Zarifgate Scandal
ظریف گیٹ سکینڈل
معتدل پسند شخصیت محمد جواد ظریف ایران کےموجودہ وزیر خارجہ ہیں۔ یہ اس عہدے پر 2013 سے کام کررہے ہیں۔ اس سے پہلے کئی اہم عہدوں پر رہ کر اپنا لوہا منوا چکے ہیں۔ اقوام متحدہ اور قومی و بین الاقوامی اداروں میں بھی اپنی خدمات پیش کرچکے ہیں۔ ان کے وسیع تجربہ اور دنیا کی سیاست کا اچھا خاصہ علم ہونے کی وجہ سے ایران نیوکلیئر معاہدے پر پہنچا تھاجس کے نتیجے میں ایران 2016 میں ایک حد تک معاشی و دیگر پابندیوں سے نکلنے میں کامیاب تو ہوا لیکن صدر ٹرمپ کے مذکورہ معاہدے سے پیچھے ہٹنے کی وجہ سے یہ عمل رک گیا اور ایران ایک بار پھر پابندیوں کی دلدل میں دھنس گیا۔ موجودہ حکومتی دورسے قبل بھی ایرانی عوام میں کشیدگی اور اندرونی کشمکش پائی جاتی تھی جس کا نتیجہ انتخابات میں ہوا اور ایرانی عوام نے حسن روحانی کو منتخب کیا جو اس وعدے پر ایران کے صدر بنے کہ وہ ایران کو معاشی طور پر بہتر کریں گے اور ایرانیوں کو دنیا سے جوڑ یں گے۔
بلاشبہ ایران اور امریکہ کے درمیان حالات اور تعلقات دہائیوں کی سرد مہری میں مبتلا آرہے ہیں۔ کشیدگی کی یہ لہر ایران میں اسلامی انقلاب کے آغاز اور نئی انقلابی حکومت بننےکے بعد سے جاری ہے جس میں اتار چڑھاؤ آتے رہے۔ 2019 میں تو جواد ظریف کو امریکہ کی جانب سے پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ امریکہ کی جانب سےجواد ظریف کو "ناجائزایرانی ترجمان" کا لقب دیا گیا جس پر دنیا کےمختلف ممالک سے مختلف رد عمل سامنے آیا۔ یورپی یونین کی ایک اہم لیڈر کی جانب سے نہ صرف امریکی پابندیوں کی مذمت کی گئی بلکہ امریکہ کے اس خطاب پر افسوس کا اظہار کیا گیا۔
گزشتہ ماہ کے آخر میں تین گھنٹوں پر مشتمل ایرانی وزیر خارجہ کےطویل انٹریو کی آڈیو کا کچھ حصہ لیک ہوگیا۔ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ انٹرویو کو لیک کیا گیاکیونکہ جواد ظریف کے مطابق کہ اگر اس گفتگو کو پبلک ہی کیا جانا تھا تو وہ اپنی رائے کا اظہار نہ کرتے۔ ان کہ اس بیان سے یہ اندازہ لگانا بلکل آسان ہوجاتا ہے کہ وہ اس دوران اپنی ذاتی رائے کا اظہار کررہے تھے جس سے اختلاف سب کا حق ہے۔ یہ انٹر ویو ایرانی صحافی اور ماہر معیشت سعید لےلاز نے لیا۔ سعید ایرانی صدر محمد خاتمی کے مشیر بھی رہ چکے ہیں۔ یہ صدر محمود احمدی نژاد کے بہت بڑے ناقد ین میں سے ہیں اور دوران الیکشن کئی بار گرفتار بھی ہوئے۔ ان کے اخبار 'سرمایہ' کو 2009 میں بند بھی کردیا گیا تھا۔ دوران انٹرویو جو بھی باتیں ریکارڈ کا حصہ بنی ان میں ایرانی انتظامیہ، ایرانی خارجہ پالیسی کے احوال اور منصوبہ بندی اور جنرل قاسم سلیمانی کا تذکرہ شامل تھے۔ لیک شدہ ٹیپ ایرانی بیسڈ نیوز چینل 'ایران انٹرنیشنل' کے ہاتھ لگ گئی اور اسے بعد ازاں نیویارک ٹائمز نے شائع کردیا۔
سب سے اہم باتیں جو اس انٹرویو میں منظر عام پر آکر توجہ کا مرکز بنی وہ دو ہیں۔ ایک جواد ظریف کا شہید جنرل قاسم سلیمانی پر تنقید اور دوسرا روس کے ایران نیوکلیئر ڈیل پر مبنی ہیں۔ جواد ظریف کا کہنا ہےکہ مشہورایرانی جنرل قاسم سلیمانی جو امریکی ڈرونز حملے کا نشانہ بنے ایرانی وزارت خارجہ میں عمل دخل اور اثر و رسوخ رکھتے تھے۔ جنرل قاسم سلیمانی قدس فورس کے کمانڈر تھے جس کا مقصد امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے اور امریکی اتحادیوں کو بذریعہ آپریشنز کمزور کرنا تھا۔ یہ فورس ایران کے بیرونی اتحادیوں کیلئے ایک مکمل فوج کی حیثیت سے فوجی آپریشنز کرتی ہیں۔ جنرل سلیمانی کو ایک اندازے کے مطابق ایران میں سپریم لیڈر کے بعد سب سے طاقتور آدمی سمجھا جاتا تھا۔ جنرل سلیمانی پر ایک کتاب 'دی شیڈو کمانڈر ' بھی لکھی جاچکی ہے۔ بقول جواد ظریف، ایرانی وزارت خارجہ کولڈ وار سٹریٹجی کو فالو کررہی تھی جبکہ قاسم سلیمانی کے اثر و رسوخ کی وجہ سے ان کو اپنی سٹریٹجی کو مزید وسعت دینی پڑتی تھی جس کا واحد مقصدایران کا خطے میں کردار ہے۔ ایران شام، عراق اور یمن میں بطور اتحادی مختلف محاذوں پر متحرک نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ ہر اس محاذ پر ایکٹو ہے جس میں سعودی بادشاہت کا کوئی حصہ ہو۔ ایران خانہ جنگی کے شکار ان ممالک میں باغیوں اور اپنی ہم مسلک جماعتوں کی باوجود معاشی و سیاسی پابندیوں کے سر عام پشت پناہی بھی کرتاہے۔ اپنے ان مقاصد میں ایران کچھ اسلامی ممالک سے نوجوانوں کو جہاد کے نام پر بھرتی کرکے ملیشیاز کے وجود کا باعث بھی ہے۔ پاکستانی نوجوان بھی اس مشن کا حصہ رہے ہیں۔ جواد ظریف کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ جنرل قاسم سلیمانی سے کبھی بھی اپنے مقاصد میں مدد طلب کرنے کے قابل نہیں ہوئے۔ ایسا لگتا ہےکہ جنرل سلیمانی جواد ظریف اور ان کے آفس کی پالیسوں پر اثر انداز ہوتے تھے۔ ظریف کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کا اپنا کردرار وزارت خارجہ کی پالیسیوں میں نہ ہونے کے برابر تھا۔ جواد ظریف سلیمانی کے اس رویے اور بے جا مداخلت سے نالاں ہیں۔
دوسرا جنرل سلیمانی ایران کی نیوکلئیر ڈیل کو ناکام کروانے میں بھی ملوث پائے گئے۔ ایران جب سے معاشی باپندیوں کی زد میں ہے تب سے ایرانی نوجوان نسل میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ ایک طرح سے ایران بیرونی دنیا سے کچھ حد تک کٹا ہوا ہے۔ اسی بنیاد پر ایرانی حکومت نے اپنی پالیسی سے پیچھے ہٹ کرڈیل کا راستہ اپنایا جس کا فائدہ ایرانی عوام کو ہونا تھااور ایران کی معیشت نے بھی پھلنا پھولنا تھا۔ جنرل سلیمانی شام کے محاذ پر روس کے ساتھ مل کر اپنے مقاصد کو آگے بڑھاتے رہے۔ وہ 2015 میں ہونے والے نیوکلئیر معاہدے کے بعد ماسکو جاپہنچے جس کانتیجہ اس ڈیل پر اثر انداز ہونا تھا۔ ایرانی وزارت خارجہ کے لیڈر جواد ظریف کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے آفس کو شام میں ہونے والی ایرانی کاروائیوں سے پوشیدہ رکھا گیا۔ یہ امریکی سیکریٹری خارجہ تھے جنہوں نے انکشاف کیا کہ شام میں ایرانی فورسز پر 200 سے زائد حملے کیے جاچکے تھے۔ جنرل سلیمانی کے دیگر اسلامی ممالک میں فوجی طرز کے آپریشنز کی وجہ سے امریکہ نے اس ڈیل سے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا اور جو بائیڈن کے صدر بننے تک ایران انہی پابندیوں میں جکڑا رہا اور جنرل سلیمانی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
سخت تنقید کا سامنا کرنے پر جواد ظریف نے اپنے بیانات پر معذرت کی اور خاص جنرل سلیمانی کے خاندان سے معافی بھی مانگی۔ ایرانی جنرل الیکشنز قریب ہیں۔ ا ن کے لیکڈ انٹرویو کا ایرانی انتظامیہ پر کیا اثر پڑے گا ہم اس کا فیصلہ انتخابات کے نتائج پر چھوڑتے ہیں۔