Roomi Fatoohat
رومی فتوحات
انسانی تاریخ میں یہ فلسفہ اور اس کی عملی شکل روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب کوئی سلطنت یا ریاست کسی علاقے میں اپنے پاؤں جماتی ہے تو وہ اپنی طاقت کا اظہار مختلف طریقوں سے کرتی ہے۔ سب سے آسان اظہاریہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے سے کمزور اور عسکری طور پر کم تر ریاستوں پر قبضہ کرنا شروع کردیتی ہے۔ اپنی اسی طاقت کے بل پروہ اپنی جغرافیائی سرحدوں کو وسعت دیتی ہے۔ جیسے فارسیوں اور پھر یونانیوں نے کیا۔ جیسے جرمنی، فرانس اور انگلینڈ نے کیا۔ جیسے آج کے دور میں ہم امریکہ، روس اور چین کی مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔
روس یورپ پر حکمرانی کا خواہاں ہے تو چین بطور ایک معاشی طاقت اب اپنی فوجی طاقت منواتے ہوئے کئی ممالک میں اپنے فوجی اڈے قائم کر رہا ہے۔ چینی طاقت امریکہ کو ہر پلیٹ فارم پر منہ چڑھارہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ کے آج بھی بہت سے ممالک میں زمینی، فضائی اور نیول اڈےموجود ہیں جن کی مدد سے وہ قریبا پوری دنیا کی گزرگاہوں کی جاسوسی اورنگرانی کررہا ہے۔ تاریخ میں جھانکیں تو پتہ چلتا ہے کہ رومی بھی اسی فلسفے پر عمل پیرا ہوئے اور اپنی طاقت، عظمت اورسرحدوں کو بڑھانے میں مصروف عمل ہوگئے۔
رومی جب سول وار سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اپنی طاقت میں اور اضافے کے ساتھ ساتھ اپنی کمزوریوں پر جلد قابو پالیا۔ تھوڑے ہی عرصے میں وہ پورے اطالیہ پر قابض ہوگئے اور یوں باقاعدہ ایک رومن ایمپائر معرض وجود میں آگئی۔ فلسفہء وسعت سلطنت او ر برتری پر چلتے ہوئے رومی بطورنئی سپر پاور جزیرہ سسلی کی طرف بڑھےتاکہ اس کو اپنی سلطنت میں ضم کرلیں۔ جزیزہ سسلی یا سسلیہ موجودہ اٹلی کے ساتھ ہی واقع ہے۔ اس مذکورہ جزیرے کا جغرافیائی محل وقوع نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
اس کی اہمیت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اٹلی کا ایک خاص علاقہ اس جزیرے پر کنٹرول کےبغیرہرلحاظ سے غیر محفوظ ہوجاتا ہے۔ اگر اس علاقے پر کسی بیرونی طاقت کا قبضہ ہوجائے تو یہاں سے اطالیہ پر حملہ کرنا آسان ہے۔ اس کے علاوہ اطالیہ کے مغربی ساحل پر جزائر سارڈینیا اور کرسکا پائے جاتے ہیں۔ ان کی بھی دفاعی اہمیت و افادیت جزیرہ مذکورہ سے مماثلت رکھتی ہے۔ ان جزائر کے سبب رومیوں کو قرطاجنوں کے ساتھ جنگوں کا ایک سلسلہ لڑنا پڑاجن کے باعث تاریخ نے کئی موڑ لیے اورکئی ہیروز سامنے آئے۔ آخر کار رومی ان مہمات میں ایک ایک کر کےسرخرو ہوئے۔
رومی اور قرطاجن (کارتھیج، تیونس) دونوں ایک دوسرے سے ہرلحاظ سے واقف تھے۔ کیونکہ ماضی میں دونوں ایک ساتھ تیسری قوت کے خلاف مل کر ایک جنگ بھی لڑ چکے تھے۔ جزیرہ سسلی پر قبضے کے لیےدونوں کے درمیان ایک مسابقت شروع ہوگئی۔ دونوں اس جزیرے پر ایک عرصہ سے قبضہ جمانے کے خواہاں تھے۔ قرطا جنیہ یا کارتھیج اس جزیرے پر قبضہ اپنا حق سمجھتے تھے اور رومی اس خطہ کو ہر صور ت اپنے کنٹرول میں لانا چاہتے تھے تاکہ ان کا دفاع اور بھی مضبوط ہوسکے۔
سسلی پر قبضے کے اغراض و مقاصد میں یہ حکمت بھی شامل تھی کہ فریقین میں کون زیادہ بحری قوت رکھتا ہےاور سمندری طاقت میں کون سبقت لے جاتاہے۔ اس مسابقت میں پہلے قرطاجنیوں نے سامنیوں کی مدد سے ایک عظیم بحری بیڑہ بنالیا۔ یوں تو قرطاجنیہ ایک مضبوط بحری قوت تھے ہی لیکن وہ روم کی مسلسل فتوحات کو کسی طور نظر انداز نہیں کرسکتے تھے۔ لہذا وہ بڑھتی ہوئی رومی پیش قدمی کو بھانپ گئے اور ممکنہ جنگ کی تیاری میں مشغول ہوگئے۔
ایک طرف رومی فوج جہاں اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑ رہی تھی تو دوسری طرف وہ اس مہارت کی وجہ سے بھی مشہور تھی کہ وہ درپیش جنگی مسائل اور عسکری کمزوریوں پر نہایت کم وقت میں قابو پالیتی تھی۔ رومی فوج کے جنرلز اپنی منصوبہ بندی، عزم و ہمت اور استقلا ل کی وجہ سے بھی جانے جاتےتھے۔ ایسے ہی رومیوں نے بھی قرطاجنیوں کی طرز پر کم عرصے میں بحری جہاز اور بیڑے تیار کر لیے۔ ان جہازوں اور بیڑوں کی تشکیل کے دوران انہوں نے ایک بحری حکمت عملی بھی ایجاد کی جس کی مدد سےپہلے وہ دشمن کے جہازوں کو اپنے شکنجے میں لے لیتے اور پھر دو بدو لڑائی شروع ہوجاتی۔ جیسے بری جنگ میں دشمن کا محاصرہ کیا جاتا ہے یا اس کی چاروں طرف سےپیش قدمی کو روک دیا جاتا ہےاور پھر ایک طاقتور حملہ کیا جاتا ہےبالکل ایسے ہی رومیوں نے بھی اس سٹریٹجی کی اختراع ڈالی۔
سسلی پر قبضہ کرنے اور قرطاجنیوں کو شکست دینے کے بعد رومی افریقہ کی طرف بڑھے تاکہ خود قرطاجنیہ پر قبضہ کرکے اس جنگ کو ختم کریں اور ساتھ ہی اپنی عظمت کا لوہا منواسکیں۔ لیکن وہ ایسا بہت جلد نہ کرسکے بلکہ رومیوں کو اس خطہ پر قبضہ کرنے میں نہایت دشواری اور سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ رومی جنرلز کا سامنا کئی ایسے قرطاجن سپہ سالاروں سے ہوا جنہوں نے رومیوں کو ناکوں چنے چبوائے۔ افریقہ کے ساحلوں پر اترتےہی رومی فوج کو سخت نقصانات اٹھانے پڑے۔ کئی رومی بیڑے طوفانوں کی نذر ہوگئے۔
اس جنگ کا خاتمہ ایک قلعہ کے محاصرہ اور قبضہ پر ختم ہوا۔ رومی فوج کے مد مقابل قرطاجنیوں کا سپہ سالار ہملکار ایک زیرک، جرات مند، دلیر اور قابل جنرل تھا۔ تاریخ ہملکار کی بہادری کی شاہد ہے کہ کیسے رومی حملہ آور فوج کو ہملکار کے سامنے کئی مرتبہ منہ کی کھانی پڑی۔ رومی چونکہ فاتحین چلے آرہے تھے لہذا ہملکار زیادہ دیر تک اپنا دفاع نہ کرسکا۔ ہملکار کے بعد ایک جری اور بہادر جنرل کا ذکر ملتا ہے جو رومیوں کے لیے مسلسل درد سر بنا رہا۔
قرطاجنیوں کی یہ شکست اور رومیوں کی فتح نے ثابت کردیا کہ جزیرہ سسلی پر قرطاجن کی پہنچ اور قبضے کے سارے خواب ہمیشہ ہمیشہ کے لیےختم ہوگئے۔ جبکہ دوسری طرف رومی ایک فاتح کی حیثیت سے اطالیہ سے نکل کر سسلی اور دیگر افریقی علاقوں پراپنی دھاک بٹھا چکے تھے۔ لیکن جزیرہ سسلی پر رومی اپنی عسکری کاوشوں کے باوجودمکمل طور پر قابض نہ ہوسکے۔ جزیرہ سسلی کے کچھ علاقوں پرقرطاجن ابھی تک قابض تھے۔
ان فتوحات کے دوران رومیوں نے اپنی سرحدیں شمال میں بھی بڑھانا شروع کردیں۔ ان کی سلطنت کی سرحدیں کوہ آلپس کی دوسری طرف پہنچ چکی تھیں۔ وہاں اس وقت قوم غال آباد تھی۔ یہ وہی علاقہ اور قوم تھے جہاں آج فرانس ملک اور فرانسیسی آباد ہیں۔ رومیوں اور غالیوں کے درمیان ہونے والی لڑائی کو جنگ فینقی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
اس جنگ کے نتیجے میں بظاہر غالی آزادی سے محروم ہوچکے تھے لیکن وہ ابتدائی ادوار میں مکمل طور قابض رومیوں کے زیر اثر نہیں آئے۔ وہ ذہنی طور پر رومیوں کو اپنے حکمران اور بادشاہ ماننے کیلئے تیار نہیں تھے۔ انہوں نے جلد ہی اپنی آزادی واپس چھیننے کے لیے مسلح جدوجہد شروع کردی اورہتھیار اٹھالیے۔ لیکن ان کی تمام تر کاوشیں کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکیں اور ایک بار پھر رومی اپنی کامیابیاں ثابت کرگئے۔