Rome Ba Muqabla Unan
روم بمقابلہ یونان
ڈارون کی تھیوری ہے کہ سروائیول صرف اسی کا ممکن ہے کہ جو ہر دور اور تبدیلی میں اپنے آپ کو ڈھال لےیا حالات کے ساتھ مطابقت اور وسعت پیدا کرلے۔ اگر بدلتے حالات اور واقعات کے ساتھ کوئی مخلوق مطابقت یا ہم آہنگی نہیں کرتی تو پھر اس کا زندہ رہنا نہایت مشکل و ناممکن ہوجاتا ہے۔ المختصر "سروائیول آف دا فٹیسٹ"۔
یہی حال ان اقوام کا بھی تھا جنہوں نے وقت کے بہتے تیز دھارے میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کیا۔ ضرورت زمانہ اور وقت کی ڈیمانڈز کے مطابق اپنے آپ کو بدلتی اور جدت دیتی رہیں۔ ایسا کرنے میں وہ اپنی جداگانہ شناخت اور حیثیت قائم رکھنے میں کامیاب رہیں۔ اس کے برعکس جن اقوام نے اپنے آپ کو وقت کے مطابق نہ بدلا آج ان کا نام و نشان باقی نہیں۔ تاریخ میں صرف ان کے کوائف موجود ہیں۔
تاریخ یورپ کے مطالعہ اور مشاہدہ میں یہی کچھ دیکھنے کو ملتاہے۔ رومیوں نے ہر آنے والے وقت کے ساتھ نئے اثر کو قبول کیا۔ ان کی خصوصیات میں یہ بات شامل تھی کہ وہ اپنی کمزوریوں کا جلد سراغ لگا لیتےاور ان کو ختم کردیتے۔ وہ نہایت کم وقت میں کامیابی سمیٹ لیتے۔ جنگ قرطاجنہ میں رومیوں کو جو کامیابیاں حاصل ہوئیں ان سے ان کی طاقت میں مزید اضافہ ہوگیا۔ ہینی بال کو شکست دینے سے ان کے راستے میں حائل ایک بڑی رکاوٹ دور ہوگئی۔ یوں میدان خالی ہوگیا اور منظر واضح۔ لیکن ہینی بال ان کیلئے آنے والے وقت میں پریشانیاں پیدا کرتا رہا جس کو ختم کرنے میں رومیوں نے مزید کئی ممالک کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔
قرطاجنہ کے بعد رومیوں کے لیے بحیرہ روم اور اس کے تمام ممالک پر قبضہ کرناایک نیا مقصد تھا۔ حالانکہ ان ممالک اور اقوام کا بظاہر رومیوں سے کوئی لینا دینا نہ تھا۔ ان کی زبان، رنگ و نسل، ثقافت و مذہب تک رومیوں سے جدا اور الگ تھا۔ رومیوں اور ان اقوام کے درمیان کوئی وجہ عناد بھی نہ تھا لیکن روایت یہی ہے کہ فاتح قوم کیلئے نئی جنگ چھیڑنا کوئی مشکل نہیں۔
سکندر یونانی کی موت کے بعد ایشیائی ممالک پر اس کے جنرلز اور بعد میں ان کی اولادیں حکومت کرتی رہیں۔ سلطنت شام پر سلیوکس کی اولاد قابض تھی اور مصر پر بطلیموس کی نسل حکمران تھی۔ ان ریاستوں کے مقامی باشندوں میں قومی روح موجود نہ تھی۔ ان پر بظاہر تو یونانیوں کی حکومت تھی لیکن مقامی باشندےصرف رعایاتھے۔ اس لیے حاکم و محکوم میں کوئی مضبوط لسانی، گروہی یا ثقافتی رشتہ موجود نہ تھا۔
حکمرانوں اور مقامی لوگوں میں کئی فاصلے تھے۔ اس کے برعکس روما میں مجسٹریٹ، سینٹ اور فوج کے جنرلز تک وطن پرست رومی نسل تھے۔ رومیوں میں جذبہ حب الوطنی اور قوم پرستی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ یہی جذبہ ان کی کامیابیوں میں ایک نیوکلئیس کی طرح کام کرتا تھا۔ رومیوں سے پہلے یونانیو ں میں بھی مذکورہ جذبات غالب تھےجن کی مدد سےوہ ایک عرصے تک فاتح رہے۔
یونانی ریاستیں، تھیبز، کورنتھ، ایتھنز اور سپارٹا وقت کے ساتھ ساتھ کمزور ہوتی چلی گئیں۔ ان میں باہم اتحاد و یگانگت کا اثر زائل ہو گیا۔ ایک وقت آیاجب یہ تمام ریاستیں رومیوں کے حلقہ بگوش ہوگئیں۔ جلد وہ زمانہ آیا کہ رومی ایتھنز، سکندریہ (الیگزینڈریہ) اور دیگر مشرقی شہروں میں حصول علم کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ فن حرب و سپہ گری پر بہت سی یونانی کتب اور مثالیں موجود تھیں لیکن پھر بھی رومی باآسانی ان ممالک پر قابض ہوگئے۔
سب سے پہلے ریاست مقدونیہ کے بادشاہ فلپ نے جنگ کنائے کے بعد شکست خوردہ ہینی بال سے ساز باز کرلیا اور مقدونی سپاہی جنگ زاما میں قرطاجنوں کی طرف سے لڑے۔ رومی اس حرکت سے سخت نالاں تھے۔ اس لیے انہوں نے ریاست مقدونیہ پر یلغار کی اور مقدونیوں کو شکست دی۔ اس جنگ میں روما کی فوج نے مقدونیہ کے فلانکس کا مقابلہ کیا جو دلچسپ تھا۔ رومی ہموار زمین پر مقدونیوں سے مقابلہ نہ کر سکتےتھے۔ ان کو بار بار یونانیوں سے ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔
رومی دھوکے سے ان کو ناہموار زمین پر لاتےجس سے یونانیوں کی صفیں ٹوٹ جاتی اور یوں رومی غالب آگئے۔ یونانی سپاہی صفہ بستہ ہو کر نہات تکنیک سے لڑتے اور صفیں ٹوٹ جانے سےبکھر جاتے اور کمزور پڑ جاتے۔ روما نے مقدونیہ کو زیر کرنے کے بعدان سے ناروا سلوک نہیں کیا بلکہ وہ یونانی علوم و فنون کا مطالعہ کرنے میں لگ گئے۔ رومی یونانیوں آرٹ اور کلچر کا بغور مطالعہ کر تے جس سے یونانیوں میں یہ تاثر ابھرا کہ یونانی علوم و فنون واقعی رومیوں کے اند ر گھر کر گئے ہیں۔
مقدونیہ کی شکست بھانپتے ہوئے کورنتھ کے سربراہ فلامینس نے اعلان کیا کہ وہ ایک آزاد قوم ہیں اور کسی کی اطاعت قبول نہیں کرتے۔ اس اعلان کے بعدیونانی خواب دیکھنے لگے کہ شاید ان کا شان دار ماضی لوٹ آئے۔۔ لیکن فلامینس کے اعلان آزادی اور شام کے بادشاہ کی مدد نے رومیوں کو الرٹ کردیا۔ شکست خوردہ اور جلا وطن ہینی بال نے شام کے دربار میں پناہ لی اور اپنی خدمات پیش کیں۔
رومیوں کو یہ بات بھی ناگوار گزری۔ شاہ شام انیٹولس نے ہینی بال کی مشاورت پر کان نہ دھرے۔ اس کے نیتجے میں اس کی فوج کو رومیوں سے سخت شکست ہوئی جس سے ہینی بال وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ رومی اس کا تعاقب کرتے کرتے ایشیائے کوچک تک چلے گئے۔ آخر کار ہینی بال نے یہ سوچ کر خود کشی کرلی کہ کہیں فاتح رومی شکست خوردہ شامیوں سے اس کی حوالگی کا مطالبہ نہ کردیں۔
مقدونیہ کا دوسرا بادشاہ پرسیس تھا۔ وہ ایک بلند عزم و ہمت اور جری شخص تھا۔ اس کو رومیوں کی اطاعت نہ قابل قبول نہ تھی۔ خود یونانی بھی رومی اطاعت کو تسلیم نہ کرتے تھے۔ یونانی رومیوں کے خلاف اپنی حقیقی آزادی کیلئے متحد ہونے لگے۔ رومیوں کو اس منصوبے کی بھی خبر ہوگئی۔ انہوں نے مقدونیوں پر دوسری مرتبہ فوج کشی کی۔ شروع میں مقدونی غالب رہے لیکن رومیوں نے خاندان سی پیوا سے مدد کی درخواست کی۔ سی پیوا کے شامل ہونے سےوہ یہ جنگ جیت گئے۔ بعد میں رومیوں نے نہایت ہوشیاری سے بادشاہ مقدونیہ کو معزول کرکے مقدونیہ کو چار جمہوری ریاستوں میں تقسیم کردیا جن کی آزادی برائے نام تھی اور وہ روما کے زیر اثر رہیں۔
مقدونیہ کے بعد کورنتھ کی باری آئی۔ کورنتھ کی رومیوں کے ہاتھوں شکست ہوئی اور پورے شہر کو رومیوں نے مسمارکردیا۔ قرطاجنہ کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا گیا تھا۔ اس افریقی خطے کو برباد کرنے کے بعد رومی اس اندیشے میں لاحق تھے کہ کہیں قرطاجنی پھر سر نہ اٹھالیں۔ قرطاجنہ کے اختتام کے بعد بھی ان کی تجارت زور شور سے چلتی رہی۔ اہل روما نےقرطاجنہ کی بیخ کنی کرنے کے ارادے سے ایسی سخت اور نا قابل قبول شرائط رکھیں جو کسی صورت نہ مانی جاسکتی تھیں۔ شرائط سے انکار پر جنگ ہوئی۔ اس دفعہ قرطاجنی دل کھول شجاعت سے لڑے اور مقابلہ کرتے رہے لیکن ان کا وقت آن پہنچا تھا۔
بحیرہ روم کے تمام ممالک رومیوں کے کنٹرول میں نہ آسکے لیکن ان میں زیادہ تر رومی اثر میں ضرور تھے۔ ہر عروج کو زوال ہے۔ بلندی کے بعد پستی ہے۔ زندگی کے آخر میں موت ہے۔ شروعات کے بعد اختتام ہے۔ ایسے ہی سلطنت روما کے ساتھ بھی ہوا۔ رومی سینٹ زوال پذیر ہوا۔ رومی شان و شوکت بتدریج کم ہوتی چلی گئی۔ رومیوں کے مثالی عادات و خصائل باقی نہ رہے۔ رومی جذبہ قوم پرستی مانند پڑگیا۔ رومیوں میں بغض و حسد کی آگ جلد بھڑک اٹھی۔