Monday, 15 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Ghair Manqoot Quran Aur Ikhtilaf e Qirat

Ghair Manqoot Quran Aur Ikhtilaf e Qirat

غیر منقوط قرآن اور اختلاف قرات

عرب تہذیب کے ساتھ سب سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ اس کو دور جاہلیت اور دور اسلام میں منقسم کر دیا گیا۔ دور اسلام سے قبل کے دور پر جاہلیت اور بت پرستی کا کلنک لگا کر اسے تاریخ کی پاتال میں دفنا دیا گیا۔

اسلامی عصبیت کا شکار مفکرین اور صاحبان قلم نے قبل از اسلام کے دور کو یوں بنا کر پیش کیا کہ جیسے ان میں تہذیب کی رمق نہ تھی، علم وادب کا نشان نہ تھا، نہ انھیں پڑھنا آتا تھا نہ ان کا رسم الخط ڈھنگ کا تھا اور نہ فن کتابت سے وہ آشنا تھے، اس لیئے قرآن کی کتابت بھی نزول کے تیس سال بعد مصحف عثمانی کی شکل میں مکمل ہوئی۔ تدوین قرآن اور مصحف عثمانی پر کبھی لکھوں گا، اگر قرآن کتابی شکل میں عثمان رض کے دور میں آیا تو پھر وہ کتاب مکنون کیا تھی اور صحفاً مطہرہ کیا تھے جن کا ذکر دور نبوی میں ہو رہا ہے۔

مگر فی الحال موضوع رسم الخط ہے۔ مودودی صاحب سے کسی نے سوال پوچھا تھا کہ "ایک طرف دعویٰ یہ کیا جاتا ہے قرآن میں ایک حرف، نقطے اور شوشہ کا بھی فرق نہیں آیا مگر دوسری طرف اختلاف قرات کو ہی دیکھ لیجیے کہ قرات کے تھوڑے سے فرق سے معنی بدل جاتا ہے، یقیناََ منزل من اللہ قرات ایک ہی ہوگی۔ سب کو صیح کس طرح مان لیا جائے"۔

مودودی صاحب نے جو جواب دیا تھا وہ ترجمان القرآن جلد54عدد 3، جون 1959 کے اوراق پر درج ہے۔

اور اس جواب پر علامہ تمنا عمادی کی تنقید پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے، یقیناً جو قلمی پھینٹی علامہ تمنا نے ترجمان القرآن کے اس شمارے پر مودودی صاحب کی لگائی تھی وہ کیا کمال تھی۔

بہر حال مودودی صاحب نے اختلاف قرات کا جواب دیتے ہوا لکھا تھا ابتدائے نزول قرآن کے وقت چونکہ اعراب کی علامتیں ایجاد نہ ہوئی تھیں اس لیے قرآن کے حروف بغیر نقطوں کے لکھے ہوتے تھے اس لئے اس غیر منقوط قرآن کو پڑھتے ہوئے قرات کا اختلاف پیدا ہو جاتا تھا پھر ترپن ہجری میں ابوالاسود دولی نے اعراب ایجاد کیے اور قرآن کے حروف پر لگائے اور حجاج بن یوسف نے قرآن پر نقطے لگائے۔

حجاج کے کھاتے میں نقطوں کی ایجاد ڈالنا بھی خاصی دلچسپ بات ہے، یعنی کہ عربی کوئی اتنی یتیم اور کم مایہ زبان تھی کہ اس میں نقطے پچاس ہجری میں جا کر ایجاد ہو رہے ہیں۔ قبل از اسلام کے کعبے پر لکھے قدیم عرب شعراء کا کلام کیا غیر منقوط تھا پھر اس پر نقطے کس نے لگائے تھے اگر نقطے عربی رسم الخط میں حجاج نے ایجاد کیے تھے۔

ابو الفتح عثمان بن حنیف نے اپنی کتاب"امالی" میں اس بات کی تردید کی کہ عربی حروف پر نقطے ابتداء سے ہی لگائے جارہے تھے۔ ثبوت کے طور پر وہ قدیم عرب شعراء کا کلام پیش کرتے ہیں جن میں نقطوں کا تذکرہ ہے۔

میرے سامنے ابن ندیم کی الفہرست ہے۔

حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ایک روایت عربی رسم الخط کے حوالے سے کچھ یوں ہے کہ "عربی رسم الخط کو قحطانی قبیلہ بولان کے تین مردوں نے ایجاد کیا۔ مرامر نے حرفوں کی صورتیں مقرر کیں، اسلم نے ان کی جوڑ پیوند اور الگ رہنے کی ہیات مقرر کیں اور عامر نے ان پر نقطے لگائے"۔

مگر متعصب مسلمان مورخین عربی نقطوں کی ولادت حجاج بن یوسف کی کھوکھ سے کروانے پر مصر ریے۔ یعنی امرا القیس، الخنسہ جیسے لیجینڈ شاعروں کے دور میں عربی رسم الخط نقطوں سے بانجھ تھا اور قدیم عرب رسم الخط کے نقطوں سے نابلد تھے وہ پھر ابن عباس کی الفہرست میں درج روایت کا کیا جواب دیں گے، وہ مورخین پھر دور جاہلیت کے شاعر مرقش کے اس شعر پر اپنی "حجاجانہ" موشگافیوں کا کیا کریں گے جس میں مرقش لکھتا ہے۔

الدار فقرو والرسوم نما
رقش فی ظھرِالادیم قلم

(خالی مکان کے آثار ایسے نظر آرہے ہیں جیسے کسی نے کاغذ پر نقطے ڈال دیئے ہوں)

اگر عربی نقطوں سے نا مانوس تھے تو طرفہ کا یہ شعر کس منہ سے پڑھیں گے۔

کسطور الرق رقشہ
بالفحی مرقش یشبہ

(دوپہر کے وقت کاغذ پر کسی لکھنے والے نے نقطے ڈال دیے ہیں۔) بحوالہ الاقتضاب صفحہ 93

یہ سب کیا ہے اگر قرآن پر نقطے لگانے والا حجاج اور اعراب لگانے والا ابوالاسود دولی تھا۔ کیا حجازی رسم الخط نقطوں سے نابلد تھا۔ جس بنا پر قرآن غیر منقوط لکھا گیا۔ پھر تو سوال یہ بنتا ہے اختلاف قرآت کو حل کرنا منصب نبوت کی ذمہ داری تھی۔ جو بقول مودودی صاحب کے غیر منقوط آیات کی وجہ سے پیدا ہوگیا تھا۔

یقین مانیے آپ صرف تدوین قرآن کو ہی کھول کر بیٹھ جائیں تو سر پکڑ کے بیٹھ جائیں گے تیرا سو سال سے اتنی بڑی غلط فہمی رہی۔ برمنگھم مینو سکرپٹ اس جھوٹ کی زور دار نفی ہے۔

میں تو صرف آج قرات کی بات کروں گا۔ انزل القرآن علی سبعۃ الحروف (قرآن کو سات حروف (قراتوں)پر اتارا گیا)

والی روایت ایجاد کرنے والے کون تھے۔

نقطے کے بغیر اردو کی اس تحریر کی ایک لائن بھی نہ پڑھی جائے تو قرآن کو کیسے پڑھا گیا۔ کیا لاریب کتاب ایسی ہوتی ہے کہ بعد از نبوت غیر نبی انسانوں کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ اس لاریب وحی پر نقطے لگاتے پھریں۔

کیا حجاج پر وحی اترتی تھی کہ وہ غیر منقوط تعملون پر ت کے اوپر ہی نقطہ لگائے ہو سکتا ہے وہ یعلمون ہو۔

عربی حروف تہجی میں پندرہ سے زائد ایسے حروف ہیں جن میں امتیاز صرف نقطوں ہی کی صورت میں کیا جا سکتا ہے۔

امام جزری کی کتاب النشر فی القرات العشر میں عبد اللہ بن مسعود رض کی اس روایت کو کیا کہا جائے گا جس میں وہ فرماتے ہیں۔

"قرآن کو نقطوں سے صاف کرو تاکہ چھوٹے بھی اسے اس طرح پڑھتے رہیں اور بڑے بھی دور نہ جائیں"۔

اور اس سے بھی بڑا لطیفہ یہ کہ قرات کے سات مکاتب فکرکے ائمہ میں خالص عرب دو ہی تھے یعنی امام بن عامر اسامی اور ابو عمرو باقی پانچ امام القرات آزاد کردہ غیر عربی غلام یعنی موالی تھے۔

یہ ایسے ہی ہے انگریزی تلفظ کا امام دیار فرنگ کے بجائے کسی افریقی کو بنا دیا جائے یا اردو تلفظ کی امامت کا تاج کسی چینی پر ٹانگ دیا جائے۔ اس پر محمد حسین آزاد کا ایک لطیفہ یاد آگیا۔ جو دیوان سنگھ مفتون نے سرگزشت کے دیباچے میں لکھا تھا۔

محمد حسین آزاد کو اپنی فارسی دانی پر بڑا ناز تھا، وہ اسی کو آزمانے ایران بھی گے، وہاں کسی ایرانی کے ہاں مہمان تھے، دیگچی چولہے پر ابلنے کے واسطے رکھی تھی، جب وہ ابل چکی اور اس میں پڑا مواد باھر کو آنے لگا تو آزاد میزبان کو توجہ دلانے واسطہ کہ دیگچی سے ڈھکن ہٹا دو کہنے کے لیے موزوں فارسی لفظ سوچنے لگے مگر ان کی فارسی ہوا گی اور میزبان کی بچی بولی۔

دیگچی سرکردہ۔

اور سخن دان فارس کا مصنف بچی کی فارسی پر منہ دیکھتا رہ گیا۔

یہی معاملہ قرآت کے غیر عربی ائمہ کا تھا۔

لحن کا خیال تو ہندوؤں کے ویدوں کی قرات میں اتنی نفاست سے رکھا گیا تھا۔ البیرونی کتاب الہند میں رگ وید کے بارے میں لکھتا ہے۔

"اس وید کو پڑھنے کے تین طریقے ہیں، ایک عام سادہ پڑھائی، دوسرا ہر لفظ پر ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا اور تیسرا جو سب سے افضل ہے ایک ٹکڑا پڑھ کر اس کے اگلے اور پچھلے ٹکڑوں کو ملا کر پڑھنا"۔

یہی حال سام وید کا بھی، اسے گا کر مزامیر داؤدی کی طرح پڑھا جاتا، سام کے معنی ہی لطافت کلام کے ہیں۔

جہاں ویدوں میں قرات کا اتنا خیال رکھا گیا، وہاں مزامیر داؤدی کی تصدیق کرنے والی کتاب کا اصل لحن غیر منقوط لفظوں کے باعث بھلا کیسے سات لہجوں میں گم ہو سکتا ہے۔

جس پر یہ چخ ماری جائے کہ پہلے حروف پر اعراب لگے تھے پھر ان پر حجاج نے نقطے لگائے تھے۔

قاعدے کے حساب سے نقطے پہلے اور اعراب بعد میں لگنے چائیے تھے۔ اس تاریخی بے ترتیبی پر علامہ تمنا عمادی نے اپنی کتاب اعجاز القرآن میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا۔

"یہ ایسے ہی ہے ایک بندے کو کسی نے آکر کہا۔ حضرت آپ کی بیوی بیوہ ہوگی ہے۔

یہ سن کر وہ رونے لگا تو پاس سے گزرتے ایک صاحبِ نے کہا۔ آپ کی بیوہ بھلا بیوہ کیسے ہو سکتی ہے آپ تو ابھی تک زندہ ہیں۔ مگر بندہ کہنے لگا۔

بات تو تمھاری بھی ٹھیک ہے مگر جس (راوی) نے میرے پاس خبر لائی ہے وہ بہت سچا اور ثقہ ہے۔

Check Also

Nawaz Sharif Ki Kahani

By Syed Mehdi Bukhari