در بدر بھٹکتا رہتا ہے اور بقول غالب۔
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر ایک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
غالب نے دور کی سوچی تھی اور برسوں پہلے ہمارے آج کا حال بیان کر دیا تھا۔ ہم آج بھی ہر تیز رو کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور ساتھ بھٹک رہے ہیں مگر ہماری بدقسمتی کہ ہمیں کوئی راہبر نہیں ملتا صرف تیزرو ملتے ہیں جو ہمیں اپنے پیچھے بھگاتے رہتے ہیں۔
ہمارے ہاں کرپشن اس قدر بڑھ چکی ہے بلکہ اس کی مالیت بھی غیر معمولی ہے اور اس کا دائرہ کار بھی بہت پھیل چکا ہے۔ خبروں میں کرپشن کے جرم کے ساتھ ناموں کا عام ذکر ہوتا ہے اور کرپشن کی مالیت جان کر ہوش اُڑ جاتے ہیں یعنی بات اب اربوں تک جا پہنچی ہے۔ دو وقت کی روٹی کو ترستا ہوا پاکستانی جب یہ سنتا ہے تو اس کا دل خون ہوتا ہے لیکن افسوس کہ اس کو کوئی راہبر میسر نہیں جو اسے نجات کاراستہ دکھا سکے جب کہ وہ ہر قربانی پر تیار ہے اور کیوں نہ تیار ہو ایک تو دکھ بھری زندگی اور دوسرے خالی ہاتھ جن میں قربانی کے سوا اورکچھ نہیں ہوتا۔ کسی ترقی پسند نے کہا تھا کہ مزدور کے ہاتھوں میں لکیروں کے سوا اور کیا ہے جس سے وہ محروم ہو سکتا ہے۔
پاکستانی غریبی سے نجات پانا چاہتے ہیں۔ یہ واقعہ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ ہمارے ہاں پنجاب میں مشہور ہے کہ سیلاب آیا تو لوگ گھربار کا سامان اٹھا کر کسی پناہ کی تلاش میں نکل پڑے۔ راستے میں چوہدری نے دیکھا کہ اس کے گاؤں کا ایک مزدور یا کمی کسی درخت پر بیٹھا ہے۔ چوہدری نے آواز دی کہ پاگل آؤ ہمارے ساتھ چلو۔ اس پر چوہدری کے کمی نے جواب دیا کہ چوہدری غریبی کا مزا تو آج آیا ہے، کیا تم اس سے بھی محروم کرنا چاہتے ہو۔ ہم نے غریبی کے مزے بہت لوٹ لیے، اب ہم پاکستانی اس غریبی کے مزے سے نجات پانا چاہتے ہیں لیکن ہمیں اس مزے سے کوئی نجات لینے نہیں دے رہا۔
ہمارے حکمران اپنی اپنی باری میں عوام کی نجات کی حالت کو محسوس بھی کرتے ہیں لیکن پھر ان کے اس عوامی احساس کو خطرناک قرار دے کر ختم کر دیا جاتا ہے اور عوام کو اپنی شاطرانہ باتوں میں الجھا دیتے ہیں۔ عوام حکمرانوں کی شاطرانہ باتوں سے نجات چاہتے ہیں اور اس کے انسداد کا ایک شریفانہ طریقہ یہ تھا کہ چند افراد ایسے ہوں جو بے غرضی اور بے خوف ہو کر کرپٹ لوگوں پر ہاتھ ڈالیں اور قوم کا مال ان سے واپس لیں اور قوم کے سامنے انھیں سزا دیں۔ اس شریفانہ طریقے پر عمل درآمد کی کوشش بھی کی گئی لیکن وہیں ہوا جو ہوتا آیا ہے کہ کرپٹ لوگوں پر ہاتھ ڈالنے والوں کے ہاتھ باند ھ دیے گئے اور عالم یہ ہے کہ اب ان بندھے ہاتھوں کو کھولنے کو بھی نہیں دیا جارہا۔
کیا ہمارے ملک میں قحط رجال ہے کہ ہمیں چند ایسے افراد بھی نہیں مل رہے جو اس ملک کی بگڑی کو بنا سکیں ہا پھر ہم ہمیشہ کی طرح لٹتے رہیں گے اور یہ کرپٹ بھیڑیئے ہمارا خون چوس کر ہضم کرتے رہیں گے۔ اس ملک کی عام آدمی کو بھی ضرورت ہے، سیاستدانوں کو بھی اور فوج کو بھی۔ ہم نے فوجی حکومتیں بھی بہت دیکھیں اور اب سویلین حکومتوں کا تسلسل دیکھ رہے ہیں لیکن کسی بھی حکومت نے کرپشن زدہ معاشرے کو درست کرنے کی کوشش نہیں کی اور اگر کسی عام سویلین حکمران نے یہ جرات کی بھی ہے تو اس کا حال ہمارے سامنے ہے۔
قوم جتنا بھی ساتھ دے اور سویلین حکمران کے لیے یہ ساتھ ووٹ کی صورت میں ہوتا ہے جو یہ قوم اپنے کئی رہنماؤں کو دے چکی ہے لیکن جب تک اس ملک کی ملکیت کے تصور، ایمانداری اور نیک نیتی کے ساتھ حکمرانی نہیں کی جائے گی تب تک قوم جس طرح بھی ساتھ دے وہ بے معنی ہوگا۔ حکمران صحیح معنوں میں قوم سے رجوع کرے اور یہ رجوع صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ حکمران کو عوام کی تکالیف اور مشکلات کا احساس ہو اور ان کے حل کے لیے وہ صدق دل اور نیک نیتی سے کام کرے، پھر وہ عوام کو پکارے۔ حکمران یہ تماشا دیکھے گا کہ اسے کتنی عوامی مدد ملتی ہے اور وہ کس قدر بے فکر ہو کر قوم کو بچا سکتا ہے ورنہ ہماری اشرافیہ اوریہ کرپشن زدہ معاشرہ ملکی بقاء کے لیے خطرہ ہے۔