Siasatdan
سیاست دان
محترمہ بینظیر بھٹو پاکستان کی دومرتبہ وزیر اعظم بنیں۔ گو انہیں سیاست میں کافی تگ و دو کرنی پڑی لیکن ان کو سیاست میراث میں ملی۔ ان کا انتقال دسمبر 2007 کو رالپنڈی میں ایک خودکش دھماکے میں ہوا اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملی۔ اس وقت مسلم لیگ (ق) مرکزی حکومت میں تھی اور صدر جنرل پرویز مشرف تھے۔ محترمہ وطن واپسی سے قبل صدر پرویز مشرف کو بذریعہ خطوط اپنی سیکیورٹی اورلاحق خطرات کے متعلق آگاہ کرتی رہی تھیں۔ اپنے ان خطوط اور روابط کے ذریعے وہ جس قسم کی سیکیورٹی کا مطالبہ کرتی تھیں وہ انہیں نہ مل سکی۔
اس وقت پاکستان میں دہشت گردی اور بم دھماکے اپنی جڑیں مضبوط کررہے تھے۔ پاکستان کو ڈی سٹیبلائز کرنے کیلئے ملک کے ہر حصے میں تخریب کاری ہوتی تھی تاکہ ملک انتظامی طور پر مفلوج ہو جائے۔ ایسا دکھائی دیتا تھا کہ ریاست کی رٹ سرے سے موجود ہی نہیں۔ ہماری عسکری قیادت، حکومت وقت اور عوام کے جذبہ حب الوطنی کے سامنے ایسی کاروائیاں بتدریج دم توڑتی گئی۔ تمام پاکستانیوں نے مل کر اس جنگ کا مقابلہ کیا۔ مختلف آپریشز کے ذریعے دشمن کے سپانسرڈ دہشت گرد اور اینٹی سٹیٹ ایکٹرز کی نشاندہی اور بیخ کنی کی گئی اورنتیجتا امن بحال ہوا۔ عین اس وقت بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کی ساکھ کو خاصا نقصان پہنچ رہا تھا۔
جب پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی و سربراہ ذوالفقار علی بھٹو اپنی زندگی کی جنگ لڑرہے تھے اس وقت وہ بینظر بھٹو کو اپنا سیاسی پارٹی کو قائم رکھنے، ملک میں جمہوریت کی بحالی اور ڈکٹیٹر شپ کے خاتمے کیلئے تیار بھی کر رہے تھے۔ اس وقت کے حاکم ضیاء الحق سیاسی جماعتوں کو دبانے کےلیےہر حربہ استعمال کر رہے تھے۔ وہ اپنے راستے کی ہر رکاوٹ کو بزور طاقت ہٹاتے جاتے تھے۔ جو ان کے سامنے آتا وہ جیل جاتا، منظر سے غائب کردیا جاتا یا بیرون ملک جلاوطن ہوجاتا۔ اسی دوران بینظر بھٹو کو ملک سے باہر بھی جانا پڑا۔
اپنے بین الاقوامی قیام کے دوران محترمہ نے اپنے غیر ملکی دوستوں سے روابط نہ صرف قائم رکھے بلکہ مضبوط بھی کیے۔ یہی روابط بذریعہ انکے ہم جماعت بعد میں اعلیٰ سطح تک جاپہنچے جن کو انہوں نے وقتا فوقتا خوب استعمال بھی کیا اور جنرل ضیاء الحق کے خلاف بطور طاقت استعمال بھی کیا۔
اگر بات کی جائے پاکستان میں جمہوریت اور اسکے قائم دائم ہونے کی تو ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین نے ہمیشہ بین الاقوامی اتحادی یا دوستوں سے مدد طلب کی اور اپنے اقتدار کو دوام بخشا۔ یہ مدد ان کے نزدیک ایک بین الاقوامی رشتہ ہے جو ہمیشہ قائدین کے مابین قائم رہتا ہے۔ اس مدد میں ان کے نزدیک ملکی سالمیت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ کسی کی حکومت گرانی ہو یا اپنی ترتیب دینی ہو، صاحب اقتدار سے کوئی ڈیل کرنی ہو یا اپنا مستقبل بچانا ہو یہی مدد کام آتی ہے۔ اسی بین الاقوامی سرپرستی کوسیاسی قائدین اپنے مخالفین کے خلاف بھی استعمال کرتے ہیں۔ خود محترمہ نے بذریعہ خطوط اسی دوستی کو جنرل ضیاء الحق کے اقتدار کے خاتمے کیلئے خوب استعمال کیا۔
جب مارشل لاء قوانین کا اطلاق ہوتا تو محترمہ "انسانی حقوق کی پامالی " کا لیبل لگا کر جنرل ضیاء پر خو ب پریشر ڈالتی اور اس جلتی پر تیل کا کام ہمارےماضی اور حال کے اتحادی امریکی کانگریس کے اعلیٰ عہدیدار کیا کرتے۔ ایک طرف جنرل ضیاء الحق روس کے خلاف امریکی فنڈڈ نام نہاد جہاد کی گاڑی چلا رہے تھے تو دوسری طرف ان کو محترمہ کے دوستوں کی طرف سے نپے تلے الفاظ میں رزسٹنس بھی محسوس ہوتی۔ محترمہ نے خاتون ہونے کے ناطے ضیاء دشمنی کی ہرحد پار کی۔ صوبائی عصبیت کو خوب ہوا دی۔ اس ساری منظر کشی میں کون کس کو بےوقوف بناتا رہا یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔
جب بھی سیاستدانوں پر برا وقت آتا ہے تو وو دو آپشنز میں سے کوئی ایک کا انتخاب کرتے ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ حکومت سے ڈیل کرکے خود ساختہ جلا وطن ہوجاتے ہیں تاکہ ان کی جان بچ جائے۔ اس طرح حاکم وقت کے حکومتی معاملات میں کوئی بڑی رکاوٹ نہیں رہتی۔ اس سے عوام کا جو مرضی نقصان ہوجائے ان کو کوئی پروا نہیں ہوتی۔ اس ڈیل میں مختلف قسم کے بہانے تراشے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک سیاسی پارٹی کے قائد بیمار ہوجاتے ہیں۔ ان صاحب کو ایسی بیماری لگ جاتی ہے جس کا اعلاج پاکستان میں ممکن نہیں ہوتا۔ یہ بیماری ان کو اپنے دورحکومت میں کبھی نہیں لگتی۔ جیسے ہی وہ زیر اعتاب آتے ہیں تو وہ سخت بیمار ہوجاتے ہیں۔ دوسرے پارٹی لیڈران، پارٹی ورکرز اور ان کے ووٹرز پس پشت ڈال دیے جاتے ہیں۔
جیسے ہی ملکی حالات ان کے حق میں ساز گار ہوتے ہیں یہ فوری ٹھیک ہوجاتے ہیں اور ملک میں واپس آجاتے ہیں۔ اب وہ پہلے سے زیادہ ہشاش بشاش اور توانا دکھائی دیتے ہیں۔ منظرنامے پر ان کی واپسی ٹارزن کی واپسی جیسی ہو تی ہے۔ ان کی واپسی ملکی حالات کے پیش نظر اور جمہوریت کی بحالی کی نوید ہو تی ہے۔ ان کی بیماری پراسرار طور پر اگلے کئی سالوں کیلئے جادوئی طور پر ختم ہوجاتی ہے۔ واپسی پر ان کو دنیا کی کوئی طاقت صحت یاب ہونے سے نہیں روک سکتی۔
دوسرا وہ اپنی جان چھڑانے کیلئے اپنے بین الاقوامی دوستو ں کی طرف دیکھتے ہیں اور ان کی مداخلت کے منتظر رہتے ہیں۔ ان بین الاقوامی دوستوں کی طرف سے مختلف قسم کی بیان بازی اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز پر تواتر سے چلائی جاتی ہے تاکہ عوامی حمایت حاصل کی جائے۔ محترمہ اپنی والدہ کے بیمارہونے کا تذکرہ بھی کرتی رہی اور ان کی بیمارپرسی کیلئےمتعدد بار ملک کسے باہر جانے کی سعی بھی کی۔ جب ان کو یہ لگا کہ وہ جنرل ضیاء الحق کی ڈکٹیٹر شپ کا مقابلہ نہیں کر سکتی تو انہوں نے اپنے ہی ملک کے خلاف اپنے ان خاص بین الاقوامی دوستوں کی دوستی کا خوب فائدہ اٹھایا۔ پہلے مارشل لاء دور میں محترمہ نےیہی سٹریٹجی اپنائی۔ دوسرے نیم مارشل لاء میں وہ اپنے اور اپنے خاوند کے خلاف احتساب کیسز سے بچنے کیلئے خود ساختہ جلا وطن ہوگئی۔
پاکستان میں جمہوری اور غیر جمہوری ادوار میں ایسا ہی منظرنامہ بن جاتا ہے یا بنا دیا جاتا ہے۔ عوام آجاکر اسی غلام گردش میں رہتے ہیں جن کے وہ عادی ہوتے ہیں۔ لیکن ایسے لیڈران دو میں سے کسی ایک آپشنز کا انتخاب کرلیتے ہیں۔ وہ اپنا سیاسی عہد بھی بھول جاتے ہیں جس کے تحت انہوں نے ملک کو خوشحال، خود مختار اور مضبوط بنانا ہوتا ہے۔ وہ یہ سرے سے ہی بھول جاتے ہیں کہ جس ملک نے انہیں سیاست دان اور صاحب اقتدار بنایا ہوتا ہے اس کے ساتھ وفا کرنی ہے۔