Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Jawad Hussain Rizvi
  4. Kya Irani Mazhab Bezaar Hain?

Kya Irani Mazhab Bezaar Hain?

کیا ایرانی مذہب بیزار ہیں؟

پچھلے دو دن میں مختلف احباب کی وال پر ایران میں بڑھتی ہوئی دین بیزاری کے متعلق ان کے خیالات پڑھے۔ چند افراد نے مجھ سے رابطہ کرکے میرے خیالات کے متعلق استفسار کیا لیکن مصروفیات کی وجہ سے کچھ نہیں لکھ پایا۔ آج کچھ عرائض لکھنا چاہوں گا۔

بحمدللہ مجھے لڑکپن اور نوجوانی ایران میں گزارنے کا موقع ملا، وہ بھی اس کے دارالحکومت اور تجارتی و ثقافتی مرکز تہران میں۔ ہمارے اکثر پاکستانی طلاّب مذہبی شہروں قم اور مشہد وغیرہ میں رہتے ہیں، اور زائرین بھی انہی شہروں تک محدود رہتے ہیں اور تہران میں ان کا قیام جنوب تک محدود رہتا ہے یعنی "شہر ری" جہاں شاہ عبدالعظیم (رض) کا روضہ ہے اور بی بی شہربانو سے منسوب مزار واقع ہے۔ جبکہ میرا تجربہ بہت مختلف ہے کیونکہ ایران کے ماڈرن ترین شہر تہران کے مرکز یعنی "میدان انقلاب" کے اطراف میں ہمارا گھر تھا۔ نماز جمعہ و عید کے اجتماعات کے لئے تہران یونیورسٹی باقاعدگی کے ساتھ جاتا تھا جو چند قدموں کے فاصلے پر واقع تھا، بعد میں اسی یونیورسٹی میں پڑھنے کا موقع بھی ملا جہاں ایران بھر کی cream پڑھتی ہے۔

اس دوران لاتعداد ایرانیوں سے اٹھنا بیٹھنا اور دوستی رہی۔ ہم لوگ فارسی تہرانی لہجے میں بولتے تھے اور شکل و شمائل سے بھی ایرانی لگتے تو اکثر ہمیں ایرانی ہی سمجھتے اور بلا جھجک دل کی باتیں کرتے۔ اس دوران مذہب مخالف افراد بھی ٹکراتے، انتہائی مذہبی افراد سے بھی آشنائی ہوئی، انقلاب مخالف لوگ بھی ملے اور انقلاب کے سخت حامی بھی ملے۔ یہاں ایک بات اور بھی بتاتا چلوں کہ انقلاب مخالف ہونے کا لازمی مطلب دین سے دوری نہیں ہے، ایک بڑا طبقہ ہے جو مذہبی ہے لیکن مذہبی حکومت سے جزوی یا کلّی اختلاف رکھتا ہے۔

یہ تاثّر بالکل غلط ہے کہ ایرانیوں کی اغلب تعداد مذہب مخالف ہے، حقیقت اس کے برعکس ہے۔ شاید یہ تاثر اس لئے پیدا ہوا کیونکہ ایران سے باہر جانے والے اکثر افراد مذہب مخالف نظر آتے ہیں۔ ایران سے مغربی ممالک جانا آسان نہیں ہے لہذا یہ لوگ وزٹ پر ترکی اور دیگر ممالک جاتے ہیں جہاں سے یہ مغربی ممالک میں اسائیلم کے لئے اپلائے کرتے ہیں۔ ایک زمانے میں پاکستان کے شہر راولپنڈی میں ان کی ایک بڑی تعداد موجود ہوتی تھی جن کا روز اسلام آباد میں موجود امریکی و پورپی سفارتخانوں میں چکر لگتا تھا۔ اسائیلم میں ان کا کیس مضبوط ہوتا ہے جب یہ اپنے آپ کو ملحد یا کسی اور مذہب جیسے عیسائیت میں کنورٹ ظاہر کرتے ہیں، پھر یہ plea لیتے ہیں کہ ایران میں اسلام سے ارتداد کی سزا موت ہے لہذا ہماری جان کو خطرہ ہے۔ بعض لوگ یہاں"ہم جنس پرستی" کا بھی لبادہ اوڑھتے ہیں۔ یوں ان کو بآسانی اسائیلم مل جاتا ہے۔ یہی لوگ آپ کو زیادہ تر مغرب میں نظر آئیں گے۔

علاوہ ازیں ایرانیوں کی پرانی آبادی جنہوں نے انقلاب کو قبول نہیں کیا اور مذہب گریز تھے انہوں نے 1980 کی دہائی میں مغربی ممالک میں سکونت اختیار کی۔ یہی وجہ ہے کہ ایرانیوں کی اغلب تعداد جو مغربی ممالک مقیم ہے وہ مذہب اسلام سے دور نظر آتی ہے۔ اس کے باوجود بھی جرمنی و فرانس وغیرہ میں ایرانیوں کے بڑے بڑے اسلامی سینٹر وغیرہ قدیم ایّام سے موجود رہے ہیں جو وہاں کام کاج کرنے جاتے تھے اور وہیں رچ بس گئے۔

ایرانیوں کے مزاج کو سمجھنے کے لئے ملک سے باہر مقیم افراد کو کبھی بنچ مارک (معیار) نہیں بنایا جا سکتا۔ اس کے لئے ملک کے اندر مقیم افراد کے ساتھ گھل مل کر دیکھنا ہوگا۔ یہاں پر باقاعدہ تحقیق تو ہم انجام نہیں دے سکتے لیکن مشاہدے کی بنیاد پر بات کر سکتے ہیں۔ مجھ سے پوچھیں تو مجھے ایران کے اندر ملحد بہت ہی کم ملے، البتہ آزاد خیال افراد کی تعداد تہران میں اچھی خاصی ہے۔

ایک بڑے طبقے کے اندر مذہبی افراد کے لئے تھوڑا نفرت کا عنصر پایا جاتا ہے خصوصا تہران میں جہاں اعلی سرکاری عہدوں اور عدالتوں میں عمامہ پوش علماء کی ایک بڑی تعداد ہے، لوگ خیال کرتے ہیں جیسے انہوں نے ان کا استحصال کر رکھا ہے۔ یہ طبیعی بات ہے جب وہ اہم عہدوں پر ایک خاص طبقے کو براجمان دیکھیں یا ان کو بہتر زندگی گزارتے دیکھیں۔ تہران جیسے شہر میں قم کی نسبت علماء (مقامی زبان میں آخوند) کم نظر آتے ہیں، لیکن جب نظر آتے ہیں تو بڑی گاڑیوں میں، کیونکہ تہران میں سرکاری اداروں کے صدر دفاتر ہیں، تو عوام میں تاثر بے جا نہیں ہے۔

ایک بات اور بتاتا چلوں کہ مذہبی اور لبرل ہونے کا معیار ایران میں لباس سے لگایا جاتا ہے۔ مذہبی طبقہ جینز کم پہنتا ہے اور خواتین چادر میں ملبوس ہوتی ہیں جبکہ لبرل طبقہ ٹی شرٹس اور جینز میں نظر آئے گا، خواتین چادر سے اجتناب کریں گی، اسکارف خال خال ہی نظر آئے گا، تہران جیسے شہر میں تو سر کے بجائے گردن میں لٹکا ہوگا۔ عمومی طور پر خواتین کو "چادری" و "غیر چادری" میں تقسیم کیا جاتا ہے اور اسی سے ان کے مذہبی رجحانات کا اندازہ کیا جاتا ہے۔

کوئی مرد نظر آئے جس نے عمامہ پہنا ہو یا گردن میں بسیجی رومال آویزاں کیا ہو، یا عورت نظر آئے جس نے چادر پہنی ہو تو عام عوام اس کے سامنے بات کرنے سے کترائے گی۔ یہ عام تاثر ہے لیکن میں نے غیر چادری اور روشن خیال حلیوں میں خواتین و حضرات کو نماز پڑھتے یا روزہ رکھتے دیکھا ہے۔ غرض یہ ایک عام تقسیم تو ہو سکتی ہے لیکن اس کی بنیاد پر بھی مذہبی اور مذہب گریزی کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔

مختصر یہ کہ ایران سے باہر مقیم افراد کو دیکھ کر پورے ایران کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ مذہبی افراد زیادہ تر ایران میں ہی رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، ملک سے باہر پڑھنے کے لئے یا کاروبار کے لئے ہی جاتے ہیں۔ بلاشبہ ایران کے اندر بڑے شہروں جیسے تہران و اصفہان وغیرہ میں مذہب گریز افراد بھی بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں، لیکن یہ پورے ملک کے مقابلے میں بڑی اکثریت نہیں رکھتے۔

Check Also

Tareekhi Merger

By Khateeb Ahmad