Monday, 15 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Urdu Ke Godfather

Urdu Ke Godfather

اُردو نثر کے گاڈ فادر

ڈاکٹر جان گلکرسٹ اُردو نثر کے گاڈ فادر تھے، ایسٹ انڈیا کمپنی میں بھرتی ہو کر ہندوستان آئے، من میں نہ جانے کیا خیال آیا کہ ہندوستانی زبان میں دلچسپی لینی شروع کی، گونر جنرل لارڈ ولزلی اس وقت تک ایک ایسا تعلیمی ادارہ فورٹ ولیم کالج کی صورت میں بنا چکے تھے جس میں کمپنی کے ملازمین کو ہندوستان کی مقامی زبانوں اور ثقافت سے آشنا کروا کے بہتر گورننس کر سکیں۔

اسی دور میں جان گلکرسٹ ہندورستان آن وارد ہوتے ہیں، پیشے کے طبیب تھے، دلچسپی لسانیات میں تھی، لسان بھی کونسی پکڑی، نئی نئی بالغ ہوتی اُردو جس کی مسیں بھی ابھی نہیں بھیگی تھیں، کھڑی بولی اور بھرج بھاشا کے پپمپر تازہ تازہ اتارے تھے، مگر فارسی کا فیڈر ابھی بھی منہ کو لگا تھا، گلکرسٹ بھی شاید درویش تھے، اُردو کی محبت میں ملازمت چھوڑی اور فیض آباد میں ہندوستانی وضع قطع اختیار کرکے اُردو سیکھنے لگے۔

یہ کیسا فرنگی تھا، ایک فرنگی لارڈ میکالے کا تھا، جو ایسا ہندوستانی تیار کرنا چاہتا تھا جو جسمانی طور پر ہندی اور ذہنی طور پر انگلستانی ہو۔ مگر یہ تو وہ فرنگی نکلا جو ذہنی طور انگلستانی اور جسمانی طور پر ہندوستانی بن بیٹھا۔ چار سال کی محنت شاقہ کے بعد اُردو یا ہندوستانی سے شدھ بدھ پیدا کر لی۔ پھر شعیب فورٹ ولیم کالج کی صورت میں کیا میسر آیا کہ شبانی سے کلیمی تک کا فاصلہ طے ہوگیا۔

انگریزی ہندوستانی ڈکشنری، ہندوستانی گرائمر، راہنمائے اردو اور اتالیق ہندی جیسی کتب لکھیں اور جو کتب لکھوائیں وہ تو اس سے بھی بڑھ کر ثابت ہوئیں، میر امن دہلوی سے قصہ چہار درویش سے فارسی کا چولا اتروا کے اُردو کی "باغ و بہار" کی قمیض پہنا دی۔

میر شیر علی سے باغ اردو لکھوا کر گلستان سعدی کو مشرف با اردؤ کیا۔

مولوی امانت اللہ شدا کی لکھی کتاب ھدایت اسلام کا انگریزی ترجمہ کرنے بیٹھ گے۔ پھر اسی مولوی ہدایت اللہ سے قرآن کا عام فہم اردو ترجمہ کروانے کی ٹھان لی۔ جو بدقسمتی سے پورا نہ ہوا۔

یہ جان گلکرسٹ کا اردؤ نثر پر احسان ہے جو اسے فارسی زبان کے اثر سے نکال کر اپنی الگ پہچان دی۔

وگرنہ اردو نثر ابوالکلام آزاد کی غبار خاطر کے مکتوبات کی طرح ہوتی۔ جس میں سطر ہا سطر صفحہ ہا صفحہ فارسی کے جمپ ہوتے، عربی تمثیلات کے کھڈے ہوتے اور ان میں پڑی اردؤ زبان کسی مسیحا کی منتظر ہوتی۔

یہ انگریز کا اُردو نثر پر احسان تھا، جس زبان کو محمد حسین آزاد جیسا انشائیہ پرداز مفلس زبان کہتے کہتے دنیا سے چلا گیا، اس کو عام فہم اور اپنی پہچان عطا کرنا والا جان گلکرسٹ میر امن دہلوی کو جو نصیحت کرتا ہے وہ میر امن نے باغ و بہار میں ان الفاظ میں لکھی ہے "جان گلکرسٹ صاحب نے فرمایا اس قصے کو ٹھیٹھ ہندوستانی گفتگو میں، جو اردو کے لوگ، مسلمان ہندو، عورت مرد، لڑکے بالے، عام و خاص آپس میں بولتے جاتے ہیں ترجمہ کرو"۔

وگرنہ اس سے پہلے کی اردو نثر کی عبارات پڑھتے ہوئے گمان ہوتا ہے کہ وہ فارسی کے ہاں مغوی ہیں۔ فضلی کی لکھی مجلسیں اردؤ کی پہلی نثری تحریر بعض اہل ادب کے نزدیک تصور کی جاتی ہیں، اس کے کچھ اقتباسات نظر گزرے تو کثیف نثر پڑھ کر بے اختیار جان گلکرسٹ کے لئے دعائیہ کلمات نکلے۔

فارسی چونکہ مسلم اشرافیہ کی زبان تھی، اشراف اسے بولتے اور اجلاف کی دسترس سے باہر تھی، جیسے سنسکرت برہمنوں نے اپنے واسطے منتخب کر رکھی تھی اور پراکرت شودروں کی زبان تھی، فارسی مسلم اشرافیہ کی سنسکرت تھی، جسے مسلم زوال کے ساتھ زوال ہوا۔ سنسکرت تو بنارس کے پنڈتوں کی زبانوں پر ہی ڈانواں ڈول ہو رہی تھی، ہندوستان کی لسانی جدلیات ایک نئی تجدید شدہ زبان کا تقاضا کرنے لگی اور قرعہ فال نکلا اُردو زبان کے نام۔ جیسے کے پپمپر فورٹ ولیم نے تبدیل کیے، انگریز راج نے اس کے منہ سے فارسی کا فیڈر چھڑا کر شمالی ہندوستان کے کھردرے لسانی میدان میں پھینک دیا۔

چونکہ صاحب بہادر لارڈ میکالے فارسی اور سنسکرت کے فروغ کے مخالفت تھے۔ 1835 میں جس کمیٹی نے ایک لاکھ روپے ہندوستان کی مقامی زبانوں کے فروغ کے لئیے مختص کیے، اس کمیٹی کے سامنے لارڈ صاحب بہادر میکالے نے اس فیصلے کی جاندار مخالفت کی۔

"یورپ کی اچھی لائبریری کی ایک شیلف کو ہندوستان اور عرب کے تمام مقامی علوم سے افضل" قرار دینے والے لارڈ میکالے نے جو زبردست تقریر کمیٹی کے سامنے کی وہ minutes on Indian education Feb 2 1835 کے عنوان سے چھپے تھے۔ یقین مانیے کہ لارڈ میکالے کے "منٹ " ایم اے اسلامیات و عربی کرنے والوں کو داخلہ لینے سے پہلے ضرور پڑھنے چاہیے۔

میکالے نے یہاں کے فرسودہ نظام تعلیم پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا "کیا ہم اپنے بچوں کو ایسی فلکیات پڑھائیں جو انگریز لڑکیوں کو ہنسنے پر مجبور کردے اور ایسی تاریخ پڑھائیں جس میں پینتیس فٹ کے بادشاہ عام ہوں اور جن کا دور حکومت تیس ہزار سال سے بھی زیادہ ہو"۔

شاید لارڈ صاحب بہادر نے تاریخ طبری پڑھ لی تھی یا غوث پاک کی کرامات مگر بہر حال جو بھی ہو انگریز کو گڈ گورننس کے لئیے اردؤ بہترین متبادل ہی صورت میں ملی۔ جس سے اس نے فائدہ بھی خوب اٹھایا۔ کچھ عرصہ قبل 1899 کے پنجاپ کے سکول کے نصاب میں شامل اردؤ کتاب کا عکس نظر سے گزرا۔

کتاب کا نام تھا تعلیم المبتدی اور اس میں ملکہ برطانیہ کی شان کچھ اس طرح درج تھی "ملکہ معظمہ میں وہ ساری خوبیاں ہیں جو ایک ماں اپنی بیٹی میں چاہتی ہے، ایک شوھر اپنی بیوی میں اور ایک بیٹی اپنی ماں میں"۔

شاید اردو احسان اتار رہی تھی اپنی محسن کا جس نے اسے لکھنؤ اور دہلی کے شعری استعاروں سے نکال کر دفتروں میں راج کرایا تھا۔

ادھر سرسید کی سنیے تو لگتا ہے متشرع لارڈ میکالے بول رہا ہے، وہ بھی مغربی علوم کی راہ میں عربی اور فارسی تصور تعلیم کو روڑہ سمجھتے تھے اور ادھر ان کے ہی باغی شاگرد شبلی لٹھ لے کر ان کے پیچھے پڑ گے، اہل دیوبند کو فکر تھی کہ سرسید جوانان امت کو فرنگی تعلیم دے کر اسلام سے دور کر رہا ہے۔ مگر دیوبند خود بھی تو اس یلغار سے بچ نہ پائے تھے، سرسید کی فرنگی طرز تعلیم پر معترض دیوبند نہ جانے یہ کیوں بھول جاتے ہیں دار العلوم دیوبند میں ایک عیسائی مستشرق اور پادری کرنیلوس وی اے وان دیک کی لکھی کتاب "النقش فی الحجر" پڑھائی جاتی رہی۔ ایک عیسائی مستشرق اور پادری کی کتاب دیوبند کے نصاب میں کیا کر رہی تھی۔ سرسید کے علیگڑھ کو انگریز کی نرسری کہنے والوں کو جب دارلعلوم دیوبند کی توسیع ثانی کا افتتاح کروانا پڑا تو اسی انگریز کے گورنر ڈگش ٹولاش کو ہی بلایا۔

بات اردو سے چلتے چلتے کہاں نکل گی۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ اُردو ریلوے کے بعد سب سے کار آمد چیز ہے جو انگریز ہمیں سونپ گے۔۔

Check Also

Mulki Zawal Ka Malba Madais Par Kyun?

By Abid Mehmood Azaam