Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Zameen Zaday

Zameen Zaday

زمین زادے

انفرادی، اجتماعی اور ملکی سطح پر کچھ سیاہیاں ایسی ضرور ہوتی ہیں۔ جنہیں دنیا سے اوجھل رکھنے کی شدید خواہش ہوتی ہے پر کلنک کے یہ ٹیکے بھلا چھپائے کب چھپتے ہیں۔ بظاہر یہ گوری چمڑی والے بہت درد دل رکھنے والے اور انسانیت پسند نظر آتے ہیں۔ مگر اس سچائی سے انکار ممکن ہی نہیں کہ ان سے زیادہ سفاک اور بے رحم قوم شاید اس دنیا میں کوئی دوسری نہیں۔

کینیڈا کی پیشانی کا بدنما و بدترین داغ indigenous people کے ساتھ ان کا امتیازی اور ظالمانہ رویہ کہ یہی مقامی لوگ جنہیں indigenous people کہا جاتا ہے، کینیڈا کے اصلی وارث ہیں۔ ایک بات کی پیشگی معافی کے اس مضمون میں انگریزی کے خاصے الفاظ استعمال ہوں گے کہ ان کو اردو میں لکھنا مشکل ہے۔ امید کرتے ہیں کہ آپ اس کو درگزر کرتے ہوئے پورا مضمون پڑھ لینگے۔

سنہ 1830 میں فرسٹ نیشن، Inuit اینوٹ اور Metis میٹس سے یہ کہہ کر ان کے بچے چھین لیے گئے کہ ہم ان بچوں کو دنیا کا جدید اور فعال انسان بنائیں گے اور نئی روشنی اور جدید تعلیم سے آراستہ کرکے انہیں civilized یعنی تہذیب یافتہ قوم بنا دے گے۔ پر یہ اسی وقت ممکن ہے، جب یہ بچے ماں باپ سے دور نئی جگہ اور نئے ماحول میں پرورش پائیں۔ یہ کہہ کر ان ظالموں نے ماؤں کی گود اجاڑنے کی مہم شروع کر دی۔

ماؤں سے ان کے گود کے بچے بھی چھین لیے اور ان بچوں کو دور افتادہ جگہوں پر بنائے گئے اسکولوں میں بھیج دیا گیا۔ بیشتر یہ اسکول Roman Catholic Anglican Church کے زیر انتظام تھے اور ان کو چلانے کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کی ذمہ دار کینیڈین حکومت کی تھی۔ ان کا مقصد فرسٹ نیشن کے کلچر اور رسم و رواج کو جڑ سے ختم کرنا تھا۔ اصل میں یہ ساری تحریک و سازش فرسٹ نیشن کی بے تحاشا طول و عرض میں پھیلی زرخیز زمین ہتھیانے کے لیے تھی۔

نیٹیو لوگوں کا رہن سہن بہت مربوط تھا اور وہ قدرت سے جڑے ہوئے، قدرت کے نبض شناس لوگ تھے۔ گوروں نے ڈیڑھ صدی میں ان کی چھ سات نسلیں تباہ کر دیں۔ بے دریغ ان کی گود اجاڑ کر نہ صرف ان کی افرادی قوت کم کی بلکہ ان کی قدرتی وسائل سے مالامال زمینوں پر قبضہ بھی کیا۔ جس نے مزاحمت کی، ان گوروں کو للکارا اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔

ڈھائی تین سال سے لے کر سولہ سال تک کے بچے ان کا ہدف تھے۔ ان بچوّں کو جبراً اپنے قبضے میں کرنے کے بعد سب سے پہلے انہیں اپنے بھائی بہن سے الگ کر دیا جاتا اور ان کا آپس میں ملنا اور بات کرنا تو بڑی دور کی بات وہ اسکول گراؤنڈ میں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا بھی نہیں سکتے تھے۔ معمولی معمولی باتوں پر چمڑا ادھیڑنا اور مار مار کر ادھ مرا کر دینا اسکول کا پہلا اصول ٹھہرا۔

اسکول، پریسٹ Priest اور نن Nun کی جاگیر سمجھی جاتی اور بچے وہاں کی بے زبان رعیت تھے۔ پورے کینیڈا میں 139 ریسیڈنشل اسکولز (residential schools) تھے۔ اسکول میں داخلے کے ساتھ ہی ان بچوں سے ان کے کپڑے اور ان کی ہر چھوٹی بڑی چیز چھین لی جاتی، بال کاٹ دئیے جاتے اور انہیں بد وضع وردی فراہم کی جاتی جس پر نمبر چھپا ہوتا۔ اسکول کے احاطے میں داخلے کے ساتھ ہی ان کی شخصیت کو مکمل طور پر ختم کر کے انہیں۔

بے شناخت کر دیا جاتا اور پھر وہ اپنے ناموں سے نہیں، بلکہ الاٹ شدہ نمبر سے پکارے جاتے۔ ان کی پہچان و شناخت وہ الاٹ شدہ نمبر ہوتا۔ بچوں پر مادری زبان بولنے پر پابندی ہوتی اور زبردستی انہیں انگریزی یا فرنچ بولنی پڑتی تھی۔ جب تک وہ یہ زبانیں سیکھ نہ جاتے تب تک بید اور ہنٹر کی مار ان کا مقدر ہوتی۔ تنگ و تاریک اور سیلن زدہ کمرے جس کی وجہ سے بچوں میں بیماریاں عام تھیں۔ پہلے نمبر پر ٹی۔ بی پھر انفلوئنزا اور تیسری خطرناک ترین بیماری نکسیر کی تھی۔

ان بچوں کا کھانا انتہائی ناقص اور نا کافی ہوتا تھا۔ ناشتے میں پوریج اور دن میں پیاز کا سوپ اور رات میں چار انچ کا منجمد گوشت کا ٹکرا۔ 1830 سے لے کر انیس سو نوے 1990 تک تقریباً 150، 000 دیڑھ لاکھ بچے اس ظالمانہ نظام کے بھینٹ چڑھے۔ ان اسکولوں سے زندہ بچ جانے والوں کی تعداد تقریباً 80000 ہے۔ ان مدارس کے ظالم اساتزہ نے ظلم و بربریت کو روا رکھتے ہوئے بےدریغ بچے مارے۔

بھوک، نا کافی غذا، بیماریاں، تشدد اور آتشزدگی میں لاتعداد اموات ہوئیں۔ جن کا کہیں اندراج نہیں، اس سفاکیت کی بھینٹ چڑھنے والے معصوموں کو اسکول کے پچھواڑے بے نام و نشان قبروں میں دبا دیا جاتا تھا۔ جو بچے اس تشدد کے باوجود زندہ بچ گئے، ان کی روداد دل گداز انتہائی ہولناک ہے۔ لڈیا روث بتاتی ہے کہ اسکول میں داخلے کے ساتھ ہی انہوں نے اس کا سارا نجی سامان چھین کر اس کی شناخت مٹا دی۔

اسے بدرنگا اور بوسیدہ یونی فارم دیا۔ جس پر نمبر چھپا ہوا تھا۔ اسکول میں بچوں کو نام سے نہیں بلکہ نمبر سے بلایا جاتا تھا جیسے وہ جیتے جاگتے انسان نہیں بلکہ کوئی جنس تھے۔ این مشیل کا کہنا ہے کہ اس کے ساتھ اس کے تین بھائی بھی تھے مگر ان چاروں کو الگ الگ احاطے میں رکھا گیا۔ انہیں مادری زبان بولنے کی اجازت نہیں تھی۔ آپس میں بولنا اور ملنا تو درکنار ایک دوسرے کو دیکھنا بھی قابل سزا جرم تھا۔

اسکول کی بربریت سے تنگ آ کر این کے دو بھائیوں نے خود کشی کر لی مگر این کو رونے کی بھی سہولت و اجازت نہیں تھی۔ جوشیا فیڈلر نے اپنی داستان غم یوں سنائی کہ جب وہ اسکول میں داخل ہوا تو بمشکل تین ساڑھے تین سال کا تھا اور اپنی بولی کہ علاؤہ کچھ بھی بولنے اور سمجھنے سے قاصر تھا۔ اس بے کسی پر اس کی تواضع تھپڑ، گھونسے، لات اور بیدوں سے کی گئی۔

درد و تکلیف سے وہ چیخ چیخ کر روتا اور اس رونے پر اسے مزید مار پڑتی۔ انتہائے سزا یہ کہ اس کم سن بچے کو اکیلے کاٹھ کباڑ سے بھرے اندھیرے اور گھٹے ہوئے اسٹور روم میں بند کر دیا جاتا۔ اس کا رونا اور بلبلانا پریسٹ اور نن کی تفریح طبع کا باعث تھا۔ بس پھر اس ننھے باغی نے یہ تہیہ کرلیا کہ وہ انہیں ہرگز ہرگز یہ خوشی نہیں دے گا اور اس نے رونا چھوڑ دیا۔ اب جوشیا فیڈلر بوڑھا ہو چکا ہے اور کہتا ہے چاہے کچھ ہو جائے، کیسا ہی غم مجھ پر کیوں نہ ٹوٹ پڑے مجھے رونا نہیں آتا۔

مجھے ان لوگوں پر رشک آتا ہے۔ جو رو سکتے ہیں کہ میری آنکھیں سدا کی خشک و صحرا ہیں۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ اس کے اسکول میں ایک لڑکے نے مین ہال میں خود کو پھندا لگا کر خودکشی کر لی۔ اس کی خود کشی کو نشان عبرت بنا کر سب بچوں کو قطار میں لگا کر بڑے ہال میں لے جایا گیا تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے یہ بھیانک نظارہ کریں۔ تین دن تک اس مظلوم لڑکے کی لاش وہاں جھولتی رہی۔

اسکول میں ہر طرح کا استحصال تھا۔ لڑکیاں جوان ہوتیں تو انہیں کچھ بھی نہیں بتایا جاتا، بس گندے کپڑے کے چیتھڑے دے کر ان لڑکیوں کا اندراج دوسرے ریجسٹر میں کر لیا جاتا اور وہ پریسٹ کی آسودگی کا ذریعہ ہوتیں۔ نیٹیو (مقامی) بچوں کے مذہب کی برائی اور پوری شد و مد سے عیسائیت کا پرچار کیا جاتا۔ ان اسکولوں میں ہر طرح کا استحصال روا تھا اور بلا امتیاز لڑکے اور لڑکیوں کا باقاعدہ ریپ کیا جاتا اور اس نتیجے میں پیدا ہونے والے نوزائیدہ بچوں کو خاموشی سے اسکول کے پچھواڑے زمین میں گاڑ دیا جاتا۔

کتنی ہی کم عمر لڑکیاں زچگی کی اذیت اور عدم سہولیات کے سبب مر جاتی یا پھر مختلف پیچیدگیوں کا شکار ہو کر جب تک زندہ رہتی سسک سسک کر جیتیں۔ ان ریسیڈنشل اسکولز میں تقریباً چھ ہزار بچے مار کر بے نام قبروں میں دبا دیے گے تھے۔ جو بچہ ایک بار ان اسکولوں میں گیا وہ شاید ہی کبھی دوبارہ اپنے والدین سے مل سکا۔ یہ سارا ظلم اور بربریت اس ملک میں رواں تھی۔

جو انسانیت کا محسن اور چمپئن ہونے کا دعوے دار ہے۔ آخر کار ان بچے کھچے فرسٹ نیشن کے لوگوں اور کچھ انسان دوستوں کی کوششوں سے یہ ظلم 1990 میں اختتام پذیر ہوا اور بالآخر کینیڈا میں آخری ریسیڈنشل اسکول بھی بند کر دیا گیا۔ 11 جون 2008 کو کینیڈا کے پرائم منسٹر اسٹیفن ہارپر نے فرسٹ نیشن سے معافی مانگی اور انہیں ہرجانہ بھی دیا، مگر کیا والدین سے ان کے معصوم بچوں کی اس جبری جدائی کا کوئی مداوا ہو سکتا ہے؟

کیا یہ رستا زخم کبھی بھر سکے گا؟ جو بچےاس بہیمانہ سفاکیت کے سبب اپنی جانوں سے گزر گئے، ان کا کوئی بدل ہے؟ پچھلے سال ایک ڈرون نے Kamloops کے متروک ریسیڈنشل اسکول میں 251 بے نام قبروں کا کھوج لگایا۔ اب حکومت ترجیحی بنیاد پر ہر ریسیڈنشل اسکول کے اطراف کو کھوج رہی ہے اور ستم گری کی انتہا دیکھیے کہ تقریباً ہر ریسیڈنشل اسکول سے بچوں کے باقیات مل رہے ہیں۔

کینیڈا کے وارث فرسٹ نیشن والے بڑے باکمال اور سجیل لوگ تھے۔ قدرت ہی طرح فیاض اور خوب صورت، ان گوروں نے انہیں نشے کی لت میں مبتلا کر کے تساہل مزاج بنا دیا اور اب ان کا کام صرف نشہ کرنا اور بچے پیدا کرنا رہ گیا ہے۔ ان کی نسلیں اس قدر بگڑ گئی ہیں کہ آدمی ان کی قربت سے گھبرا جاتا ہے۔ اگر وہ ٹرین کے ڈبے میں سوار ہو جائیں تو ان کی ہیئت کذائی اور ان کے جسم کی بد بو سے آپ پریشان ہو کر یہ کوشش کرے گے کہ اپ اگلے اسٹیشن پر اپنا ڈبہ یا بس ہی بدل لیں۔

ان مقامی native لوگوں کو مخصوص علاقوں یعنی reserved areas میں رہنے کی اجازت ہے، اور وہ علاقے زندگی کی ہر سہولت سے عاری ہیں۔ پینے کو صاف پانی نہیں اور اس شدید موسم میں بجلی گیس کی فراہمی مستقل نہیں۔ نشے نے ان کے جسموں کو کام کرنے جوگے چھوڑا نہیں، نتیجتاً وہ چوری چکاری میں ملوث رہتے ہیں اور عوامی جگہوں اور ریلوے اسٹیشن یا بس ٹرمنل پر پولیس والے ان کے پیچھے لگے رہتے ہیں۔

کسی بھی جرم کے شبہے میں پولیس سب سے پہلے انہیں ہی شامل تفتیش کرتی ہے۔ یہ زمین ذادے جو اس ملک کے اصلی وارث ہیں۔ وہ اپنی ہی سر زمین میں دور کتا دور شیطان کی مانند راندہ درگاہ ہیں۔ یہ گورے جو خود کو دکھی انسانیت کے اجلے ان داتا کے روپ میں پیش کرتے ہیں ان کے کالے کرتوتوں کے گھائل یہ بد نصیب نٹیو یعنی مقامی لوگ پتہ نہیں آدمی اتنا ظالم کیوں ہے؟

وہ کینیڈا جو ہم جیسے تھرڈ ورلڈ کے باسی کو خوشی خوشی گلے لگاتا ہے، وہ کینیڈا جو شامیوں کے لیے اپنی امیگریشن پالیسی نرم کر کے خوشدلی سے ان خانماں برباد، لٹے پٹے مہاجروں کو اپنے گھر میں بساتا ہے۔ اسی کینیڈا کا دوسرا چہرہ کتنا کریہ اور کردار کتنا قبیح ہے۔ آخر ہم لوگ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی اتنی خوب صورت دنیا میں لوگوں کو سکون سے کیوں نہیں جینے دیتے۔

"جیؤ اور جینے دو "

محض نعرہ ہی کیوں ہے؟

جانے یہ عملی کب ہو گا؟

آخر کب؟

جانے کب ہوں گے کم

اس دنیا کے غم

جینے والوں پہ سدا

بے جرم و خطا

ہوتے رہے ستم

کیا جس نے گلہ، ملی اور سزا

کئی بار ہوا یہاں خون وفا

بس یہی ہے صلہ دل والوں نے دیا

یہاں دار پہ دم

جانے کب ہوں گے کم

اس دنیا کے غم

شاعر۔ ریاض الرحمن

Check Also

Khyber Pakhtunkhwa Ka Jahannam

By Najam Wali Khan