Siasi Pir Aur Roohani Mureed
سیاسی پیر اور روحانی مرید
گورنر جنرل غلام محمد خاصے پیر پرست تھے۔ ان کے پیر وارث علی شاہ دیوال شریف کے پیر تھے جو لکھنؤ انڈیا کے کہیں قریب ہے۔ شھاب نامہ میں قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں گورنر جنرل کو اپنے پیر سے خاصی عقیدت تھی ان کی تصویر اپنے بیڈروم کے اس حصے میں لگائی رکھتے جہاں سے اس آسانی سے ان پر نظر پڑ سکے۔
جنرل ایوب خان بھی کے بھی پیر ہوا کرتے تھے نام تھا پیر عبد الماجد۔ جو دیول شریف کے گدی نشین تھے۔ یہ والے پیر خاصی سیاسی عزائم رکھتے تھے۔ ایوب خان ان سے خاصے متاثر تھے۔ کئی حکومتی مشورے ان سے لیتے۔ بیوروکریسی کے کئی اعلی افسران بھی پیر صاحب کے مرید تھے۔ جس کی وجہ سے پیر صاحب کی پانچوں انگلیاں سر سمیت کڑاہی میں تھیں۔ بدلے میں پیر عبد الماجد اپنے گدی کے اثر و رسوخ سے ایوب خان کی حمایت کرتے۔
جب جنرل ایوب نے فاطمہ جناح کے ہے خلاف الیکشن لڑا تو پیر صاحب ایوب خان کے ساتھ دھوتی باندھ کے کھڑے ہوگئے اور پاکستان کے گدی نشینوں کا ایک بلاک بنا کے فاطمہ جناح کے خلاف لانچ کیا۔ پستی کی حد دیکھئے کہ پیر عبد الماجد نے اس وقت فاطمہ جناح کے خلاف مذہبی کارڈ کھیلتے ہوئے فتویٰ جاری کیا۔
"خدا اپوزیشن کے تمام پارٹیوں سے شدید ناراض ہے جو اسلامی مملکت پاکستان کے لیئے ایک خاتون حکمران کے حق میں سیاسی مہم چلا رہے ہیں"۔
بہر حال پیر صاحب نے اپنے سیاسی حمایت کا خراج بھی وصول کیا۔ امریکی سفیر اور ساؤتھ ایشیاء کے تاریخ دان Craig bexter نے بعدازاں ایوب خان کی اس ڈائری کو پبلیش کیا ہے جس میں پیر عبد الماجد کا ذکر تھا کہ پیر صاحب نے ایوب خان کی سیاسی حمایت کے بدلے میں محکمہ اوقاف کے انتظامات میں اثرورسوخ اور زکوٰۃ کے عطیات بڑھانے کا مطالبہ کرتے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے بھی ایک بنگالی پیر ہوا کرتے تھے، مجیب الرحمن چشتی۔ یہ پیر اتنے سیاسی نہ تھے۔ بھٹو صاحب صرف ان سے دعائیں ہی کرایا کرتے تھے۔ بعدازاں بینظیر بھٹو بھی چشتی صاحب کے ہاں حاضری لگاتیں۔
البتہ جنرل ضیاء الحق خاصے وہابی قسم کے حکمران تھے۔ اس لیئے انھیں کوئی مرشد یا پیر نہ ٹکر سکا۔
پیر پگاڑا کی سیاسی اور روحانی گدی کافی طاقتور ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں مرید نما ووٹرز بھی ہیں۔ چھ ہزار پر مشتمل مسلح ملیشیا، سینکڑوں ایکڑ زمین مل کر انھیں پاکستان کا سب سے طاقتور پیر بناتی ہے۔
اویس احمد جو Nexus of Sufi saints and politician of Pakistan کے مصنف ہیں۔ اپنے آرٹیکل میں لکھتے ہیں۔ پیر پگاڑا اس حد تک امیر اور طاقتور ہیں کہ انھوں نے محمد خان جونیجو کی حکومت کو قرض تک دیا تھا۔
بینظیر بھٹو کے بھی ایک پیر ہوا کرتے تھے۔ چک شہزاد کی ملتانی بابا۔ بے نظیر ان کے پاس حاضر ہوتیں اور ان قدموں میں بیھٹتیں۔ یہ ایک اور دلچسپ بات بھی ہے۔
بے نظیر اور نواز شریف بدترین سیاسی مخالف ہونے کے باوجود بھی پیر بھائی تھے۔ دونوں کے مشترکہ پیر مانسہرہ کے بابا دھنکا تھے۔ کہتے ہیں بابے ہی کی دعا سے نوازا شریف وزیراعظم بنے۔ نواز شریف نے بعد ازاں بابے کی گاؤں میں بجلی بھی لگوائی تھی۔
بابا دھنکا خاصے دلچسپ پیر تھے۔ اپنے پاس آنے والے مریدین کی تواضع چھڑی مار کے کیا کرتے۔ جو بھی سثن کی چھڑی کھاتا اس کی قسمت کی نیا پار لگ جاتی۔
جماعت الدعوہ کے اس وقت کے ایک بڑے بارودی لکھاری ہوئے کرتے تھے امیر حمزہ۔ انھوں نے اپنی کتاب بھی بابا دھنکے کے ہاں حاضری کا بڑا عبرتناک منظر پیش کیا تھا۔ امیر حمزہ بابے کے پاس پہنچ کر سلفیوں والی کھرک کر بیٹھے جس نے بابے کا پارہ چڑھا دیا تھا۔
پیر آف گولڑہ شریف سے بھی نواز شریف اور بے نظیر دونوں کے تعلقات تھے۔ پیر صاحب موقع کے حساب سے گدی کی تجلیات بے نظیر اور نواز شریف دونوں ہر ڈالتے رہتے۔ سی ڈی اے اسلام آباد میں پیر صاحب کے کئی مریدین ملازم تھے جن کے صدقے ان کا رئیل اسٹیٹ والا دھندا خاصا زرخیز تھا۔
عمران خان تو ان سب سے بڑے پیر پرست تھے۔ ان کے ہاں مذکر و مؤنث پیروں کی جوڑی تھی۔
عمران خان نے اپنی آپ بیتی میں پیر میاں بشیر کا ذکر بڑی عقیدت سے کیا ہے۔ خان کے دوسرے مرشد مردانہ نہیں زنانہ ہیں۔ نام ہے پنکی پیرنی۔ یہ خان صاحب کو گنج شکر پاک پتن والے دربار کے صدقے ملیں۔ ایاک نعبد و ایاک نستعین کا ورد جلسوں میں کرنے والے عمران خان اس درگاہ کی قبروں کو سجدہ کرتے ہوئے گے۔ بہر حال پاک پتن والا دربار بھی کافی تگڑا ہے۔
ضلع کی دس فیصد زمین جو 43 ہزار ایکڑ بنتی ہے وہ درگاہ کے گدی نشینوں کے پاس ہے۔ پنکی پیرنی وٹو خاندان سے تعلق رکھتی ہیں جو درگاہ کے گدی نشینوں کے بہت قریب ہے یہاں سے عمران کا روحانی لنک بھی اسی وجہ سے ہے۔
آصف علی زرداری کے پیر اعجاز تو خاصے مشہور تھے۔ یہ حضرت زرداری صاحب کے ساتھ ایوان میں رہتے۔ ان کے کئی فیصلوں پر اثر انداز ہوتے۔ پیر اعجاز بلیات سے صدر کو بچانے کے لئے کالے بکروں کی قربانی کرواتے۔ بکروں کی ترسیل کے علاؤہ یہ صدر کو یہ بھی بتاتے کہ کب آپ نے پانی کے قریب یعنی کراچی رہنا ہے اور یہ بھی راہنمائی کرتے کہ دامن کوہ کے پہاڑوں کی وجہ سے ان کی حکومت پر نحوست آجائے گئی۔
انجم نیاز The pir in the palace میں پیر اعجاز کی بابت لکھتی ہیں۔ زراری تک پہنچنے کے لیئے پیر صاحب کے روحانی چیک سے ہو کر گزرنا پڑتا۔ یہاں تک کہ نصیر اللہ بابر جیسا شخص بھی اس سے مستثنیٰ نہ تھا۔
گدی نشینوں کا سیاست میں اس قدر اثر و رسوخ ہے۔ ڈاکٹر عدیل ملک جو آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں انھوں نے ایک ریسرچ پیپر شائع کیا تھا اس کے مطابق۔ قومی اسمبلی کے سولہ فیصد ممبران کا تعلق انہی گدی نشینوں کے خاندان سے ہوتا ہے۔
سیاست اور روحانی گدی کا اشتراک کافی پرانا ہے برصغیر میں۔ مگر اسے انگریز نے خوب اچھے سے استعمال کیا۔ شاہ محمود قریشی کے غالبا پردادا انگریز کے وفادار تھے۔ اٹھارہ سو ستاون کی بغاوت میں زیادہ تر گدی نشینوں نے برطانوی راج کے خلاف بغاوت کو گناہ قرار دیا تھا۔ اس کے بدلے انگریز نے انھیں خاصی جاگیریں عطا۔ اس کی ایک مثال پنجاب سن انیس سو کا land Alienation Act ہے جس کے مطابق کسانوں کے لیئے زمین کی خریداری کا صرف ایک محدود کوٹہ ہوگا۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ زمین گدی نشینوں کے پاس رہ سکے۔
انگریز ان گدی نشینوں کا اتنا خیال رکھتا کہ گدی کے تنازعات کے حل کے لیئے اس نے الگ سے کورٹ بنائے تھے۔
بہر حال چاہے پاکستان ہو یا امریکہ پیر ہر جگہ ہیں۔ امریکہ میں صدر روزویلٹ کی بھی ایک "پنکی" پیرنی ہوا کرتی تھیں۔ نام تھا Jean Dexter صدر کو سیاسی معاملات میں مشورے دیتیں۔ پیرنی صاحبہ کی پشین گوئیاں کافی مشہور تھیں۔ انھوں نے صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کی پشین گوئی تک کی تھی۔
امریکہ میں ایک اور پیر ہوا کرتے تھے Doug coe نام تھا The family نام کی تنظیم کے بانی تھے۔ یہ خاصے پرسرار پیر صاحب تھے۔ امریکی صدر سے لے کر معمر قذافی تک ہے بڑے عالمی راہنماؤں سے ان کے قریبی تعلقات تھے۔ ان کی prayer breakfast نام کی تقریب ہر سال امریکہ میں ہوتی ہے جہاں امریکی صدر لازمی شرکت کرتے ہیں۔
پیروں کا سیاسی ایوانی میں اثرو رسوخ اس بات کو ثابت کرتا ہے طاقت انسان کو خدشات اور توہمات کا اسیر بنا دیتی ہے۔ جس سے فائد اٹھا کر اکثر پیر اپنی اچھی خاصی دیہاڑی لگا جاتے ہیں۔