Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sana Shabir
  4. Social Media Ke Ghalat Istemal

Social Media Ke Ghalat Istemal

سوشل میڈیا کے غلط استعمال

سوشل میڈیا کے غلط استعمال کا مطلب ہے سوشل میڈیا کا وہ استعمال جو غیر مجاز ہے، جو اسکول سے متعلقہ افراد کو دھمکی دیتا ہے، ذلیل کرتا ہے، ہراساں کرتا ہے، یا ڈراتا ہے، تعلیمی عمل میں خلل ڈالتا ہے، اور یا مقامی، ریاستی یا وفاقی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ پچھلے چھ سات سالوں سے، سوشل میڈیا ہماری روزمرہ کی زندگی میں تیزی سے مقبول ہوا ہے۔

یہ نہ صرف طالب علموں کو بلکہ تاجروں کو بھی ایک ایسا فورم فراہم کرتا ہے جہاں وہ ایک دوسرے سے بات چیت کر سکتے ہیں قطع نظر اس سے کہ ان کو الگ کرتا ہے۔ "سماجی" حصے سے مراد دوسرے لوگوں کے ساتھ معلومات کا اشتراک کر کے ان سے معلومات حاصل کرنا ہے۔ "میڈیا" کے حصے سے مراد مواصلات کا ایک آلہ ہے، جیسے "انٹرنیٹ"۔ ان دو الگ الگ اصطلاحات سے ہم سوشل میڈیا کی تعریف نکال سکتے ہیں۔

سوشل میڈیا ایک جملہ ہے جو آن لائن کمیونیکیشن چینلز کے مجموعے سے نمٹا جاتا ہے۔ جو لوگوں کو معلومات، تصاویر، ویڈیوز وغیرہ کو بات چیت، اشتراک اور تبادلہ کرنے کے قابل بناتا ہے۔ ورچوئل نیٹ ورکس کے ذریعے واضح طور پر، سوشل میڈیا جغرافیائی حدود سے قطع نظر لوگوں کو جوڑتا ہے۔ یہ ایک فرد کو مختلف ثقافتوں کے مختلف لوگوں سے جوڑتا ہے۔ فیس بک، ٹویٹر جیسی سائٹس نے آن لائن کمیونٹیز بنائی ہیں جہاں لوگ اپنی ذاتی معلومات کو اپنی مرضی کے مطابق شیئر کر سکتے ہیں۔

دیگر ویب سائٹس جیسے Digg، Reddit، مخصوص معلومات، تصاویر وغیرہ کو تلاش کرنا آسان بناتی ہیں۔ پہلے سوشل میڈیا اپنے ممالک کے بارے میں جاننے یا کچھ رشتوں کو برقرار رکھنے کا پلیٹ فارم تھا۔ لیکن اب سوشل میڈیا معلومات کو شیئر کرنے یا پلک جھپکنے کے ساتھ بات چیت کرنے کا ذریعہ بن گیا ہے۔ مثال کے طور پر فیس بک کا مقصد کسی فرد کی بات چیت میں مدد کرنا ہے۔ سوشل میڈیا نے ہماری زندگیوں کو متاثر کیا ہے۔

سوشل میڈیا کی وجہ سے لوگوں کو ایک مشترکہ ذریعہ کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کرنے کا موقع ملتا ہے۔ سوشل میڈیا کو کئی وجوہات کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے، لوگ دوسروں سے بات چیت کر سکتے ہیں۔ دوسرا، مختلف سائٹس کے ذریعے مسائل، واقعات کے بارے میں معلومات حاصل کرنا یا فراہم کرنا۔ اب تک یہ واضح ہے کہ سوشل میڈیا کا ہمارے کاروبار، ثقافت اور پوری دنیا پر زبردست اثر پڑتا ہے۔

"سوشل میڈیا ویب سائٹس انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ مقبول مقامات میں سے کچھ ہیں۔ انہوں نے ویب پر لوگوں کے بات چیت اور سماجی ہونے کے طریقے میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ " اس قسم کی ٹیکنالوجی کا مسلسل استعمال ہمارے لیے نقصان دہ ہے کیونکہ یہ خود کو لوگوں کے صرف ایک گروپ تک محدود کر رہا ہے جو دوست نہیں ہیں بلکہ دوست ہونے کے مترادف ہیں۔

سوشل میڈیا نہ صرف لوگوں کو متاثر کر رہا ہے بلکہ منفی معنوں میں سیاست، کاروبار کے ساتھ ساتھ سائبر بلنگ کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ سوشل میڈیا معلومات کا ایک بہترین ذریعہ ہے لیکن بڑے پیمانے پر لوگوں نے اس کا غلط استعمال کیا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی اچھے سے زیادہ نقصان پہنچا رہی ہے۔

سوشل میڈیا کا نہ صرف طالب علموں کے ذریعہ غلط استعمال یا زیادتی ہوتی ہے بلکہ یہ تاجروں، ملازمین وغیرہ کی طرف سے بھی ہوتی ہے۔ گالی کی بات کرتے ہوئے سیاست ذہن میں آ جاتی ہے۔ سوشل میڈیا کے غلط استعمال کا اتنا ہی خطرہ ہے جتنا کہ آپ کا کمپیوٹر وائرس کا ہے۔ جسٹس کاٹجو نے نشریات کی وزارت کو لکھے خط میں کہا کہ لوگوں، برادری، مذہب وغیرہ کو بدنام کرنے کا ایک نیا عمل شروع کیا گیا ہے سوشل میڈیا کے ذریعے۔

غلط اور غیر معتبر معلومات: بدنامی کے علاوہ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کا غلط استعمال بھی بڑھ رہا ہے۔ لوگ مشہور شخصیات کے جعلی ای میل اکاؤنٹس بناتے ہیں اور ان کے بارے میں جھوٹی کہانیاں پھیلاتے ہیں۔ درحقیقت، لوگ گھروں میں مختلف صارفین کے اکاؤنٹس کو ہیک کرتے ہیں اور "دوسروں کی نجی زندگی تک رسائی حاصل کرتے ہیں، جس سے تعلقات میں خرابی اور طلاق ہوتی ہے۔ "

جنسی شکاری: سوشل میڈیا شکاریوں کے لیے ایک کھلا دروازہ ہے، اس کا مطلب ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ایک فرد دوسروں کو نقصان پہنچانے کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، سب سے عام منظر جب 42 سال کا آدمی 16 سال کے لڑکے کے جعلی نام اور تصویر کا استعمال کرتے ہوئے ای میل اکاؤنٹ بناتا ہے، دوسروں سے بات کرتا ہے اور ان سے ذاتی طور پر ملنے کو کہتا ہے۔ اس قسم کے شکاریوں کی وجہ سے، بہت سے بچے آن لائن جنسی خواہشات کا شکار ہوتے ہیں۔ جنسی شکاریوں کے علاوہ، سماجی بدسلوکی کی ایک اور قسم ہے جو سائبر بدمعاشی ہے۔

سائبر دھونس: سائبر دھونس الیکٹرانک ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے نقصان پہنچانے یا ہراساں کر کے غنڈہ گردی کا عمل ہے۔ سائبر بدمعاشی کے بہت سے طریقے ہیں لیکن کسی شخص کو دھونس دینے کا سب سے عام طریقہ یہ ہے کہ صارفین کو بدمعاشوں کے اکاؤنٹ میں شامل کیا جائے اور چھیڑ چھاڑ، تضحیک آمیز ریمارکس وغیرہ کے ذریعے صارف کو ہراساں کرنے کے طریقے سے بدمعاشی کرنا شروع کر دیا جائے۔

کسی شخص کو دھونس دینے کا دوسرا طریقہ Myspace، Facebook، Twitter، وغیرہ پر ہتک آمیز ریمارکس لکھنا ہے۔ انٹرنیٹ پر غنڈہ گردی کرنے والوں کے مشکل میں پڑنے کا امکان کم ہوتا ہے کیونکہ کھیل کے میدان میں غنڈوں کے جعلی نام اور تصویر ہو سکتی ہے۔

رازداری کا نقصان: سوشل میڈیا کا ملازمین آسانی سے غلط استعمال کر سکتے ہیں۔ ملازمین خوفناک ریمارکس کرتے ہیں اور غصے میں نامناسب مواد پوسٹ کرتے ہیں اگر آجر زیادہ ردعمل ظاہر کرتا ہے اور ملازمین کو برخاست کر دیتا ہے۔ یہاں تک کہ ملازمین کے تبصرے کمپنی کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں لہٰذا سوشل میڈیا پالیسی کی خلاف ورزی پر ملازمین کے خلاف تادیر کاروائی کی جا سکتی ہے۔

جب یہ واضح ہو جائے کہ آجر ان حالات سے آگاہ ہو رہے ہیں، تو ملازمین کے لیے یہ شکایت کرنا ممکن نہیں ہے کہ یہ مواد نجی تھا اور ان کی پرائیویسی کے حق کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ سوشل میڈیا معلومات کا ایک بہترین ذریعہ ہے لیکن بڑے پیمانے پر لوگوں نے اس کا غلط استعمال کیا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی اچھے سے زیادہ نقصان پہنچا رہی ہے۔

دھوکہ دہی: سوشل میڈیا کے غلط استعمال کا ایک اور نتیجہ ایسی پروڈکٹ خریدنا ہو سکتا ہے جس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اس طرح کے غلط استعمال کی حالیہ مثال فریڈم 251 نامی اسمارٹ فون ہے۔ بہت سے لوگوں نے فون آن لائن خریدا اور بعد میں پتہ چلا کہ کمپنی فراڈ تھی اور اس کا حقیقی وجود نہیں ہے۔ مزید یہ کہ 2012 میں سوشل میڈیا کا غلط استعمال اس وقت حکومت کی توجہ میں آیا جب زلزلے کی مؤرف شدہ ویڈیوز اور تصویریں وائرل ہونا شروع ہوئیں۔

"شرپسند ان تصاویر کو مورف کر رہے تھے تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ یہ آسام اور برما میں ہونے والے شہری فسادات کے مسلمان متاثرین تھے۔ " یہ ذاتی مفاد کے لیے فسادات کو ہوا دینے کے لیے کیا گیا تھا۔ یہ اشتعال انگیزی ہندو تارکین وطن کے خلاف نفرت اور انتقامی پیغامات کا باعث بنتی ہے۔ سوشل میڈیا کے غلط استعمال کا ایک اور اثر یہ ہے کہ نا بالغوں کو بھی ہر قسم کی فحش سائٹس تک آسانی سے رسائی حاصل ہے جس کے نتیجے میں نوجوان نسل کے رویے میں تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے۔

Check Also

Selfie Program

By Syed Mehdi Bukhari