8 February, Youm e Siyah Aur Sarhadi Muhafiz
آٹھ فروری، یوم سیاہ اور سرحدی محافظ

صدیوں پہلے جب اجتماعی انسانی دانش اپنی فکری ارتقاء کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ بے لاگ آزادی انسانی سماج میں اختلال و انتشار کا باعث بن سکتی ہے تو اس بے مہار آزادی کو لگام دینے کے واسطے ریاست کا تصور پیدا ہوا ایک نظم میں منضبط اجتماعی بندوبست یعنی ریاست کو انسانی سماج نے اختیارات تفویض کردیے اور اپنی کمائی کا ایک حصہ بھی ریاستی انتظام کو چلانے کے لئے بصورت ٹیکس وقف کردیا انسان نے یہ سخت فیصلہ اس لئے کر ڈالا کہ بدلے میں ریاست ہر شہری کی جان مال اور آبرو کی حفاظت کی ضامن ہوگی اور کسی بھی شہری کی جان مال اور آبرو کے خلاف اٹھنے والی ہر قوت سے آہنی ہاتھوں سے نمٹے گی یہ ریاست کے وجود کا فلسفہ اور ریاست کی مختصر ترین تاریخ ہے۔
اب ظاہر ہے جب انسانی سماج نے خود ریاست کو وجود بخشا تو سماج میں رہنے والے انسان یا بالفاظ دیگر اصطلاح جدید کی رو سے عوام ہی ریاستی امور کو چلانے کے لئے حکومتی کارندوں کا انتخاب کریں گی یہ نکتہ بیان ہوچکا کہ ریاست و حکومت کی پہلی اور آخری ذمہ داری عوام کی حفاظت ہے اب اگر مثال کے طور پر سوال میری حفاظت کا ہے تو محافظ کے انتخاب کے ضمن میں میرے سوا کیا کوئی اور بہتر فیصلہ کرسکتا ہے؟ حاشا و کّلا
اس بالتفصیل تمہید کو باندھنے سے مقصود یہ ہے کہ ہمارے ملک یعنی پاکستان نامی ریاست میں صرف گنگا ہی الٹی نہیں بہتی بلکہ ہر چیز الٹ پلٹ ہے یہاں اگر چہ سوال میری ہی حفاظت کا ہے ٹیکس بھی میں ہی دیتا ہوں پورا ریاستی انتظام بھی میرے ہی دم سے قائم ہے لیکن میرے پاس یہ حق ہے ہی نہیں کہ میں خود یہ فیصلہ کروں کہ کون میرے پیسوں سے چلنے والی میری ہی ریاست کی مسند حکومت پر براجمان ہوگا یعنی کتنی عجیب بات ہے کہ ایسا اجتماعی نظم (حکومت) جس کا وجود اس جواز پر قائم ہے کہ مملکت کے ہر شہری کی جان مال اور آبرو کی حفاظت کریں گا اس کے انتخاب کا حق اس مملکت کے عوام کے پاس ہے ہی نہیں۔
اس سے زیادہ ایک اور دلچسپ نکتہ ملاحظہ کیجئے اب سوال یہ ہے کہ انتخاب حکومت کا حق اگر عوام کے پاس نہیں تو پھر یہ حق ہے کس کے پاس؟ تو زرا دل تھام کے سنئیے کہ اس مملکت با سعادت میں ریاستی سرحدات کی حفاظت پر مامور وزارت دفاع کے ماتحت ایک ذیلی ادارہ جس کی ذمہ داری فقط ریاست کی چوکیداری ہے وہ یہ حق محفوظ رکھتا ہے کہ سریرائے حکومت پر کون متمکن ہوگا اور کون نہیں۔۔ ہے نہ عجیب بات
یہ ملک اپنی آزادی کے متصل بعد سے لیکر اب تک ان نام نہاد سرحدی محافظوں کے قبضے میں ہے یہاں جو بھی الیکشن ہوا ہے اس میں من پسند لوگوں کو لایا گیا ہے بتایا جاتا ہے کہ ملکی تاریخ کے پہلے عام انتخابات جو سن ستر میں منعقد ہوئے وہ شفاف تھے وہ کتنے شفاف تھے اور شیخ مجیب کو ہرانے کے لئے محافظین سرحدات المعروف اسٹبلشمنٹ نے کیا کیا حربے استعمال کیے یہ دیکھنا ہوں تو اس وقت کے ڈائریکٹر آئی بی راؤ رشید کی معروف آپ بیتی، "جو میں نے دیکھا" کا مطالعہ کیجئے۔ لیکن چلئے مان لیتے ہیں وہ شفاف الیکشن تھا لیکن کیا وہ نتیجہ اصل فیصلہ سازوں کو پسند آیا؟ بلکل بھی نہیں بلکہ عوامی رائے کو نہ ماننے کا نتیجہ ملکی دولختی کی صورت میں نکلا۔
پھر ایک لمبی سیاہ اور درد ناک داستان ہے کہ کس طرح اسٹبلشمنٹ نے اپنی گود میں پلنے والے چہیتوں کو میدانِ سیاست میں لانچ کیا اور نظری با ضمیر سیاستدان حاشیوں میں دھکیل دیے گئے پھر وہی چہیتے جب ذرا خود شناس و خود نگر ہو جاتے تو وہ بھی کھڈے لائن لگا دیے جائے اور نئے چہرے بزم سیاست کی رونق بنتے۔
ماضی قریب میں ان کی فخریہ پیشکش عمران خان صاحب تھے جب نواز شریف صاحب نے اچھا بچہ بننے سے انکار کیا تو عمران خان صاحب اسٹبلشمنٹ کی نگاہ دور اندیش کا نظر انتخاب ٹھرے سن اٹھارہ کے الیکشن میں نواز شریف پابندِ سلاسل ہوئے آر ٹی ایس بیٹھا دیا گیا اور عمران خان صاحب کے حق میں اقتدار کا قرعہ فال نکل آیا لیکن معذرت کے ساتھ وہ نہایت نالائق ثابت ہوئے نہ صرف اسٹبلشمنٹ بلکہ ملکی بقا کا مسئلہ پیدا ہوا لہذا چار و ناچار پھر ان راندہَ درگاہ ٹھرے سیاستدان کو واپس لانے کا فیصلہ ہوا ہمارے ہاں تو بدقسمتی سے حالت یہ ہے کہ سیاستدان قطار میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں بقول احمد فراز
تمام صوفی و سالک سبھی شیوخ و امام
امیدِ لطف پہ ایوان کجکلاہ میں ہے
معززین عدالت (حکومت) بھی حلف اٹھانے کو
مثالِ سائلِ مبرم نشست راہ میں ہے۔۔
لہذا سن چوبیس کا الیکشن ایسے ماحول میں ہوا کہ سابق چہیتے کو جیل میں ٹھونس کر اس کی پارٹی کے تمام سرکردہ لیڈران کو پابندِ سلاسل کیا گیا اور ہر دم تابعدار و فرمان بردار عدالتِ نام نہاد عالیہ کے ذریعے ان کی پارٹی کا نشان ہی چھین لیا گیا۔
اگرچہ عوام نے بھاری اکثریت سے عمران خان کے حمایت یافتہ آزاد امیدوارں کو ووٹ دیا اور عام تاثر یہ تھا پی ٹی آئی دوبارہ اکثریتی جماعت بن کر ابھری گی لیکن بقول حامد میر اصل فیصلہ سازوں کو چونکہ کچھ اور ہی منظور تھا لہذا عوامی عدالت میں ہارے ہووں کو فارم سینتالیس جیتا کر اسمبلی میں بٹھا دیا گیا اور حکومت تشکیل دے دی گئی جو ہنوز پورے آب و تاب سے قائم ہے اور اس ملک کے اصل آئینی اور قانونی حقداروں یعنی عوام کا منہ چڑا رہی ہے لہذا آپ روئے چیخے جلسے کرے فساد دھندے کرے یا یوم سیاہ منائے ہونا کچھ بھی نہیں اس ملک میں وہی ہوتا ہے جو منظورِ مجازی خدا ہوتا ہے اور ہمارا مجازی خدا ہمارے سرحدی محافظ ہے۔۔
وما علینا الاالبلاغ