Mare Thay Jinke Liye (1)
مرے تھے جن کے لیے (1)
سترھویں فلور پر میرے سامنے والا خالی فلیٹ، کل شام آباد ہو گیا۔ بچوں کی چہکار سے بچوں والا گھر معلوم پڑتا ہے۔ کانوں میں اڑتی اڑتی آوازوں نے جہاں رس گھولا، وہی جی بھی شاد ہوا کہ گفتگو میں اردو کے ٹاکے کثرت سے تھے۔ پردیس میں ہم زباں کا ملنا نعمت غیر مترقہ۔ اب تک کے میرے دونوں پڑوسی گورے تھے اور میں اس خیال سے ہی سرشار تھی کہ اب میری زبان کا زنگ گھلے گا اور میں رج کے اپنی زبان میں گفتگو کروں گی۔
میں نے نئے آباد پڑوسی کو خوش آمدید کہنے کے لیے پوری لگن اور خوشی کے ساتھ رات کے کھانے کے لیے اضافی بریانی اور پڈنگ بنائی اور بڑے اہتمام سے زرکار خوان ہوش سے ٹرے کو مسطور کر کے ان کے دروازے کی گھنٹی بجائی۔ اندر سے ہبڑ دبڑ اور کسی ڈبے سے ٹکرانے کے بعد با آواز بلند "اف" کی صدا کے ساتھ ہی دروازہ کھلا۔ سامنے ایک جوان ملگجے حیلے اور بکھرے بالوں میں کھڑا تھا۔
سلام دعا کے بعد میں نے ٹرے اس کے حوالے کی، اتنے میں ایک دو ڈھائی سالہ بچہ اپنی بے تحاشہ خوب صورت تحریر زدہ آنکھیں پٹپٹاتا ہوا، بابا کہتا اس کی ٹانگوں سے لپٹ گیا۔ میں خوشگوار حیرت سے دو چار ہوئی کہ یہ کم سن نوجوان تو باپ کے مرتبے پر فائز ہے۔ میں اسے دروازہ کھلا رکھنے کی تاکید کرتے ہوئے ترنت پلٹی اور اور دوسرا ٹرے جس میں چائے کا تھرماس اور انڈے کا ڈبہ اور دبل روٹی کا پیکٹ تھا، اس میں شتابی سے ٹک اور میری بکسٹ کا ایک ایک ڈبہ اور پلین چپس کے ایک پیکٹ کا اضافہ کر کے اسے پکڑا دیا۔ وہ روایتی تکلف سے کام لینے گا۔
نہیں نہیں خالہ یہ بہت ہے۔
ارے کچھ بہت نہیں ہے بھئی شفٹنگ بہت محنت طلب کام ہے، چائے سے تھکن اتارو، اگر کسی مدد کی یا چیز کی ضرورت ہو تو بلا تکلف میری گھنٹی بجا دینا۔ کل میرے دونوں بیٹے بھی گھر پر موجود ہوں گے وہ بھی تماری مدد کر دیں گے۔ یہ کہتے ہوئے میں اپنے فلیٹ پلٹ آئی۔ رات کے کھانے پر دونوں بیٹوں ابصار و انصار کو بھی نئے پڑوسی سے آگاہ کیا اور ساتھ ہی ساتھ ان کی مدد کرنے کا بھی کہ دیا، جیسے بڑے نے مسکراتے اور چھوٹے نے "لو شروع ہو گیا ان کا سوشل ورک" کے تاثر کے ساتھ سنا۔
اب مجھے پردیس کاٹتے ہوئے تقریباً سولہ برس بیت چکے ہیں۔ زندگی نے مجھے خوب خوب جھکولے دیے پر شکر اس مالک کا کہ اس نے ہاتھ نہیں چھوڑا۔ میں کراچی یعنی شہر دلبرا کی متوسط طبقے کی ایک عام سی لڑکی تھی جس کے خواب بھی اسی کی طرح معمولی اور چھوٹے چھوٹے سے تھے۔ بس اتنا ہی کہ ایک نیم کی گھنیری چھاؤں والا آنگن ہو جہاں سر کے سائیں کے ہمراہ آباد گود کے ساتھ شاد رہوں۔ نہ مجھے چاند تسخیر کرنا تھا اور نہ ہی گینز بک آف ورلڈ میں کوئی ریکارڈ رقم کرنے کی خواہش۔
سنہ چوراسی میں جامعہ کراچی کی شعبہ فارمیسی سے فارغ ہوتے ہی بیاہ کر حیدرآباد کے تاریخی علاقے پکہ قلعہ کی مکین ہوئی۔ یہیں میرے سسر سید اقتدار حسین دلی سے ہجرت کر کے اپنے والدین اور پانچ بھائی بہنوں کے ساتھ آباد ہوئے تھے۔ جمشید میرے من میت نے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی اور خوش قسمتی سے ان کی نوکری حیدرآباد ہی میں لگی۔ شادی کے تیسرے سال ابصار میری گود میں تھا۔
زندگی نے کھٹاس اور تلخی سے بھی آشنائی کرائی مگر مجموعی طور پر میری زندگی خوشگوار اور آرام دہ تھی۔ انیس سو نوے میں دوبارہ امید سے تھی اور میرا یہ حمل اپنے پہلی سہ ماہی ہی سے سخت ترین تھا۔ ان دنوں ماحول میں حیدرآباد کی روایتی گرمی کے علاوہ سیاسی پارے نے بھی خوب تپ چڑھائی ہوئی تھی۔ کچھ دن پہلے ہی میرا چھوٹا دیور مہران یونیورسٹی میں لسانی تعصب کی بناء پر شدید زد و کوب کیا گیا اور اسی باعث وہ آج کل گھر پر صاحب فراش تھا۔
بیس مئی کو اچانک ہی خبر پھیلی کہ پکہ قعلہ کی بڑی ٹینکی جو پورے علاقے کو پانی مہیا کرتی تھی اس میں زہر ملا دیا گیا ہے۔ پورے علاقے میں شدید اضطراب پھیل گیا۔ لوگ ڈی سی صاحب کے آفس بھاگے مگر کوئی سنوائی دہائی نہ ہوئی۔ اپنی مدد آپ کے تحت ٹنکی خالی کی گئی اور تین دن تک ٹنکی کا پانی گلی کوچوں میں بہتا رہا۔ اماں نے میرے مضروب دیور اور اس کی تیمار داری کے خیال سے چھوٹی نند عفت کو منجھلی پھوپھی کی طرف لطیف آباد روانہ کر دیا۔
جمشید نے مجھ سے پوچھا بھی کہ کہو تو تمہیں کراچی چھوڑ آؤں یا پھر تم بھی منجھلی پھوپھی کی طرف لطیف آباد چلی جاؤ۔ میں نہ مانی، میں نے کہا نہیں، میں ادھر ہی ٹھیک ہوں۔ ایک عجیب سا ڈر تھا جس سے دل بیٹھا جاتا تھا۔ پچیس تاریخ کو پولس اور سندھ ریزو پورے علاقے میں گشت کرنے لگی اور ہم سب نے اطمینان کا سانس لیا کہ حکومت ہم سے بے خبر نہیں مگر یہ خوش گمانی چھبیس کی شام ہوتے ہوتے گلے کا پھندا بن گئی۔
ان لوگوں نے علاقے کو چاروں طرف سے گھیر کر علاقے کی ناکہ بندی کر دی اور ساتھ ہی ساتھ بجلی، پانی اور گیس کی ترسیل بھی منقطع کر دی گئی۔ رات ڈھلنے سے پہلے ہم پہ قیامت صغریٰ ڈھا دی گئی۔ پولیس والوں نے گھروں میں گھس کر لوٹ مار اور قتل عام شروع کر دیا۔ مردوں اور بزرگوں کو چن چن کے مارا جانے لگا۔ عزت آبرو، جان و مال کچھ بھی محفوظ نہیں تھا۔ گھر سے جمشید اور میرے سسر کو بھی پکڑ کر لے گئے۔
اماں پیاس سے نڈھال، ابا اور جمشید کی خبر لینے اور ابصار کے لیے دو گھونٹ پانی کے بندوبست کے واسطے سر پر قرآن شریف لے کر نکلی اور گولیوں سے چھلنی کی گئیں۔ اماں اپنی جنم جنماتی اور پرکھوں سے آباد زمین چھوڑ کر، ہندوؤں اور سکھوں کے قہر اور انتقام سے بچ بچا کر اپنی پاک سر زمین پہ اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں اور بیٹوں کے ہاتھوں ماری گئی۔
اماں اور ابا کا جرم محض اتنا تھا کہ وہ سندھ کے بیٹے نہیں تھے مگر بخشا انہوں نے جمشید کو بھی نہیں جن کی پیدائش بھی پکہ قعلہ کی تھی اور سندھی زبان ایسی رواں کیا سندھیوں کی ہو گی۔ جمشید جنہیں شاہ جو رسالو حفظ تھی اور جو مکلی اور تھر کے شیدا تھے وہ اپنی پسندیدہ خاک میں پیوند خاک ہوئے۔ وہ بڑا ظالم اور سفاک وقت تھا، جانے کن دقتوں سے میرے ماں باپ حیدرآباد پہنچے اور مجھے اور ابصار کو کراچی لے آئے۔
میں فقط پانچ سال کی بیاہتا، محض انتیس برس کی عمر میں بیوہ ہو گئ۔ میرے آگے لق و دق صحرا اور تن تنہا آبلہ پائی کا سفر تھا۔ میں مہینوں ہوش و خرد سے بے گانہ رہی مگر انصار کی پیدائش کے بعد مجھے ہوش میں آنا ہی پڑا کہ میرے ساتھ اب دو بچے بھی تھے جو میرے محبوب کی نشانی اور میری کل متاع تھے۔ سو عاشق زار بیوی کو اپنے دل میں دفن کر کے بچوں کی محافظ ماں آگے آ گئ اور پھر زندگی جدوجہد سے عبارت ہوئی۔
میرا پاکستان کی خونی زمین سے دل اجڑ چکا تھا اور میں اپنے بچوں کے لیے کسی پر امن گوشے کی تمنائی تھی۔ ایسی جگہ جہاں انہیں زمین کا بیٹا ثابت کرنے کے لیے کاغذات کی ضرورت نہ ہو اور کوئی انہیں اپنے ہی گھر میں مہاجر کہتے ہوئے اردو بولنے کی پاداش میں بے دردی سے قتل نہ کر دے۔ میں نے بڑی کوششوں سے کینیڈا کی امیگریشن اپلائی کی اور امیگریشن ملنے پر ٹورانٹو آ کر بس گئی۔
یہاں زندگی آسان نہ تھی پر محفوظ تھی۔ ابصار اور انصار فرمانبردار تھے اور انہوں نے مجھے مزید دقت سے دو چار نہیں کیا۔ ابصار انجینئرنگ کر کے اب اچھی نوکری پر لگ چکا تھا اور میں اس کا گھر بسانے کی آرزو مند تھی۔ اگلے مہینے سے ابصار کو وینکوور منتقل ہونا تھا کہ اب وہیں اس کا دانہ پانی تھا۔ ایک ہفتے کے بعد میری نیچے لانڈری میں سامنے والی سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔