Pakistani Jahazon Ne Rafael Kaise Giraye
پاکستانی جہازوں نے رافیل کیسے گرائے

اگر آپ نے ائیر وائس مارشل جناب اورنگزیب احمد کی بریفننگ سنی ہو تو انہوں نے پاکستانی فائٹر جہازوں کا بھارتی جہازوں کو مار گرانے کے ضمن میں ایک اصطلاح استعمال کی جس کو انہوں نے Beyond Visual Range (BVR) کا نام دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ Dogfight (اصل میں یہ بی وی آر فائٹ ہے ڈاگ فائٹ کا لفظ عمومی طور پر استعمال کی وجہ سے لکھا ہے) دنیا کے لیے ایک کیس سٹڈی ہوگی اور ایک ٹیکسٹ بک مثال بن جائے گی۔ یقیناً یہ ہوائی جنگ پاکستان کے لیے ایک ایسا کارنامہ ثابت ہوئی ہے جس کو جنگوں کی تیاری کے انسٹیٹوٹ پڑھائیں گے۔
"we call this the new art of war، this is BVR fight ": Aurangzeb Ahmed AVM PAF
پاکستان اور بھارت کی اس جنگ میں سب سے اہم اور دلچسپ چیز Dogfight تھی جس میں 110 سے زیادہ جہازوں نے دونوں طرف سے حصہ لیا۔ اس لڑائی کے بارے میں اورنگزیب احمد صاحب کی ایک اصطلاح کو واضح کرنے کی کوشش کروں گا۔ لڑاکا طیاروں کی ہسٹری میں پائلٹ اپنی آنکھ سے دشمن کے جہاز کو دیکھ کر ہی اس پر فائر کرتے تھے لیکن پھر جہازوں کی بڑھتی رفتار اور میزائلوں کی پاور نے اتنے قریب سے لڑائی کی تکنیک کو پرانا کردیا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ہی ایسے میزائلوں پر کام شروع ہوگیا تھا جو صرف ریڈار کی مدد سے ہی مخالف جہاز کو ٹارگٹ کرنے کے قابل ہوں۔ اس مقصد کے لیے ریڈار ٹیکنالوجی پر کام شروع ہوا جو ان میزائلوں کو بصری رینج سے آگے کے ٹارگٹ تک پہنچنے میں مدد کرنے لگی۔ میزائل پر اس قسم کی لڑائی کے لیے ریڈار سگنلز کی کمیونیکیشن کو جدید سے جدید بنایا گیا اور Missile Guidance نظام میں پیچیدہ ٹیکنالوجی استعمال ہونے لگی۔ زیادہ تفصیل میں جانے کی بجائے آپ کو میزائل گائیڈنس کی دو جدید ٹیکنالوجیز کے بارے میں بتاتا ہوں۔
ایک کو Semi-active Radar Homing کہا جاتا ہے جس میں میزائل لانچ ہونے کے بعد (لانچ کرنے والے) جہاز سے ٹارگٹ کے بارے میں سگنل موصول کرتا رہتا ہے اور اپنا راستہ طے کرتا ہے۔ اس قسم کے میزائل سستے ہوتے ہیں لیکن اپنے ٹارگٹ کے لیے لانچ کرنے والے جہاز یا گراؤنڈ اسٹیشن کے محتاج ہوتے ہیں۔ مثلاً جس جہاز سے لانچ کیا جائے وہ اس صورت میں خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
جبکہ دوسری قسم اس سے جدید Active Radar Homing(ARH) ہے جس میں میزائل کے ساتھ دو طرفہ کمیونیکیشن چل رہی ہوتی ہے یعنی میزائل میں ریسیور اور ٹرانسمیٹر دونوں ہی ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ میزائل جب اپنے ٹارگٹ کے بہت قریب ہوتا ہے (terminal phase) تو میزائل خود سے اپنا راستہ طے کرتا ہے اور ٹارگٹ کے ساتھ خود انگیج ہوتا ہے۔ یہ یاد رہے کہ یہ BVR کا طریقہ بہت رسکی ہوتا ہے اگر میدان جنگ میں اپنے اور دشمن کے جہاز بکھرے ہوئے ہوں تو اپنے اور پرائے کو پہچاننا مشکل ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ایک نظام استعمال ہوتا ہے جس کو IFF (Identification friend or foe) کہتے ہیں۔ یہ IFF اس BVR کی صورت میں اتنا ایڈوانس نہیں ہے۔
ابھی تک اس قسم کے میزائلوں کا Kill rate اتنا زیادہ نہیں ہے۔ ابھی تک تاریخ میں (1965 سے 1982 تک) 528 کے قریب ایسے BVRAAM استعمال ہوئے ہیں جن میں سے صرف 4 ایسے ہیں جو اپنے نشانے پر لگے ہیں۔ گلف وار میں اس کی کارکردگی سب سے زیادہ تھی۔
اس ARH ٹیکنالوجی کے حامل میزائل کے لیے Fire and Forget کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے یعنی میزائل فائر کریں اور بھول جائیں کیوں کہ میزائل اپنا راستہ خود سے کھوجتا ہے۔
پاکستان نے حالیہ جنگ میں جو PL15 استعمال کیے ہیں وہ بھی ایسی ہی خاصیت رکھتے ہیں اس کے علاوہ پاکستان کا اپنا خودساختہ میزائل Faaz، یا "فاز" اسی کیٹگری کا ہے اور اس کو جے ایف 17 پر نصب کرنے کا کام ابھی جاری ہے۔ پاکستان کا یہ میزائل GIDS کمپنی نے بنایا ہے اور اس میزائل کا ڈیزائن کانسیپٹ چین کا PL-12 ہے۔ اس فاز کے مختلف ورژن ہیں جن میں ARH کے ساتھ ساتھ Infrared Homing کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔
انڈیا کے پاس بھی Astra کے نام سے ایسا BVR میزائل موجود ہے جو رافیل، میراج 2000 اور Su-30 پر نصب کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کا BVR سسٹم کے ذریعے دشمن کے جہازوں کو مار گرانا صرف میزائل ٹیکنالوجی یا گائیڈنس سسٹم کا ہی کمال نہیں ہے بلکہ پائلٹ کی مہارت کا بھی منہ بولتا ثبوت ہے۔
یہاں پر جہاز گرانے کے دعووں کو ثابت کرنے سے زیادہ اس ٹیکنالوجی کی وضاحت ہے۔